یوں تو رسولِ عربی ﷺ کی حیاتِ
طیبہ پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور بے شمار کانفرنسیں منعقد ہو
چکی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔آپ ﷺ کی ذاتِ صفات اتنی جامع اور بزرگ
و برتر ہے کہ کسی مصنف کے لیئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ
کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کر سکے۔ اس کے باوجود انسان کی یہ خواہش ہمیشہ
باقی رہی ہے کہ اس عظیم موضوع پر کچھ اور لکھا جائے اور سیرت کے حوالے سے
کانفرنس منعقد کیا جائے اور اس سعادت میں جتنا بھی حصہ لیا جا سکتا ہے لیا
جائے۔ اسی سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب ، ڈائریکٹر سیرت
چیئر نے ایک کانفرنس کرانے کا بیڑا اُٹھایا جس کا موضوع تھا ’’دو روزہ
عالمی سیرت کانفرنس۔ سیرت النبی ﷺ اور عصرِ حاضر‘‘۔ کراچی کے ناگفتہ
صورتحال کے باوجود سیرت النبی ﷺ کا پہلا سیشن گورنر ہاؤس میں ۱۲؍فروری
کومنعقد ہوا۔ جس میں خصوصی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب
ممنون حسین اور گورنر سندھ جناب ڈاکٹر عشرت العباد خان صاحب نے اپنی شرکت
سے اس کانفرنس کو چار چاند لگا دیا۔ پڑوسی ملک بھارت سے ڈاکٹر ابو سفیان
اصلاحی صاحب نے شرکت کی جو کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں استاد اور بین
الاقوامی اسکالرز کی فہرست میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اسلام آباد سے ہمارے
معزز مہمان جناب خورشید احمد ندیم صاحب نے بھی اپنی شرکت سے اس کانفرنس کی
کامیابی میں اپنا حصہ ملایا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اہلِ علم و اہلِ دین اور
مختلف مکتبۂ فکر کے دانشوروں نے بہت سبق آموز مقالات پیش کیئے اگر ان پر
سمجھ کر عمل کیا جائے تو ہمارے فکر کے لوگوں کے آپس کے تعلقات میں اسلامی
مزاج اور اکرام مسلم کو شامل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
بار بار ہماری زبان پر یہ مسنون دعا جاری ہو رہی ہے کہ ’’ بے شک تمام تعریف
اﷲ کے لیئے ہے جس کے کرم سے ہی اچھے کام تکمیل پاتے ہیں۔ بے شک یہ بھی اﷲ
کا کرم ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس عالمی سیرت النبی ؐ کانفرنس کو کامیاب طریقے سے
قارئین اور سامعین کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو سکے ہیں۔ یہ تحریر صرف ایک
کالم نگار کے خیالات و جذبات اور طرز نگارش کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ یہ
پروگرام اور اس کی کامیابی خود مکمل آئینہ فراہم کرتی ہے۔ جو کہ نہ صرف
جامعہ کراچی بلکہ کلیہ معارفِ اسلامیہ کے لیئے بھی باعثِ فخر ہے۔خورشید
احمد ندیم صاحب کی بات سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ اربابِ حکومت ہمیشہ
ایسے لوگوں کو ہی تعلیم کے شعبوں میں تعینات کر دیتے ہیں جن کا دور دور تک
تعلیم کے شعبے سے واسطہ نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب نے جس منظم طریقے سے سیرت
اور اسلام پر اپنے تحقیقی اداروں کا ذکر فرمایا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ
اگر ایسے لوگوں کو اقتدار کے پروانوں کی سرپرستی مل جائے تو ہمارے ملک میں
