لیجیے !15ویں لوک سبھا بھی
اختتام پذیر ہو گئی اور ہندوستان کے زخموں میں مزیداضافہ ہو گیا ۔کتنے
منصوبے تھے ، کتنے بل تھے،کتنے وعدے اور ارادے تھے۔ جنھیں پورا ہونا تھا
اور انھیں نافذ کرکے عوام ہند کا بھلا کرنا تھا مگرسب دھرے کے دھرے رہ گئے۔
کچھ تو سیاست کی نذر ہو گئے اور کچھ کا نفاذپارلیمنٹ کے دروازے بند کر کے
کر دیا گیا۔ہنگامہ آرائی اور دھینگامشتی کا تو ذکر ہی کر کیا، رذالت ،
شرارت ، بدتمیزی ،گھڑخوری،حیوانی اور غیر انسانی کی حرکتوں کی انتہا ہی کر
دی گئی۔ایسے حالات سے نہ صرف پارلیمنٹ کر اہ اٹھا بلکہ پورا ملک سسکیاں لے
رہاہے اور اپنی قسمت پر ماتم کر رہاہے جوایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنھیں
اس بات کااحساس تک نہیں تھا نہ وہ اقدار جانتے ہیں ۔ پارلیمنٹ کی ناقدری
اور اس کے مقام کی ہتک کا اندازہ منی پور کے سینئراور پہلی لوک سبھا سے اب
تک کے ممبر پارلیمنٹ ’ریشنگ کیشنگ‘ کے ان الفا ظ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ وہ
کہتے ہیں:
’’ پارلیمنٹ اب پہلے جیسی نہیں رہی ، اب وہاں شورو غل کے سوا کچھ نہیں بچا
ہے ۔اراکین پارلیمان مزدور یونین کے لیڈروں کی مانند ہوگئے ،وہ صرف اپنے
مطالبات منوانے ایوان میں آتے ہیں کسی کی سننے نہیں ۔یہ وہ پارلیمنٹ نہیں
جسے میں جانتا تھاایسا نہیں تھا کہ اس وقت مخالفتیں نہیں ہوتی تھیں یا
اپوزیشن کا تصور نہیں تھا کہ بلکہ نہرو،آزاد،لوہیا،سومناتھ چٹرجی کے والدیہ
تمام لیڈران یہ سب موجود تھے اور مدلل اپنی بات سب کے سامنے رکھتے مگر
نظریاتی اختلافات کے باوجودایک دوسرے کی قدر کر تے تھے اور جب تک ایک لیڈر
اپنی بات کہتا، سب ہمہ تن گوش رہتے مگر آج․․․․!آج تو توبہ بھلی،پارلیمنٹ
میدان جنگ بن جاتا ہے اور ارکان پارلیمان کے تیور ،ایک دوسرے پر کیچڑ
اچھالنے کا رواج و مزاج دل میں نشتر چبھودیتا ہے میں گذشتہ 15برسو ں سے یہ
ستم ظریفیاں جھیلتا آرہا ہوں مگر چونکہ یہ میرے پارلیمانی کر ئیر کا آخری
سیشن تھا اس لیے مجھے خوشی ہے کہ ایسے لوگوں کے بیچ آنا نہیں ہوگا جو
انسانیت کی اقدار سے نا واقف ہیں ۔‘(دی ہند و : 21 فروری 2014)
’ریشنگ کیشنگ ‘ کے یہ احسا ت تو ادنی سا نمونہ ہیں ورنہ15ویں لوک سبھا کی
ناکامی کی رودادلکھنے کے لیے تودفاتر کی ضرورت ہے ۔اس لیے کہ اس دور میں
ایک بھی کام اطمینان بخش طریقے سے نہیں کیا گیا۔یا تو وہ افرا تفری کا شکار
ہو گیا یا پھر اس کی کاپیاں ایوان میں تار تار کر دی گئیں ۔قصہ مختصر یہ کہ
کوئی بھی منصوبہ ،اسکیم ،عوام کے حق میں سودمندی کے طریقے ،ملک کی سا لمیت
و حفاظت،بالخصوں سرحدوں و اقلیتوں سے متعلق فیصلے شرمندۂ نفاذ نہیں ہوسکے۔
ہاں اتنا تو ہوا کہ جہاں بر سراقتدار پارٹی کو اپنا سیاسی مفاد نظر آیا
وہاں اپوزیشن،عوام ،میڈیا اور ملک کی باگ ڈورسنبھالنے والوں کی لاکھ مخالفت
کے باوجود اپنا حکم نامہ نافذ کر دیا۔اس کی زندہ مثال متحدہ آندھرا کی
تقسیم ہے ۔ابھی ہندوستان کے عوام بر صغیر کی تقسیم کا المیہ جھیل رہے ہیں
کہ لیجیے ایک اور تقسیم ان کے سروں پرتھونپ دی گئی ۔آندھراسے تلنگانہ جانے
والے لوگوں پر پھر وہی خطرات منڈلانے لگے ہیں جو دہلی،امرتسر،جے پور سے
لاہور جانے والوں اور ممبئی،احمد آباد، جودھپور،بھرتپورسے کراچی جانے والوں
کو لاحق ہوئے تھے۔یعنی پھر ہمیں کٹی پھٹی لاشیں ،لٹی عصمتیں ،جلتے گھر اور
