’’وہ قتل بھی کردیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘

مملکت خدا داد میں آج کل’’ آؤ مذاکرات مذاکرات کھلیں‘‘ کا ایک مضحکہ خیز سلسلہ جاری ہے ۔طالبان اور حکومتی ٹیم کے درمیان کئی اہم اجلاس ہوچکے جن کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ۔حکومت کی طرف سے ’’اب مار کے دکھاؤ‘‘ کی تنبیہ جاری ہے جبکہ طالبان کی جانب سے ’’یہ لو !مار دیا‘‘ کانہ تھمنے والا تشدد بربریت سے بھر پور عمل جاری ہے۔ ہر دو فریقین اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں جبکہ عوام کی زندگی ،مال و متاع سب داؤ پر لگا ہوا ہے ۔طالبان کیجانب سے تازہ ترین خلاف ورزی ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت ہے جو کہ انتہائی غیر ذمہ دار انہ اور ظامانہ فعل ہے۔اس کے باوجود ’’عوامی خیرخواہ‘‘ اس کھیل کو جاری رکھنے پر بضد ہیں ان کا کہنا ہے کہ فوج اور طاقت کا استعمال اس معاملے کو مزید الجھا دے گا حالانکہ اب تو اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب ڈراما ہو رہا ہے جس کا اختتام لاحاصل اور بے نتیجہ ہوگا۔

دراصل ابھی تک یہ معلوم ہی نہ ہوسکا ہے کہ در حقیقت طالبان ہیں کون ؟کتنے دھڑے ہیں ۔کس کی کتنی تعداد ہے ۔کون کتنا با اثر اور طاقتور ہے۔کہیں پر TTP(تحریک طالبان پاکستان ) کاطوطی بو ل رہا ہے تو کہیں افغان طالبان دندناتے پھر رہے ہیں ۔پھران میں بھی گروہ بندیاں ہیں ۔ایک گروہ سے مذاکرات (مذاق رات) شروع ہوتے ہیں تو دوسرا اپنی کاروائی کر گزرتا ہے تو پھر کبھی کراچی کے دھماکے سامنے آتے ہیں تو کبھی پشاور کے ۔کہیں پر ریل کی بوگیاں اڑادی جاتی ہیں تو کہیں پولیس کی بس پر حملہ کردیا جاتا ہے۔اور پھر ترجمان طالبان کا ٹیلی فون بھی آجاتا ہے کہ یہ کاروائی ہم نے کی ہے حکومت کے نمائندے اور ارباب اختیار لگتے تو ماشاء اﷲ سمجھ دار ہیں لیکن اس معاملے میں ان کی عقل ودانش نہ نجانے کہا ں گھاس چرنے چلی جاتی ہے کہ جو لوگ اپنے کسی بھی ایک وعدے اور دعوی پر قائم نہیں۔ہر روز ہر گھنٹے ہر لمحہ وعدہ خلافی اور قانون شکنی پر اتارو دکھائی دیتے ہیں اور پھر بھی ان کی ٹانگ اوپر ہی رہتی ہے یعنی ہماری گورنمنٹ کبھی بھول سے بھی کوئی سخت بیان دے دے تو اسے معاہدہ کی خلاف ورزی گرداناجا تا ہے اورپھر خودکش حملے اوردھماکے کی صورت میں جواب داغ دیا جاتاہے اور اسے معاہدہ اور مذاکرات کی خلاف ورزی کا شاخسا نہ قرار یا جاتا ہے۔
ہم آہ بھی کردیں توہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کر دیں تو چرچہ نہیں ہوتا

مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد آرہے ہیں کہ جب عمر کے سولہ کے پیٹے میں تھے ۔ہمارے علاقے میں گورنمنٹ ہائی سکول میں کھیل کا ایک ہی میدان تھا جو کہ ابھی تک ایک ہی ہے ۔وہاں پر ہر عمر کے کھلاڑی کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے تھے اور اکثر جگہ کی تنگی کی وجہ سے جھگڑا رہتا تھا ۔بالکل چھوٹی عمر کے بچوں پر ہم رعب جماتے تھے اور ان کو دھمکا کر بھگا دیتے تھے اور پھر وہاں پر کھیلنا شروع کردیتے تھے ۔اس طرح ہم سے بڑی عمر کے سینئر کھلاڑی آکر ہمیں بھگا دیتے تھے اور خود کھیلنا شروع کردیتے تھے بعض اوقات ان دونوں گروپوں میں جھگڑا ہوجاتا تھااور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی پھر کچھ لوگ درمیان میں آجاتے ہیں اور مذاکرات کرادیتے کہ فلاں سے فلاں وقت یہ کھیلیں گے اور فلاں سے فلاں ٹائمنگ میں دوسری کیٹگری کھیلے گی۔ان دنوں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی اور سارادن کھیل اور میچز کی نذر ہوجاتا ہے ۔اور اس روز سینئر کھلاڑی اکثر میچ کھیلتے جس کی وجہ سے دوسرے گروپ کی ٹائمنگ ڈسٹرب ہوتی اور جب ان کو مذاکرات اور وعدے کی پابندی کا کہا جاتا کہ کہتے کہ اگلی مرتبہ تم کھیل لینا۔ لیکن اگلی مرتبہ بھی اسی طرح پریکٹس کو دہرایا جاتا ہے اور جب تلخ کلامی ہوتی تو کہتے کہ ٹھیک ہے ہم ہی کھیلیں گے تم سے کھیلا جائے تو کھیل لو۔اب مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق صبراور غصے کے گھونٹ پی کر خاموش ہو جاتے اور منہ میں بڑبڑاتے اور دل میں برُا بھلا کہتے اور اگلے دن کا انتظار کرنے لگتے۔

یہ مذاکرات بھی اسی طرز پر جاری ہیں اور اس کا کوئی سر پیردکھائی نہیں پڑتا کمیٹیوں کونہ تو اپنے اختیارات کا علم ہے اور نہ ہی اپنی کمٹمنٹ کے پورا ہونے کی تسلی ۔طالبان کی جانب سے بنائی جانی والی کمیٹی اس بات کو Sureنہیں کرسکتی کہ ان کی جانب سے کیے گئے وعدے کو طالبان تسلیم بھی کریں گے یا نہیں بعینہ صورت حال حکومتی کمیٹی کی ہے دونوں کمیٹیاں کٹھ پتلی کی مانند ڈوروں سے بندھی ہیں جس کی ڈور کھنچ لی جاتی ہے وہ منظر عام سے غائب ہوجاتا ہے اور سامنے موجود شخص بیک گراؤنڈ کے احکامات اور اشاروں پر یہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن یہ تماشہ خوشی کے لمحات میسر کرنے کی بجائے ایک خوف ،دہشت ،ظلم ،لاقانونیت کا پیغام دیتا ہے جو نجانے کب تک جاری رہے گا ۔
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 212121 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More