بھی تحقیقی کاموں کا معیار بہت بہتر کیا جا سکتا ہے۔
ویسے بھی اچھے دینی کانفرنسوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ سنتے وقت
کلام اور تقریرات کی خوشبو وجود میں سرایت کرنے لگ جائے۔ اور یہ کانفرنس
چونکہ نبیٔ آخرالزماں ﷺ پر ہے اور یہ دنیا کی عظیم ترین شخصیت کے آہنگ سے
تعلق رکھتا ہے اس لیئے کہ اس میں سحر انگیزی کی کیفیتیں زیادہ ہیں جونوعِ
انسانی کو متاثر بھی کرتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی منعقد کردہ ’’سیرت النبی ؐ
کانفرنس‘‘ میں شرکت کرکے مجھے ہی کیا جن لوگوں نے شرکت کی انہیں خوب لمحاتِ
بخشش ملا، کانفرنس بہت خوب ہوا۔ میں نے اس کی تعریف جگہ جگہ سنی، ایسے پُر
خلوص پروگرام یقینا بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے اگر آپ نے یہاں سے کوئی فیض
اٹھایا ہے تو یہ آپ کے لیئے اس سے بہترین بات ہو ہی نہیں سکتی ۔
کلیہ معارفِ اسلامیہ کے رئیس اور سیرت چیئر کے ڈائریکٹر بہت جاذب نظر اور
بڑے مہمان نواز ہیں،وہ ایک با رعب، دلآویز اور بے مثال شخصیت کے مالک
ہیں۔ان کی تصنیف کردہ کتابیں اصنافِ سُخن میں مکرم و محترم کا درجہ رکھتی
ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں موضوعات کے اعتبار سے جذبات و احساسات و خیالات کو
بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو عقیدت و شریعت کے اصولوں کا حق بھی
ادا کر سکے۔ ان کی کتابوں کو پڑھ کر یہی اظہار کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب
نے اپنی علمی شخصیت کااپنے طالب علموں پر گہرا نقش چھوڑا ہے۔ ان کی تصنیفات
میں سچائی ہے، صداقت ہے، شیرینی ہے، حلاوت ہے، صفائی ہے، نظافت ہے، پاکیزگی
ہے، طہارت ہے، ادب ہے، احترام ہے، تعظیم ہے، توقیر ہے، وارفتگی ہے، شیفتگی
و شگفتگی ہے، شادابگی ہے، عشق کی چمک ہے، محبت کی دمک ہے، خلوص کی مہک ہے۔
غرض کہ ان کے ہر ہر تصنیف میں کیف آگیں پیکریت ہے ۔ان سے ملنے پر ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ یہ دودھ اور ملائی سے بنے ہوئے صاف ستھرے شخص ہیں جنہیں
محبت کی معمولی سی گرمی پگھلا دیتی ہے، یہ دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں،
دوسرے لوگوں کے ساتھ الجھنے سے پرہیز کرتے ہیں، موصوف سے ملاقات پر آپ کے
لیئے پہلا حیرت کدہ آپ کے سامنے آئے گا کہ ڈاکٹر شکیل اوج صاحب علم بانٹنے
والے ایسے شخص ہیں جن سے ملاقات ہوتے ہی آپ اُن کے گرویدہ ہو جائیں گے۔
بلکہ اپنی زندگی سے مطمئن، خوشحال اور مسرور نظر آئیں گے۔یعنی آپ یہ کہہ
سکتے ہیں کہ ان جیسا بندۂ خدا کبھی کبھی ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ آپ کی سیرت
اور صورت کا صحیح فیصلہ آپ پر وسیع اور گہرے مطالعے کے بعد ہی کیا جا سکتا
ہے۔ شکیل اوج صاحب نے بلاشبہ یہ پروگرام منعقد کرکے خود کو ایک سچے عاشقِ
رسول ؐ ہونے کے جذبات و احساسات سے آشکار کیا۔ جبھی تو کہتے ہیں کہ جذبۂ
ایمانی زندہ ہو اور عقیدتِ رسولؐ کا جذبہ ہو تو ایسے خوبصورت عالمی کانفرنس
منعقد ہوتے ہیں۔ خدا کرے کہ آپ اسی طرح اوربھی پروگرام منعقد کرواتے رہیں
کہ دل میں نبی ﷺ کا پیار ہو تو خدا غیب سے صلاحیتیں عطا کر دیتا ہے۔
عقیدت کا لہکتا ہی رہے گا گلستاں اپنا
ہے جس کا عزم مستحکم وہی ہے باغباں اپنا |