پٹ فیڈر کینال کشمور سندہ سے نکل
کر بلوچستان کے ان علاقون کو سیراب کرتا ہے جن کو بلوچی زبان یا علاقائی
زبان میں پٹ کہا جاتا ہے۔پٹ فیڈر جن علاقوں کی زمین کو سیراب کرتا ہے ان
میں ضلع نصیرآباد و جعفر آباد سر فہرست ہیں۔
ضلع نصیرآباد کے ایریا میں پٹ فیڈر ایک بند کی حیثیت رکھتا ہے،اور پٹ فیڈر
کینال ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے زندگی کو بچاتا ہے۔
صوبہ بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ میدانی و پہاڑی ہے،جب زیادہ بارشیں ہوتی
ہیں تو پہاڑوں سے پانی میدانوں کی طرف بہنے لگتا ہے،اور پھر وہ پانی سیلابی
شکل اختیار کرنع لگتا ہے،اسی طرح جب سبی،ڈیرہ بگٹی اور ڈیرہ غازی خان کے
علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو،یہ ایک سیلابی ریلے کی شکل میں
لہڑی،سبی،اور نصیرآباد کے علاقوں کا رخ کرتی ہیں اور تباہی مچا دیتی ہیں،جن
کی وجہ سے ہزاروں لوگ موت کا شکار بن جاتے ہیں۔
نصیرآباد میں ہر ٢ سال بعد سیلاب آتے ہیں،مگر انکی نوعیت میں فرق ہوتا
ہے۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے،یہ سیلاب دیکھتا آیا ہوں،بچپن میں بڑا مزہ
آتا تھا،مگر جب بڑے ہوتے گئے سب کچھ سمجھ آتا گیا۔
میری زندگی میں اب تک سب سے بڑا سیلاب ٢٠١٢ کا سیلاب تھا،جس نے بہت تباہی
مچائی،میں جب بھی اس سیلاب کو یاد کرتا ہوں تو خود کو خوش قسمت تصور کرتا
ہوں،کیونکہ اس سیلاب میں نہ صرف میں بلکہ میرے عزیز و اقارب محفوظ رہے۔
صبح کا وقت تھا ،پورے سات دن بعد بارش نے جان چھوڑ دی،اور لوگ اپنے کام کی
طرف نکل پڑے،میرے بڑے بھائی اور کچھ کزن میدان کی طرف زمین کی پانی دیکھنے
چلے گئے،چونکہ بارشوں کی وجہ سے کالج بند تھا،میں نے “اردو ڈائجسٹ“ صندوق
سے نکال کر پڑھنے لگا تھا کہ اچانک شور بلند ہوا کہ سیلاب آیا ہے،میں نے
اپنے اوسان بحال کر کے اپنے تمام گھر والوں کو ماموں کے گھر پہنچایا،کیونکہ
ماموں کا گھر گاؤں کے دوسرے گھروں کی نسبت محفوظ تھا۔
سیلاب بڑھتا ہی جا رہا تھا،پانی میں انسانوں اور جانوروں کی لاشوں سمیت بہت
سارا قیمتی سامان بہ رہا تھا،مگر ہر کسی کو اپنی پڑی تھی۔
جب پانی دروازوں سے بھی اہپر گزرنے لگا تو ہم نے چھت پر چڑھنا شروع کیا۔چھت
پر ہونے کے باوجود بھی ہمیں اپنا موت نظر آرہی تھی،کیونکہ پانی مسلسل بڑھ
رہی تھی۔
ہم چھت پر اداس بیٹھے کسی فرشتے کی انتظار کر رہے تھے،مگر حد نگاہ تک پانی
ہی پانی تھا،ہاں البتہ درختوں کے سر نظر آرہے تھے۔
اسی طرح رات ١٢ بجے پانی کم ہونا شروع ہوا،اور صبح تاک پانی بہت کم ہو گیا
،اور دن کے ١٢ بجے تک ہمارے باہر کے عزیزواقارب نے ایک کشتی کا بندوبست کیا
اور ہم نے اہل و عیال کو کشتی میں سوار کرکے خود تیرتے ہوئے باہر آئے۔
جب ہم باہر نکلے تو ہم ایک دوسرے کو حسرت سے دیکھ رہے تھے،میرے دوست مجھ سے
مل کر بہت روئے،اور ہمیں بھی رونا آیا۔
دوسرے دن ہم نے مل کر علاقے میں پڑے لاش ایف سی و پولیس تک پہنچائیں،اس
سیلاب میں میرے کوئٹہ کے دوستو نے بھی کافی مالی مدد کی۔میں انکو سچا دوست
تصور کرتا ہوں۔کیونکہ سچا دوست وہ ہے جو مصیبت میں کام آئے۔
یہ واقعہ میری زندگی کا ایسا واقعہ ہے،جس کو میں نہیں بھلا سکتا،کیونکہ
ایسے واقعات ہمیشہ زہن پر نقش بن جاتے ہیں ،جس وقت آپ زندگی اور موت کی
کشمکش میں ہوتے ہیں۔ |