جس شہر میں روزانہ بیس سے تیس لوگ دہشت گردی میں مارے جا
رہے ہوں، جہاں نہ قانون نافذ کرنے والے اہل کار محفوظ ہوں ، نہ علما، نہ
صحافی اور دانشور اور نہ استاد وہاں میلے یا فیسٹیول کی بات کرنا ان لوگوں
کے زخموں پرنمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے جن کے پیاروں کو بغیر کسی قصور
کے موت کے گھاٹ اتار ا جارہا ہے۔’’اپنی ثقافت پہ ناز کرو، پاکستان سے پیار
کرو" یہ کہنا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے نومولود چیرمین بلاول بھٹو زرداری
کا، سندھ فیسٹیول کی مقبولیت کے لئے نشر کئے جارہے ویڈیو اشتہار میں۔ کیا
اچھا ہوتا اگر نوجوان بلاول زرداری پاکستان کی یکجہتی کے لئے کوئی فیسٹیول
کا انعقاد کرتے اور اس کی مقبولیت کے لئے یہ کلمات فرماتے۔جو خود مغربی
معاشرہ کی پرورش کی پیداوار ہوں، جو سندھ کی شاہراہوں پر بغیر محافظ کے چل
پھر نہیں سکتے ہوں اور جن کو خود سندھ کی زبان، تہذیب و تمدن کا پتہ نہ ہو
وہ آج سندھ کی ثقافت کے فروغ کی بات کر رہے ہیں یہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ
مذاق اور سندھ کی ثقافت کی توہین نہیں تو کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے
سیاست کا بیڑا اٹھایا تھا اور صحیح جمہوریت ملک میں نافذ کرنے کا وعدہ کیا
تھا، پچھلے 50 سالوں میں نہ تو ملک میں صاف ستھری سیاست کر سکے او نہ ہی
شفاف جمہوریت نافذ کر سکے اور چلے ہیں سندھ کی ثقافت کو فروغ دینے۔آخر
پاکستانی قوم سے یہ مذاق کب تک جاری رہے گا؟ایک طرف تو سندھ کے دارالخلافہ
اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو دہشت گردوں نے دارالقتل اور مذبح
اورطالبان نے دہشت گردی کا فیسٹول بنادیا ہے وہیں دوسری طرف بلاول زرداری
کو اِسی شہر میں سندھ فیسٹیول کا رنگا رنگ پروگرام سجانے کا جنون سوار
ہے۔ہاں سمجھا جا سکتا ہے کہ بلاول کی عمر اْنکو اسِ قسم کی رنگینیوں کے لئے
اکْساسکتی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اسِ طرح کی رنگین محفلیں، ثقافتی ناچ
گانا اور فن کا مظاہرہ کا انعقاد دلِ کو لبھانے کا ساز و سامان تو ہو
سکتاہے مگر اس کی بحالی یا فروغ میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا، یہ چیزیں
ایک خوشحال اور پر سکون معاشرہ کی صحتمند سرگرمیاں ہوتی ہیں ،اور پھر ثقافت
کی نشوونما یا فروغ کے لیے کوئی سیاسی نعرہ یا حکمتی عملی وضع نہیں کی جاتی
بلکہ یہ تو معاشرہ کے مسلسل رہن سہن اور سماجی ضروریات سے جنم لیتی ہیں اور
پھر وقت اور حالات کے ساتھ اسِ میں تبدیلیاں اور تغیرات ہوتے رہتے ہیں۔ پھر
سوال یہ ہے کہ بلاول زرداری سندھ کی کسِ ثقافت کی بات کر رہے ہیں کیونکہ
اپنے والد محترم آصف علی زرداری کی طرف سے تو یہ بلوچ ہیں۔ تبدیلی، فروغ یا
بحالی سب سے پہلے گھر سے شروع ہوتی ہے ، کیا بلاول زرداری سمیت بھٹو خاندان
کا کوئی بھی فرد یہ بتا سکتا ہے انہوں نے سندھ کی زبان، لباس، تاریخ اور
ثقافت کو کتنا اپنایا ہے۔ بلاول زرداری صاحب کو چائیے کہ پہلے سندھ کی
ثقافت اپنے آپ پر نافذکریں۔سندھ دھرتی نے سر زمینِ عرب سے آئے محمد بنِ
قاسم سے لیکر ترکی، افغانستان، کردستان، بلوچستان، سرحد، پنجاب اور خطہ کے
