یک طرفہ جنگ بندی کا مطالبہ درست نہیں

رہنما جماعت اسلامی ،طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم سے خصوصی گفتگو
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے،جس سے ملک میں ایک طرح کی غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور بہت سے قومی حلقے ملک کے امن و سلامتی کے مستقبل کے حوالے سے مختلف اندیشے ظاہر کررہے ہیں۔مذاکرات میں تعطل کے اسباب کیا ہیں اور امن و مصالحت کے عمل کی بحالی کی کیا سبیل ہوسکتی ہے؟یہ جاننے کے لیے روزنامہ ”اسلام“ نے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے اہم رکن اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسرمحمد ابراہیم سے خصوصی گفتگو کی ہے جس کا احوال پیش خدمت ہے

عابد محمود عزام: حکومت اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہیں؟

پروفیسر محمد ابراہیم: ہماری ملاقاتیں حکومتی کمیٹی کے ساتھ ہوتی رہی ہیں۔ شروع میں تو سنجیدگی دکھائی دیتی تھی، لیکن کچھ واقعات ہونے کے بعد پھر انہوں نے مذاکرات کو ختم کردیا۔ مذاکرات کے تعطل کا عمل فریقین نہیں صرف حکومتی کمیٹی کی طرف سے ہوا۔

عابد محمود عزام:آپ کا بیان چھپا ہے کہ بمباری کے باوجود طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہیں، حکومت ہی سردمہری کامظاہرہ کررہی ہے،کیا اس سے یہ تاثر نہیں ابھر رہا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے؟
پروفیسر محمد ابراہیم: بالکل ایسے ہی ہے۔حکومت مذاکرات میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔متعدد رابطوں کے باوجود حکومتی کمیٹی طالبان کمیٹی سے ملاقات نہیں کررہی،ایسا لگتا ہے کہ انہیں حکومت سے اجازت نہیں مل رہی۔اس طرح یہ کمیٹیاں بے معنی ہوگئی ہیں۔

عابد محمود عزام:تو پھر طالبان کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ صاحب کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کی دو سو فی صد امید ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: ابھی مذاکرات نہیں ہورہے، مذاکرات تو کب سے معطل ہیں۔ ہاں اگر مذاکرات ہوئے تو پھر مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں اور اس صورت میں مذاکرات کے لیے پرامید ہیں۔

عابد محمود عزام:طالبان اور حکومت سیزفائر میں پہل کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو ایسے حالات میں کیا مذاکرات کی کامیابی کی امید رکھنی چاہیے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: سیز فائر تو ہمیشہ بیک وقت دونوں طرف سے ہوتا ہے، ایک طرف سے تو کہیں بھی نہیں ہوتا۔ حکومت جب بھی یہ کہتی ہے کہ یکطرفہ سیزفائر ہو تو اس کا مطلب ہے کہ سنجیدگی نہیں ہے۔ہاں طالبان نے یہ کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، حکومت یہ یقین دہانی کرائے کہ حکومت کے پاس طالبان کے جو قیدی ہیں ان کو قتل نہ کیا جائے۔ یہ آئینی اور قانونی مطالبہ ہے، لیکن حکومت اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دے رہی۔ حکومتی اہلکار تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کسی کو نہیں مارا لیکن مستقبل کے حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی۔یہ آئینی اور قانونی مطالبہ ہے کہ نہ ہی طالبان کسی قیدی کو ماریں اور ن ہی حکومت مارے، لیکن حکومت کی شرط یہ ہے یک طرفہ طالبان جنگ بندی کریں۔ طالبان کہتے ہیں ہم جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، لیکن ہمیں یقین دہانی کرائی جائے کہ ہمارے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد سیز فائر کے لیے تیار ہیں۔

