مشہور محاورہ ہے کہ’’جس کی لاٹھی
اُس کی بھینس‘‘یوں تو آج کی دنیا جسے مہذب دنیا بھی کہا جاتا ہے کم وبیش یہ
محاورہ پووری دنیا پر صادق آتاہے مگر پاکستان میں شدت کے ساتھ اس محاورے پر
عملدرآمد ہورہا ہے۔یہ سلسلہ سرکاری و نجی اداروں سے لے کر سیاسی ،مذہبی
تنظیموں وگلی کوچوں کی پنچائتی کمیٹی تک جاری و ساری ہے مگر حیر ت اس بات
پر ہے کہ سٹیٹ کے اہم فیصلے بھی اس نہج پر ہوتے نظر آرہے ہیں۔در حقیقت
ہمارے حکمرانوں نے روز اول سے آج تک ایسا کوئی تاریخی فیصلہ نہیں کر سکے
ہیں جس کی بناء پر ہم فخر کرسکیں۔اگر ایسا مثبت فیصلہ ماضی میں کیا
جاتاتوآج ملک اور عوام کا یہ حال نہیں ہوتا جو نظر آرہا ہے۔چونکہ بات
طالبان کے حوالے سے ہورہی ہے یہ کب،کیسے اور کیوں وجود میں آئے اور انہیں
اودھم چوکڑی مچانے کی کھلی چھوٹ ملنے کے وجوہات اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے
اب بات بہت دور تک جا پہنچی ہے۔یہاں میں ایک مثال کے ذریعے اپنی بات کو آگے
بڑھانا چاہوں گا۔ملک کے طول عرض میں دور دراز دیہاتوں،گوٹھوں میں کسی گھر
کا کوئی فرد اگر بیمار ہوجائے تو وقت پر اُس مریض کا علاج نہیں کروایا جاتا
ہے جب مرض اپنی جڑیں پکڑ لیتی ہے توکسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اور مریض
بھی نہیں بچتا ساتھ جمع پونجی بھی لٹ جاتی ہے مانا کہ شعور اور سہولیات کی
کمی کے باعث ایسا ہوجاتا مگر اتنی بے حسی کم از کم ایک انسان ہونے کے ناطے
زیب نہیں دیتی ہے۔بالکل اسی طرح ملک میں کئی سالوں سے دہشت گرد نہ صرف کھلے
عام دہشتگردی کرتے رہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان بھی کرتے رہے کہ جی
فلاں دھماکہ،فلاں دہشت گردی ہم نے کی ہے۔کسی بھی ملک کے لئے اتنا کافی ہے
کہ ایک دفعہ کسی اہم جگہ پر دہشت گردی سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوں اور ظلم
کرنے والا سینہ ٹھونک کر اعتراف بھی کرے۔ایسے میں ملک کی بقاء کی خاطر ٹھوس
اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں مگر پاکستان میں اتنی خاموشی سے یہ تماشہ دیکھا
گیا کہ جیسے قتل کرنے کے بعد لواحقین کی آہ بکا سن کر قاتل خوش رہتا ہے اسی
انداز سے ارباب اختیار نے خاموشی اختیار کی یہاں تک کہ ظالموں کا خونی پنجہ
خود ان کے گریبان تک پہنچا مگر مفاہمت کی پالیسی کو آنچ تک نہ آئی؟ لیکن ن
لیگ حکوومت نے مذاکرات کے حوالے سے ایک apc کا اہتمام کیا اور اس اے پی سی
کی کشتی ڈما ڈھول ہوتی رہی بل آخر مذاکرات کو عملی جامع پہنانے کی کوشش میں
ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ایک دوسرے کے پریم پتر پہنچائے گئے خدا کرے جس طرح
بھی دہشت گردی سے عوام کی جان چھوٹے بامقصد مزاکرات سے کون انکار کر سکتا
ہے۔حال ہی میں مولوی سمیع الحق نے نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
طالبان پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اس ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس
کے بعد مولوی عبد العزیز صاحب نے کہا کہ طالبان موجودہ آئین کو نہیں مانتے
بلکہ شریعت اور قران و سنت کے مطابق ہی مذاکرات کریں گے۔ حالانکہ بقاء کی
جنگ اور ان کی شریعت کے حوالے سے وہ متاثرین ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔یہ بات
باعث تشویش ضرور تھی مگر پھر بھی مذاکرات کا سلسلہ رواں دواں ہے۔یہاں یہ
بھی کہا گیا کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہئے امریکہ کی غلامی سے پاکستان الگ
رہے یہ بات ہر ایک کے لئے قابل قبول ہے اور غلامی سے الگ رہنے والی بات پر