مختلف علاقوں سے آئے لوگوں کو اپنے اندر بسایا۔ کلہوڑا، آفندی، سومرو،
بھٹو، تالپور، زرداری، مغل، مرزا، قریشی سب مختلف دور میں سندھ میں مختلف
جگہوں سے آئے اور سندھ کی تغیر پذیر ثقافت کا حصہ بنے۔ پچھلے ساٹھ سالوں
میں سندھ کی ثقافت میں ایک بڑا تغیر آیا ہے۔ پاکستان کے بعد سے سندھ کی
ثقافت بہت زیادہ کثیرالثقافت ہو چکی ہے۔ یہاں پاکستان کی ہر زبان بولنے
والا بستا ہے۔ سندھی اور اردو زبان بولنے والوں کی اپنی اپنی ثقافت ہیں
لہٰذا سب سے پہلے تو سندھ اور سندھ کی عوام کو امن اور تحفظ کی ضرورت ہے۔
پھر سندھ میں کثیر الثقافت پروگرام منعقد کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایک مخصوص
کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرکے مزید سیاست کرنے کی۔ میلے یا فیسٹیول ایک خوشحال
معاشرہ کی سرگرمیاں ہوتی ہیں کسی سیاسی جماعت کا ایجنڈا نہیں ہوتے۔کیا
پاکستان، سندھ اور بالخصوص کراچی میں ایسے حالات ہیں کہ یہاں ثقافت کے فروغ
کے لئے محفلیں سجائی جائیں۔ کراچی میں تو لوگ شام ہونے سے پہلے اپنے گھروں
کو خیریت سے پہنچنے کی فکر کرتے ہیں، تاکہ کہیں کسی دہشت گردی کا شکار نہ
ہو جائیں۔ کیا سندھ کی عوام کو یہاں پر حکومت کرنے والوں نے ذہنی طور پر
اسِ قابل چھوڑا ہے وہ ثقافتی پروگرام منعقد کریں یا اسِ میں شریک ہوں۔
ثقافت کسی کے کہنے یا ایک دو فیسٹیول کرانے سے فروغ نہیں پاتی۔ ایک پرْ
سکون اور خوشحال معاشرہ میں یہ خود بخود فروغ پاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب
کراچی سمیت سندھ کے ہر شہر میں بڑے بڑے ادبی، ثقافتی پروگرام، مشاعرے ، اور
رنگا رنگ تقاریب ہوا کرتی تھیں۔کراچی اور حیدرآباد میں تھیٹر چلا کرتے تھے،
جن کے ذریعہ سے پاکستان میں بڑے بڑے فنکار پیدا ہوئے جنہوں نے پاکستان کے
فنون لطیفہ کو ساری دنیا میں اعلی مقام بخشا۔ آج نہ وہ پروگرام ہیں اور نہ
وہ فنکار۔سوال یہ ہے کہ بلاول زرداری کوآخر صرف سندھ فیسٹیول کا خیال ہی
کیوں آیا؟ کیونکہ سندھ سے بڑا صوبہ تو پنجاب ہے اور پنجاب کی ثقافت کا اثر
تو پورے پاکستان پر ہے۔ اسی طرح سے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ بھی صوبے
ہیں جو اپنی تاریخ، ثقافت ، تہذیب و تمدن رکھتے ہیں۔ بلاول زرداری نے پنجاب
فیسٹیول کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی تو ہمیشہ وفاق کی جماعت
اور وفاق کی علامت کا دعوی کرتی ہے۔ پھر یہ حقائق بھی سامنے آنے چاہییں کہ
اسِ سندھ فیسٹیول پر کتنے پیسہ خرچ کئے جارہے ہیں اور یہ پیسہ کہاں سے خرچ
ہوگا۔ اگر یہ حکومت سندھ کے خزانے سے خرچ ہوگا تو بلاول زرداری یہ کسِ طرح
خرچ کر سکتے ہیں کیونکہ نہ تو بلاول پارلیمانی نمائندے ہیں اور نہ ہی انکی
حکومت میں کوئی حیثیت ہے۔ اسِ سلسلے میں قومی احتساب کے ادارہ کو فوری طور
پر تفتیش کرنی چائیے۔دراصل یہ بلاول زرداری اور انکے پیچھے ہدایت کاروں کے
صرف اور صرف ڈرامے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے اور
کسی نہ کسی طرح سے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دیا جا سکے۔ ورنہ زمینی
حقائق اور سیاسی تاریخ اسِ کے بر عکس ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا
