مذہبی ہم آہنگی وقت کی ضرورت

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے قیام کی جدوجہد میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے اس مملکت خداداد کے قیام کے لئے ہر فرقے اور طبقے کے لوگوں نے قربانیاں دیں مگر افسوس کہ آج پاک سر زمین میں ان سب باتوں کو بھلا کر مذہبی جنون پرستی کو کھلاچھوڑ دیا گیا ہے فرقہ راریت کا عفریت ملک بھر میں زہر بن کر پھیل رہاہے جس کی وجہ سے پاک وطن آگ و خون کی لپیٹ میں آچکا ہے آئے روز ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ بندی کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیاجارہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ قتل و غارت گری کرنے والے یہ کام کر کے خود کو جنت کا مستحق بھی تصور کرتے ہیں پاکستان کے کئی علاقے اس فرقہ واریت اور مذہبی بنیادوں پرقتل غاری کا مرکز بنے ہوئے ہیں اگرچہ ان بہیمانہ کارروائیوں کے پس پردہ بیرونی ہاتھ کا بھی کردار لازمی عنصر ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت کے عفریت کو پروان چڑھانے میں ہمارے ملک کے ایسے لوگوں کا اہم کر دار ہے جو اپنے مخصوص فرقے سے اختلاف رکھنے والے ہر شخص کو واجب القتل قرار دیتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کے لئے فتوے جاری کرتے ہیں کہ مخالف فرقے کے لوگ کافر ہیں اور اْنہیں جہنم واصل کر نے والا جنت کا مستحق ہے جب دلوں میں اتنی نفرتیں بھر دی جائیں تو ظاہر ہے یہ نفرتیں بے گناہ لوگوں کے قتل پر ہی منتج ہوتی ہیں پاکستان میں فرقہ واریت کی جڑیں خاصی پرانی ہیں 1980کی دہائی کے آغاز کی بات ہے جب مذہبی شدت پسند ی کی خود ساختہ چنگاری ایک شعلہ بن کر ہمارے ملک کے درودیوار کو جلا نے لگی اگر اس وقت اسے لگام دی جاتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ بعض حلقے فرقہ واریت کو پاکستان کے پیچیدہ سماجی ،سیاسی اور معاشی مسائل سے جوڑتے ہیں ان حلقوں کے مطابق پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارنہ وارداتوں اور فرقوں کی بنیاد بڑھتی نفرت کے پس پردہ خلیجی ممالک اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کا بھی اہم کردار ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل پاکستان میں فرقہ واریت کے نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو خاص طور پر فرقہ وارنہ وارداتوں میں نشانہ بنایا گیا ہے مفاد پرست عناصرنے دونوں جانب کے زخم خوردہ عناصر کے جذبات کو بھڑکانا شروع کر دیا جس کا نتیجہ روالپنڈی میں عاشورہ محرم کے جلوس کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب معمولی تکرار ایک بڑے سانحے میں تبدیل ہو گئی دکانوں اور عمارتوں کو آگ لگا دی گئی، گاڑیاں جلا دی گئیں، قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا گیااور لوگوں کے کاروباروں کو پولیس کے سامنے برباد کر دیا گیا ۔پاکستان میں فرقہ واریت کی ایک اہم اور بڑی وجہ بیرونی قوتوں کے ایجنڈے ہیں پاکستان میں مغربی ممالک کا اپنا ایجنڈہ ہے، اسی طرح خلیجی ممالک اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ان سب میں نقصان سراسر پاکستان کا ہو رہا ہے شیعہ شنی منافرت کی بنیاد پر دونوں جانب سے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ایسی وارداتیں کرنے والے گروہ منظم صورت اختیار کر چکے ہیں َ پچھلے چند برسوں میں یہ گروہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے ہیں اور ہم ان کی روک تھام میں ناکام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کو ملک کے اندر اور بیرون ملک سے آنے والے دہشت گردوں کے ساتھ فرقہ واریت پر مبنی وارداتیں کرنے والوں سے بھی نپٹنا پڑ رہا ہے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں اندورنی اور بیرونی محاذوں پر لڑنے والے ہمارے جوانوں کو قوم کے تعاون کی سخت ضرورت ہے ۔ آج ہم بحیثیت قوم بکھرے ہوئے اور انتشار کا شکار ہیں-

اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم قومی سطح پر اْن بیرونی عناصر کو بے نقاب کریں جو ہمارے ملک میں ایسے مفادات کی خاطر فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں مشکل یہ ہے کہ ہماری حکومت مختلف مسائل اور مجبوریوں کی وجہ سے اْن بیرونی عناصر کے خلاب لب کشائی نہیں کرتی حکومت کوملک میں مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہیں ہماری کمزوریوں اور مسائل سے چشم پوشی کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک دشمن عناصر فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا کر پاکستان میں آگ وخون کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہیں جس سے ملک میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خطر ناک سطح پر پہنچ گئی ہے فرقہ واریت کے جن کو قابو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں اور مذہبی اجتماعات کے موقع پر خطاب کرنے والوں کے لئے قوانین بنائے جائیں کیونکہ مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت پوری مسلم دنیا میں پائی جاتی ہے مگر جس طرح پاکستان میں یہ مسئلہ خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اْن ممالک میں فرقہ واریت کی روک تھام اور اسے قابو میں رکھنے کے لئے قوانین موجود ہیں ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں مساجد کے خطیب خطبہ جمعہ اور دیگر مواقع پر حکومت کا منظور کہ دہ خطبہ اخلاق پڑھتے ہیں ان ممالک میں قوانین موجود ہیں ہر فرقے اور مسلک کے لوگوں کو اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے مگر ساتھ ہی وہ اس بات کے بھی پابند ہیں کہ کسی دوسرے مسلک پر تنقید کریں گے اور نہ ہی اْن کے نظریات کے خلاف نفرت پھیلائیں گے مگر ہمارے یہاں ایسی کوئی حد یا قوانین موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لئے حد سے بڑھ جاتے ہیں علمائے کرام اور مذہبی رہنماوں پر اس حوالے سے بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور مسلک و فرقوں کی بنیاد پر نفرتوں کا خاتمہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ باہم محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیں بحیثیت مسلمان ہم سب پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنی دینی تعلیمات کی روشنی میں باہم اتحاد اور اخوت ورواداری کا پرچار کریں تاکہ ہمارا ملک پاکستان حقیقی معنوں میں وہ اسلامی فلاحی ریاست بن سکے جس کیلئے ہمارے اسلاف نے جدوجہد کی تھی اور جانی اور مالی قربانیاں دیں تھیں۔
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 14533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.