بنت حوا کی دلخراش چیخیں سننے اور یہ مناظر دکھانے کی مذموم سازش رچی گئی
ہے۔گو اس سے تلنگانہ کے عوام کی دیرانہ آرزو تو پوری ہو گئی اور وہ جشن
منارہے ہیں مگر مجھے صد فی صد یقین ہے کہ یہ لمحاتی خطا صدیوں کو ضرور سزا
دلا ئے گی ۔
تلنگانہ کی تقسیم کے پیش نظر سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ لسانی بنیاد اس تقسیم
کا سبب بنی ہے،گویا اس طرح کانگریس بنام یوپی اے نئی نسلوں کو مشرقی
پاکستان کی علاحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا منظر نامہ پیش کر نا چاہتی ہے
۔لسانی بنیاد پر سرحد پار آج سے40سال قبل جو خون خرابہ ہوا ،جو املاک برباد
ہوئیں اور دلوں میں دراڑیں ڈالیں گئیں وہی نمونہ ان نسلوں کو دکھا نے کی
کوشش کی جارہی ہے امن کی خوگر اور جنگ بے زار ہیں ۔مگر کیا کیا جائے حکم
سلطانی ہے۔ہزار احتجاج کیجیے ،لاکھ مخالفت کیجیے،بے شمار سخت تیور دکھا ئیے
، وہ بدلنے والا نہیں ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ کانگریس بنام یوپی اے نے پارلیمنٹ کو یرغمال بنا کر اس
طرح من مانیاں کی ہیں اورمقبول و کامیاب 14ویں لوک سبھا کے مقابلے ناکام
اور ناپسندید ہ 15ویں لوک سبھا کا تحفہ ملک کو دیا ہے ۔ہو سکتا ہے ارکان
پارلیمنٹ خود اپنی پیٹھ تھپ تھپا رہے ہوں اورصاحب اقتدار و اپوزیشن میں
بیٹھنے والے چاہے کتناہی آپس میں گلے مل کر مبارک باد دے رہے ہوں مگر عوام
ان کی کارگر دگی سے خوش نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ارکان پارلیمان کو مبار ک
باد دینے پر آمادہ ہیں۔اس لیے کہ یوپی اے دوم کے پنج برسی دور میں عوام نے
جو نئے شگوفے،نئے اندازوں سے ایوان میں دھکا مکیاں،نئے نئے لفظوں میں
گالیاں اور الزام تراشیاں دیکھیں ایسی کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ایک وقت تو وہ
آیا جب اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے عوام سڑکوں پر اترآئے اور
بدعنوانوں سے’سوراج ‘حاصل کر نے کی جدوجہد کر نے لگے۔ملکوں کی تاریخ کا وہ
سیاہ دور ہوتا ہے جب عوام اور حکمران آپس میں دو دو ہاتھ ہونے کو تیار ہوں
اور حکمرانوں کو مٹی میں ملانے کا عزم رکھتے ہوں ۔حالیہ دور ہندوستان کا
ایسا ہی دور ہے ۔وہ وقت دور نہیں جب بدعنوان حکمران ،غیر مہذب ارکان
پارلیمان اور بے وجہ شور و غل مچانے والا اپوزیشن اپنی عبرتناک شکست کے زخم
چاٹتا ہوگا اور 16ویں لوک سبھا میں ’عام آدمی ‘کا راج ہوگا۔
احساس
٭آندھراسے تلنگانہ جانے والے لوگوں پر پھر وہی خطرات منڈلانے لگے ہیں جو
دہلی،امرتسر،جے پور سے لاہور جانے والوں اور ممبئی،احمد
آباد،جودھپور،بھرتپورسے کراچی جانے والوں کو لاحق ہوئے تھے۔یعنی پھر ہمیں
کٹی پھٹی لاشیں ،لٹی عصمتیں ،جلتے گھر اور بنت حوا کی دلخراش چیخیں سننے
اور یہ مناظر دکھانے کی مذموم سازش رچی گئی ہے۔گو اس سے تلنگانہ کے عوام کی
دیرانہ آرزو تو پوری ہو گئی اور وہ جشن منارہے ہیں مگر مجھے صد فی صد یقین
ہے کہ یہ لمحاتی خطا صدیوں کو ضرور سزا دلا ئے گی ۔
٭لسانی بنیاد پر سرحد پار آج سے40سال قبل جو خون خرابہ ہوا ،جو املاک برباد
ہوئیں اور دلوں میں دراڑیں ڈالیں گئیں وہی نمونہ ان نسلوں کو دکھا نے کی
کوشش کی جارہی ہے امن کی خوگر اور جنگ بے زار ہیں ۔مگر کیا کیا جائے حکم
سلطانی ہے۔ہزار احتجاج کیجیے ،لاکھ مخالفت کیجیے،بے شمار سخت تیور دکھا ئیے
، وہ بدلنے والا نہیں ہے۔ |