تعلق صوبہ سندھ سے رہا ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آصف علی زرداری نے
مرکز میں حکومت کرنے کے لئے سندھ کا کارڈ استعمال کرکے پنجاب کا سہارا لیا۔
1970 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کے دو حصہ
تھے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی
اکائی اور اتحاد کی علم بردار کہنے والے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی
بھٹو نے کبھی کوشش نہیں کی کہ وہ پیپلز پارٹی کو مشرقی پاکستان میں متعارف
کراتے ، وہاں کے مقامی بنگالیوں کو پی پی پی میں شامل کرتے اور مشرقی اور
مغربی پاکستان کے اتحاد کے لئے کام کرتے۔ پھر 1971 میں مشرقی پاکستان
علیحدہ ہونے کے بعدپی پی پی کو صوبہ پنجاب نے ایک بڑی پارٹی بنانے میں
کلیدی کردار ادا کیا مگر بھٹو خاندان نے پی پی پی کو بھٹو فیملی کی جماعت
بناکر چلایا اور پی پی پی کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد، لاہور یا کراچی کے
بجائے اپنے خاندانی شہر لاڑکانہ کو بنایا۔یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری جن
کا تعلق بھٹو خاندان سے نہیں ، اپنے بیٹے بلاول کو بھٹو کہلوانے پر مجبور
ہو گئے تاکہ بلاول کو پی پی پی کی موروثی سیاسی گدی نشینی مل سکے۔ لہٰذا
اگر آج بلاول زرداری مرسوں مرسوں سندھ نہ دیسوں کے نعرہ لگاتا ہے اور پھر
ساتھ ہی مصلحتاً پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگاتا ہے تو یہ اسکے نانا
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حکمتِ عملی تھی کہ پاکستان کا نام استعمال کرکے
سندھ کے نام پر اپنی سیاسی اہمیت اور طاقت کو پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے
منواؤ اور اقتدار حاصل کرو۔ انِ ہی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی
بتدریج سکڑتی جا رہی ہے اور اب حکومت کا دائرہ صرف سندھ تک رہ گیا ہے جہاں
اب اور بھی دعوے دار سیاسی طاقت بن چکے ہیں۔بلاول زرداری ابھی نوجوان ہیں
انِ کو چائیے کہ اپنے بڑوں کی غلطیوں سے سبق سیکھیں نہ کے ان کے پیروکار
بنیں ورنہ انجام بھی پھر انہی جیسا ہوگا۔ سندھ فیسٹیول یا سندھ کے نعرے
لگانے سے سندھ کے حالات اچھے ہونگے اور نہ ہی پاکستان کے۔ دوسرے یہ کہ اب
دور بدل گیا ہے۔ یہ 70، 80 یا 90 کے عشرے کی سیاست نہیں اورنہ ہی اس وقت کے
سیاسی کارڈ اب چلیں گے۔ آج کراچی سے لیکر پشاور تک لوگ اسِ طرح کے سیاسی
حربے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ بلاول زرداری کے لئے اچھا ہوگا کہ اگر انہوں نے
ایک کامیاب اور سچے سیدھے سیاسی لیڈر کی حیثیت قوم سے منوانی ہے تو کھلے
ذہن سے کام کریں۔ پاکستان کے تمام طبقوں ، صوبوں ، شہروں اور دیہی علاقوں
کو برابر کی اہمیت دیں۔ بحیثیت چئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، اپنی جماعت کی
از سرِ نو تعمیر کریں، قابل سچے اور صحیح افراد کو میرٹ پر آگے لیکرآئیں۔
پی پی پی سے کرپشن کی مہر کو صاف کریں۔ ورنہ پاکستان سے سمٹ کر پی پی پی
سندھ کی جماعت رہ جائے گی اور پھر بی وہ ڈگر نہ چھوڑی اور اسیِ طرح کی
حرکتیں جاری و ساری رہیں تو اگلے الیکشن تک وہ لوگ بھی ووٹ نہیں دیں گے جو
آپ کی زمینوں پر کام کرتے ہیں۔
|