پھر کبھی الگ بحث کی ضرورت ہے۔چند ماہ قبل ایک نجی ٹی وی چینل نے اس بات کا
انکشاف کیا کہ بھارت افغانستان میں طالبان کو پاکستان کے خلاف سیکنڈ فرنٹ
لائن پر استعمال کر رہا ہے،اور گزشتہ دنوں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے
حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ اس مذاکرے
میں بھی طالبان کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور پیچھے جو استاد بیٹھے ہیں وہ جو
کہیں گے اس پر طالبان چلیں گے۔یہاں ایک اہم نقطہ یہ بھی نظر آرہا ہے کیا
پورے طالبان کی ڈور فقد شاہد اﷲ شاہد کے ہاتھ میں ہے اگر واقعی ایسا ہے تو
ان مذاکرات میں امن نظر کسی حد تک نظر آرہا ہے اگر ایسا نہیں ہے طالبان کے
کئی گروپ موجود ہیں تو خدا نخواستہ اگر دیگر طالبان کے گروپ دہشت گردی میں
سر گرم ہوئے تو ان سے بچاؤ یا تدارک کی حکمت عملی طے کرکے واضح کرنا ضروری
ہوگا۔بصورت ددیگر دہشت گردی پہلے سے کہیں زیادہ ہونے کے خطرات منڈلا رہے
ہیں جس کی واضح مثال ایک طرف مذاکرات کے مذاکرے ہورہے ہیں دوسری جانب ان
دنوں ہونے والی دہشت گردی ہے۔پھر اُس گروپ کے ساتھ مذاکرات جاری رہیں گے
اور دوسرا،تیسرا گروپ سر اُٹھائے گا تو زندگی مذاکرات کی نزر ہوجائیگی۔یہی
تو یہاں کے اندرونی معاملات کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔جبکہ یہاں اصل کردار
طاغوت،سامراج کا ہے ابھی تو چھوٹے استاد اور شارگردوں کے درمیان رسہ کشی چل
رہی ہے اور ہیڈ ماسٹر باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ یہ تو بہت پہلے واضح
ہوچکا ہے کہ طالبان کو پاکستان کے توسط سے بنانے والا امریکہ بہادر ہی ہے
اوراور اس میں روس کے خلاف تیار کی جانے والی حکمت عملی میں قوموں کی
نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان کو بھر پور تیار کر کے میدان میں اتارا
گیا اور سامراجی توقع کے مطابق وہ کامیاب بھی ہوئے۔جب یہ طالبان عظیم مجاہد
ہوا کرتے تھے ان کی مدد اور تربیت میں امریکہ کیCIA,برطانیہ کیMI 6اور
پاکستان کیISI شامل تھے ۔پاکستان کی جانب سے کرنل امام کا بڑا رول رہا
مرحوم کا خود کہنا تھا کہ میں نے18 سال طالبان کو تربیت دی اور وہ بہتر
تربیت حاصل کرچکے ہیں۔کرنل امام کو کس بیدردی سے قتل کیا گیا اُس کا ویڈیو
فیس بک پر عام دستیاب ہے۔اہل دانش کا کہنا ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی
دھماکہ کیا تو پینٹاگان نے اس ملک کے نقشے پر سرخ نشان لگایا تھا اور
پاکستان کو ایٹمی ملک پورا سامراج،طاغوت جو بھی نام دیں کبھی برداشت نہیں
کرسکتا ہے۔آپ کو یاد ہوگا مشرف دور میں جب صوبہ سرحد میں پاک آرمی طالبان
کا آپریشن کر رہی تھی اُس دوران مسلسل امریکہ یہ خبر دے رہا تھا کہ اتنے
دنوں میں، اتنے گھنٹوں میں طالبان اسلام آباد تک پہنچ سکتے ہیں امریکہ
بہادر کو ایسی خبریں دینے کی جلدی کیوں تھی یا ان کی اپنی خواہش تو نہیں
تھی۔اور اکثر و بیشتر امریکہ یہ خبر بھی دیتا ہے کہ پاکستانی ایٹم بم دہشت
گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے باربار یہ باور کرایا
جارہا ہے کہ ایٹم محفوظ ہاتھوں میں ہے یہ پیغامات بہت پیچیدہ قسم کے ہیں۔اب
اگر مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں اور طالبان یعنی جو پنجابی،پختون یا
پاکستانی طالبان جو بھی ہیں وہ کھل کر ملک کی سیاست میں حصہ لینے لگ جائیں
اور اسمبلی تک ان کی رسائی بھی ممکن ہو۔دوربین نظر رکھنے والے اس بات کو
کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کو آج تک طالبان کو اسلحہ اور دیگر لوازمات کہاں
سے فراہم ہورہے ہیں جبکہ بظاہر امریکہ،برطانیہ، انڈیا،روس مخالف نظر آرہے
ہیں۔جبکہ نیٹو کے اتنے سارے اسلحہ بردار کنٹینر کا آج تک کوئی سوراخ نہ
ملنا بھی معنی خیز ہے۔،عین ممکن ہے کہ سامراج غیر محسوس طریقے سے طالبان
اور طالبان نواز قوتوں کو پاکستانی سیاست میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرے
اور جب اس نظریعے کے لوگ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے تو سامراج اپنے خونی
پنجوں کو لہراتے ہوئے اپنے اتحادیوں کو جمع کر کے کہے گا کہ پاکستان کا
ایٹم بم دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہے لہٰذا اب ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہے خدا
خواستہ ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو اس ملک کا کیا بنے گا۔پاکستان نام کا جو
ٹکڑ اہل پاکستان کے پاس ہے جو نہ صرف قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے بلکہ
جغرافیائی اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی عادت
ڈالنی ہوگی اس سامراج نے کہاں کہاں نقشہ تبدیل نہیں کیا ہے،اپنی مرضی مسلط
نہ کی ہو۔اور جہاں بھی اس نے بگاڑ پیدا کیا ہے وہاں بڑے لیول کے اشخاص کو
خرید کر انہیں ٹھیکہ دے کر اپنے مقاصد حاصل کئے ہیں۔اب پاکستان کو بچانے
والے اس پر جان قربان کرنے والے اور دور اندیش ذمہ دار شخصیات کی یہ بہت
بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ آیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اندر بھی کوئی بک
چکا ہو اور سامراجی ٹھیکہ میں شامل ہو اگر ایسا ہے تو پانی سر سے گزرنے سے
قبل اس کا تدارک ناگزیر ہوگا۔اور اہل پاکستان کو1965ء پاک بھارت جنگ میں
امریکہ کا کردار کو نہیں بھولنا چاہئے اور اس ملک کے وجود کو سب سے پہلے
ایران نے قبول کیا اور پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا جبکہ عراق نے
بھارت کا ساتھ دیا۔دوسری جانب سامراج اپنے تیار کئے ہوئے لوگوں کے ذریعے
پاکستان میں اہل تشیع کی عرصہ حیات کو تنگ کرکے انہیں اس حد تک کمزور
دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ بھولے سے بھی ایران کے حق میں آواز نہ اُٹھائیں عین
ممکن ہے کہ اس پر کام کرنے کیلئے الگ ونگ بنا رکھا ہو۔ حال ہی میں ایک
مقامی آخبار میں ایک صاحب نے اپنے ایک مضمون میں یہ ثابت کرنے کی بھر پور
کوشش کی ہے کہ شیعہ طالبان بھی موجود ہیں لگتا ہے کہ اس ملک میں ایسے افراد
کی کمی نہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ملک کے اندر افرا تفری اور نفرت
پھیلانے کے سامراجی ٹھیکے پرعمل کر رہے ہوں۔ چونکہ موجود امریکہ ایران کے
درمیان تناؤ میں نرمی پیدا نظر آرہی ہے وہ فقد نظریہ ضرورت کے تحت ہے اور
امریکہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کوئی اسلامی ملک اس کے سامنے ڈٹے یا نہ ڈٹے
مگر ایران ہی وہ واحد اسلامی سٹیٹ ہے کہ وقت آنے پر اُس کے سامنے کھڑا رہ
سکتا ہے۔اب حالات بہت نازک موڑ سے گزر رہے ہیں اس لئے پاکستانی تھنک ٹینک
کو سامراجی ایجنڈے پر سنجیدیگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہم یہ نہیں کہتے
ہیں کہ مذاکرات نہ ہوں مگر ارباب اختیار کہ ہر معاملے میں سامراجی ایجنڈے
کے پس منظر پر نہ صرف نظر رکھنا ہے بلکہ ان کے ہر ایجنڈے کی توڑ میں اپنی
بیداری اوور مثبت حکمت عملی سے ملک کو بچانا اولین فریضہ میں شامل ہونا
چاہئے اور ایسی ہمت وہی رکھ سکتا ہے جس کا دامن پاک ہو۔ |