خون کے پیاسے

قرآن کریم میں اﷲ پاک کا فرمان عالی شان ہے۔ کہ: مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کروادیا کرو۔ (سورۃ الحجرات: 10) لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ روشن خیال دانشوروں نے تو جیسے پکا عہد کر رکھا ہے کہ اس حکم قرآنی کے بر خلاف ہر وہ کام کرینگے جس سے دو مسلمان مزید باہم دست و گریبان ہو جائیں۔ اور ان میں کبھی بھی صلح نہ ہونے پائیں۔.مثلاً: ہم دیکھ رہے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان پچھلے دس سال سے پرویزی دور کی ناقص پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ جسکی وجہ سے ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ادھے وہ ہیں جو بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دیگر تخریبی کار روائیوں کے نذر ہوئے۔ جبکہ باقی ادھے وہ ہیں جو مختلف اپریشنز، امریکی ڈرون حملوں سمیت دیگر تخریبی کارروائیوں کے نتیجے میں مٹی کی خوراک بن گئے۔ ان جاں بحق پاکستانیوں میں او الذکر نصف پاکستانیوں کی شہادت سے ہر کوئی باخبر ہیں۔ اور انکا ذکر اکثر و بیشتر مختلف لوگوں کی زبانی سننے کو ملتا ہے۔ جبکہ اخر الذکر گمنامی کے ساتھ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ اور انکا ذکر بہت کم سننے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ پرویز کے شروع کردہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان میں افواج پاکستان کے سینکڑوں آفیسرز اپنے ہزاروں جوانوں سمیت جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سینکڑوں کمانڈر اپنے ہزاروں رضاکاروں سمیت شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہیکہ سب سے پہلے پاکستان والے نعرے کی آڑ میں امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد پاکستان کو کوئی فائدہ بھی حاصل ہوا یا کہ پاکستان مسلسل خسارے میں جارہا ہے؟ میں سمجتا ہوں کہ اگرباقی تمام نقصانات کو ایک سائڈ پر رکھ کر صرف جانی نقصانات پر بات کی جائے تو یہ بھی پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اور اسکا ازالہ ہم کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ جو جنگ اس وقت پاکستان میں برپا ہے۔ اس میں ہار جیت کا کوئی تصور موجود ہی نہیں۔ وہ اس لیے کہ یہ تو دو بھائیوں کی جنگ ہے۔ اور دو بھائیوں کی جنگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری تو رہ سکتی ہے لیکن نتیجہ خیز کھبی بھی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے محب وطن حلقے اور درد دل رکھنے والی شخصیات شروع دن سے اس کوشش میں مصروف ہیکہ جیسے بھی ہو اس جنگ کا خاتمہ بذریعہ مکالمہ کردیا جائے۔ ایسی کئی کوششیں ماضی میں طالبان اور مختلف حکومتوں کے مابین کی جاچکی ہیں۔ جن میں بعض امن معاہدوں کی صورت میں کامیاب بھی ہوئی تھیں۔ لیکن ماضی کی حکومتوں کا امریکہ کے طرف واضح جھکاؤ ، مختلف این جی اوز اور امریکی مداخلت کے باعث کوئی بھی امن معاہدہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکا۔ اب جبکہ ملک میں ایک محب وطن جماعت بر سر اقتدار ہے۔ تو وہ حلقے جو چاہتے تھے کہ ملک میں جاری خون ریزی کا خاتمہ باہمی گفت و شنید سے ہوجائے۔ ایک بار پھر میدان میں اترے۔ یہ ان حلقوں کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا کہ حکومت وقت اور تحریک طالبان پاکستان نہ صرف ایک بار پھر مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے اپنے طرف سے مذاکرات کی راہ میں حائل رکاؤٹیں دور کرنے کے لیے مذاکراتی کمیٹیاں بھی تشکیل دیئں۔ لیکن آفسوس سے لکھنا پڑ رہاہے کہ جس دن سے دونوں کمیٹیوں نے کام شروع کیا ہے۔ اس دن سے بعض قوتیں جن میں ہمارے ملک کے ’’روشن خیالِِ،، دانشور بھی شامل ہیں۔ اس پورے عمل کے خلاف میدان میں اترگئیں ہیں اور انکی پوری کوشش ہیکہ جیسے بھی ممکن ہو اس پورے مذاکراتی عمل کی بوریاں بستر لپیٹ کر شمالی وزیرستان میں ایک نہ ختم ہونے والا اپریشن شروع کیا جائے۔