عابد محمود عزام:ایک تو طرف وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے بغیر امن ممکن نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف طالبان کے خلاف بمباری بھی کی جارہی ہے، یہ تضاد کیا پیغام دیتا ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: یہ سب کچھ ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، تضادات تو ہیں۔
عابد محمود عزام:طالبان کا کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات کی آڑ میں ہم سے آئین منوانا چاہتی ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: طالبان کہتے ہیں کہ آئین کی بات کو ابھی نہ چھیڑا جائے۔ پہلے قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر بات کی جائے۔ قرآن و سنت کی حدود کے اندر مذاکرات کیے جائیں۔ قرآن و سنت کی حدود میں مذاکرات کے لیے ہم تیار ہیں اور حکومت ہمارے ساتھ کسی نکتے پر متفق ہوجائے، مذاکرات شروع کردے، آئین کی بات بعد میں کی جائے۔

عابد محمود عزام:آپ کا کہنا ہے کہ طالبان اور فوج براہ راست مذاکرات کریں تو امن قائم ہوسکتا ہے،کیا دونوں کا براہ راست مذاکرات کرنا ممکن ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: ایسا بالکل ممکن ہے کہ دونوں براہ راست مذاکرات کریں۔یہ صورت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔

عابد محمود عزام:آپ کا بیان شائع ہوا ہے کہ حکمران ملک میں اسلامی نظام نافذ کریں طالبان کو ہم راضی کرلیں گے، کیا حکمران ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے پر راضی ہوجائیں گے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: اصل میں بات آئین پر عمل درآمد کی ہے، اسلامی نظام کا نفاذ آئین کا تقاضا ہے اور یہ آئینی تقاضا اگر حکمران پورا کردیں اور قرآن و سنت کے نظام کو آئین کے مطابق نافذ کردیں تو طالبان اس آئین کو مان لیں گے۔یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان آئین کو نہیں مانتے،اگر وہ نہیں مانتے تو حکمرانوں نے کب اس آئین کو مانا ہے۔ کیا حکمران اس آئین پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں؟ طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کو مانتے ہیں، آئین کو نہیں مانتے۔ حکمران کہتے ہیں کہ ہم آئین کو مانتے ہیں۔ ہم تو قرآن و سنت کو بھی مانتے ہیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں آئین کو بھی مانتے ہیں، لیکن حکمرانوں نے آج تک آئین پر کیا عمل درآمد کیا؟یہ بتائیں۔ اگر وہ آئین پر عمل درآمد کرکے ملک میں قرآن و سنت کے نظام کو نافذ کردیں تو طالبان بھی اس آئین کی تائید کریں گے۔سب مانیں گے۔

عابد محمود عزام:بعض حلقے مذاکرات کا پراسس خفیہ رکھنے پر زور دے رہے ہیں،آپ کے خیال میں میڈیا میں کمیٹی ارکان کی روزانہ کی بنیاد پر مذاکرات کے حوالے سے گفتگو اس عمل پر کس طرح اثر انداز ہورہی ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: اب تو مذاکرات ہی میڈیا پر ہورہے ہیں اور کہیں مذاکرات ہو ہی نہیں رہے۔ بالکل مذاکرات خفیہ ہونے چاہئیں۔ میڈیا کو تو وہ فیصلے جاری کیے جاسکتے ہیں جو دونوں جانب سے طے ہوجائیں ۔یہی طریقہ بہتر ہے۔

عابد محمود عزام:ان دنوں یہ بات کئی بار سامنے آچکی ہے کہ کوئی تیسری قوت مذاکرات کوسبوتاژ کرنا چاہتی ہے، آپ کے خیال میں یہ تیسری قوت کون ہے اور وہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: ایک قوت نہیں بہت ساری قوتیں ہیں، وہ سب دشمن قوتیں ہیں۔ ہر کسی کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور دشمن دشمن ہوتا ہے، وہ نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ ایسی قوتیں طرفین میں ہیں۔کراچی میں کچھ غیر ملکی پکڑے گئے ہیں ، سب کے سامنے ہے۔عابد محمود عزام: جب سب جانتے بھی ہیں کہ ایسی قوتیں ہیں تو پھر کیوں مذاکرات کو سبوتاژ ہونے دیتے ہیں؟

پروفیسر محمد ابراہیم: اس کا جواب تو حکومت ہی دے سکتی ہے کہ مذاکرات کو کیوں سبوتاژ ہونے دیا جاتا ہے، حالانکہ کچھ دنوں قبل وزیر داخلہ صاحب کا بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ مذاکرات مخالف کچھ قوتیں مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔

عابد محمود عزام:کچھ حلقے ابھی تک مذاکرات کی مخالفت اور آپریشن کی حمایت کررہے ہیں، وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟

پروفیسر محمد ابراہیم: ان کا جواب تو میرے پاس نہیں ہے۔ میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر آپریشن کیا گیا تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے۔ ماضی کے تجربات سے ہمیں معلوم ہے کہ جب 10 سالوں کے کسی آپریشن کا مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا تو مستقبل میں نتیجہ کیسے مثبت آسکتا ہے۔ پرویز مشرف نے 2004ءسے وانا میں آپریشن شروع کیا، پرویز مشرف نے یہ کہا تھا کہ ان چند افراد کا صفایا چند ہفتوں کی بات ہے، پھر وہ چند افراد ہزاروں میں تبدیل ہوگئے اور چند ہفتے کئی سالوں میں تبدیل ہوگئے۔ جب ماضی کا تجربہ یہ ہے تو پھر مستقبل میں کسی بھی مثبت نتیجے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمیں اس وقت بھی جو نتائج دکھائی دیتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ باجوڑ، مہمند، خیبر ایجنسی، باڑہ، کرم اورکزئی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ آپریشن کی صورت میں دونوں جانب سے ہزاروں افراد قتل ہوں گے، مہاجر بنیں گے، ہزاروں بستیاں اجڑیں گی، تباہی ہوگی اور ملک کے اندر دہشت گردی کی خطرناک اور شدید لہر اٹھے گی اور اس کے بعد جب اس تباہی سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا تو تنگ آکر حکومت پھر مذاکرات کرے گی ۔ اگر اتنی بڑی تباہی کے بعد مذاکرات ہونے ہیں تو پھر آج کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس لیے اس کیوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ میں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ مذاکرات کی مخالفت اور آپریشن کی حمایت کررہے ہیں وہ یہ دیکھیں کہ ماضی میں آپریشن کا کیا نتیجہ نکلا ہے اور مستقبل میں کیا نکل سکتا ہے؟

عابد محمود عزام: مذاکرات مخالف جماعتیں کیا عوام کی نمائندگی کررہی ہیں؟

پروفیسر محمد ابراہیم: پاکستانی عوام میں سے تو میں نے ایسا کوئی نہیں پایا جو مذاکرات کی مخالفت کررہا ہوں۔ ہر جگہ سے ہمیں پیغام مل رہا ہے کہ ہم آپ کے لیے دعا گو ہیں، مذاکرات کامیاب ہونے چاہئیں۔ عوام مذاکرات کی کامیابی کی دعائیں کررہے ہیں۔ ہر کوئی اس کا خواہش مند ہے کہ ملک کے اندر امن قائم ہو اور امن کے قیام کا مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ آپریشن کے نتیجے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
عابد محمود عزام:بعض حلقے شروع دن سے آپریشن کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں، میرانشاہ میں بھی فوجی گشت بڑھادیا گیا ہے، خدانخوانستہ کیا واقعی یہ خداشات درست ثابت ہونے جارہے ہیں؟

پروفیسر محمد ابراہیم: بالکل! یہ خدشات ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔ بالکل یہ سلسلہ آپریشن کی طرف جارہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے۔

عابد محمود عزام:یہ تاثر یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی آڑ میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں؟

پروفیسر محمد ابراہیم: اس بات کا جواب تو فریقین ہی دے سکتے ہیں۔ ہم تو مذاکراتی کمیٹی کے ارکان ہیں۔ ہمیں تو مذاکرات کے لیے مقرر کیا گیاہے، ہم کسی کی صفائی نہیں دے سکتے۔

عابد محمود عزام:آپ مذاکرات کامستقبل کیا دیکھ رہے ہیں، قوم اس حوالے سے کیا امید رکھے؟

پروفیسر محمد ابراہیم: مذاکرات تو معطل ہیں، دوبارہ اسی طرح ہوتے نظر نہیں آرہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.