گوکہ مذاکراتی عمل کے شروع کے ابتدائی دنوں میں ایسے حلقوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ لیکن اب لگ ایسا رہا ہیکہ فریقین کی جانب سے تحمل و برداشت کی کمی اور مذاکراتی کمیٹیوں بالخصوص حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے غیر محتاط روئیے نے ’’ میر چاکر،، جیسے لوگوں کاکام آسان کردیا ہے اور وہ اب مزید ڈھٹائی کے ساتھ مذاکراتی عمل کے خلاف میدان میں اترچکے ہیں۔ مذاکراتی عمل کو اب تک جو سب سے برا دھچکہ لگ چکا ہے۔ وہ مہمند ایجنسی میں 23 ایف سی اہلکاروں کے قتل کی شکل میں ہیں۔ جس کے بعد حکومتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی سے اکوڑہ خٹک میں ہونے والا ملاقات منسوخ کردیا۔ گوکہ اس عمل کا ہرجانب سے بھر پور مذمت کیا جاچکا ہے۔ اور یقیناً اس کا مذمت ہونا بھی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف طالبان نے اس حوالے سے جو توجیہ پیش کی ہے۔ اسے بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ایک ایسے وقت میں کہ جب نواز حکومت تمام تر اندرونی و بیرونی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ تو دوسری جانب تحریک طالبان بھی نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمربستہ ہے۔ لہٰذا ایسے میں فریقین کو چاہئیے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں اور اگر درمیان میں کوئی ناخوشگوار واقعہ اﷲ نہ کرے رونماء ہوجائے۔ تو بجائے ایک دوسرے سے روٹھنے کے مذاکراتی کمیٹیوں کو ایک دوسرے سے ایسے واقعات کا وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ کیونکہ مذاکراتی کمیٹیوں کی مینڈیٹ میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ وہ خود فریق بن کر بیٹھے۔ بلکہ انکا مینڈیٹ اس بات کا متقاضی ہیکہ وہ اس راستے میں ہر آنے والے رکاوٹ کو دور کرکے اصل فریقین کو ایک میز پر لانے کی کوشش کریں۔ کہ ایک ثالث کا کام بہر حال یہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کو بھی چاہیئں کہ پہلے آپس میں اتفاق رائے پیدا کرلے پھر میدان میں اترے۔ اور جو گروپس انکی بات نا مانے تو وہ انکے حوالے سے بھی کوئی واضح مؤقف اپنائے۔ دوسری طرف حکومت وقت کو بھی چاہیئے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے پیدا شدہ ابہام کو دور کریں اور اصل حقیقت عوام کے سامنے لائی جائے۔ وہ اس لیے کہ بعض معتبر حلقے یہ کہ رہے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں بلکہ اتمام حجت کے لیے مذاکرات کے نام پر کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب فوج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ فریقین کی جانب سے ان دو باتوں کا وضاحت آنے بعد مذاکراتی کمیٹیوں کو چاہیے کہ وہ فی الفور فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کرلیں۔ کیونکہ جب ایک دفعہ جنگ بندی کا اعلان ہوجائے۔ تو پھر کسی فریق کے لیے اسے توڑنا اتنا آسان نہ ہوگا۔ آخر میں انسانی خون کے پیاسے روشن خیالوں کے نام صرف اتنا ہی کہ انسانی جانوں کا کچھ تو احترام کیجیئے۔ اور انکو اپس میں لڑانے کے لیے راہ ہمور کرنے کی بجائے کالم کے ابتداء میں تحریر کردہ حکم قرآنی کے مطابق ان میں صلح کرانے کے لیے کردار ادا کیجیئے۔ ورنہ آخرت کے عذاب کے لیے تیار رہئیں۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105988 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More