چندروزقبل میراگزر ایک ایسی غریب
بستی سے ہوا،جہاں چھوٹے چھوٹے پرانے بوسیدہ اینٹوں کے بنے ہوئے گھرتھے اور
اِن گھروں میں بیشترایسے بھی تھے جن کے دوایک کمرے بن چھت اور بن دروازوںکے
تھے اور اکثرگھروں کے مین دروازے نہیں تھے اِن کی جگہہ پھٹے پرانے ٹاٹ کے
پردے لٹک رہے تھے اور وہاں کی بغیر سڑک کی گلییوں میں کچی زمین پر بنی آڑی
ترچھی گندی نالیاں،اور اِن نالیوں میں بہتاکالا اور ٹھیراہواسیوریج کا
بدبودار غلیظ پانی اور اِس پانی میں موجود رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑے ،اِس
بستی کے مکینوں کی کسمپری اوراِن کی اذیت ناک حالاتِ زندگی کی داستان
بتارہے تھے یقین جانیئے کہ جب تک میں اِس بستی میں رہامجھے ہر قدم پر یہاں
کے مکینوں کی حالتِ زار پر روناآیااور یہ احساس بھی بڑی شِدَت سے ہوتارہا
کہ یہاں کے لوگ کس بے کسی اور لاچارگی کی زندگی گزاررہے ہیں اِس بستی کے
مکین کیسے زندہ رہتے ہوںگے..؟ اور میرے ذہن میںصرف ایک یہ ہی خیال آتارہا
کہ کیا غربت و لاچارگی اور مفلسی اِس غریب وبیکس بستی کے مکینوں کا ہی
مقدرہے ...؟کیا کبھی اِس بستی اوریہاں کے لوگوں پرکسی حکومتی رُکن یا کسی
صاحبِ ثروت رحم دل اِنسان کی نظرنہیں پڑی جواِس بستی کے مکینوں کی حالاتِ
زندگی بدل دیتایا اِس بستی کے لوگوں کے رہن سہن کے طریقوںکی تبدیلی ہی کے
خاطر کوئی معاونت کرتا..؟؟؟مگرپھراگلے ہی لمحے مجھے اپنے اِس احساس اور
سوال کا اپنے ہی دماغ سے یہ جواب مل گیا کہ اُوہ بھائی ..!!چھوڑ اِس خیال
کو کہ کوئی اِس بستی کے اِن غریب لوگوں کی حالاتِ زندگی بہتربنانے کی سوچے
گا..؟؟اُﺅئے ..!اِن ہی اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہنے والے غریب و مفلس
لوگوں کے نام پر توہمارے یہاں این جی اوز بنائی جاتی ہیں اور یہی تو میرے
مُلک کی وہ بستیاں ہیں جہاں نومولودسیاسی کِھلاڑی آکر اپنی سیاسی تربیت
لیتے ہیں ، اوریہیں سے تو اُنہیں جھوٹ بولنا،مسائل میں گھرے غریبوںکوسبزباغ
دِکھانا،اورجھوٹی تسلیوں کے بول بولناسِکھائے جاتے ہیں..پھر کون یہ چاہئے
گاکہ کوئی اِن سیاسی تربیت گاہ کادرجہ رکھنے والی بستیوں کے غریبوں کی حالتِ
زار ٹھیک کرے گا،اور اگریہ بستیاں بھی شہر کے دیگرصاف سُتھرے علاقوں کی طرح
بنادی جائیں گیں تو پھر اِن سیاسی کِھلاڑیوں کی تربیت کہاں سے ہوگی ...؟اور
انتخابات کے دِنوں میں اِن کی کارنرزمیٹنگوں اور بڑے بڑے جلسوں جلوسوں اور
ریلیوں میں کون آئے گا..؟اِن ہی غریب بستیوں کے رہائشی تو ہوتے ہیں جو
انتخابات کے دِنوں میں اِن کے اجتماعات کوزینت بخشتے ہیں اور یہی تو وہ
بستیاں اور اِن کے مکین ہیں تو جواین جی اوز کوبیرون ممالک سے امداد دلواتے
ہیں،اگر اِن ہی بستیوں اور یہاں کے لوگوں کے تمام مسائل حل ہوگئے تو پھر
اِن این جی اُوزکو کون امداددے گا..؟اور امدادوں کے بغیر این جی اوز کیسے
چلیں گیں..؟یعنی میرے شہراورمیرے مُلک میں بے شمار ایسی بستیاں موجود ہیں
جن پر سیاست دانوں اور این جی اوز کا گورکھ دھنداچال رہاہے بقولِ شاعر:۔
رفتہ رفتہ راز یہ آخرکُھلا
دُور سے لگتاہے یہ منظر بَھلا
آج بھی آدمیت کے نام پر
” دھوکہ دیتے ہیں بازی گر کُھلا
یقینامیرے مُلک میں کبھی زندہ رہنااتنامشکل تو نہیں تھاکہ آج جتنامشکل
ہوگیاہے..؟ یا بنادیاگیاہے..؟جہاں ہر سانس کے بعد ہرگزرتے لمحے سانس
لینااور زندہ رہنابھی دوبھر ہوگیاہے ،اِس دورِ جدید میں ہمارے مسائل تو
اپنی جگہہ جوں کے توں ہی ہیں مگر موجودہ حالات میںہونے والی جدیددہشت گردی
اور نت نئے طریقہ واردات نے بھی ساری پاکستانی قوم کو شدیدذہنی و جسمانی
اذیتوں میں مبتلاکررکھاہے ، اَب اِن حالات میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جیئیں
تو کیسے ..؟۔
جبکہ یہاں یہ امریقینا پاکستانی قوم کے ہر فردکے لئے لمحہ فکریہ ہوگاکہ
ہماری موجودہ حکومت نے آٹھ دس ماہ میں کوئی ایساقابلِ قدر اقدام نہیں کیا
ہے کہ جس سے مُلک سے غربت کا خاتمہ ہواور غریبوں کی حالتِ زندگی
بہترہوجائے،ہمارے وزیراعظم جو کاروباری لحاظ سے اچھاخاصہ تجربہ رکھتے ہیں
فی الحال تو اِن کی ساری صلاحیتیں دوررس نتائج کے حامل اپنے کاروباری
معاملات نمٹانے پر مرکوز دکھائی دیتی ہیں ، آج اگر یہ جتناوقت بطوروزیراعظم
کاروباری منصوبہ بندیوں پر صرف کررہے ہیں اگر تھوڑابہت وقت بھی براہ راست
مُلک کی غریب بستیوں اور اِن بستیوں میںبسنے والے اپنے بنیادی حقوق سے
محروم مکینوں کی حالتِ زندگی بہتربنانے کے لئے لگادیتے تو مُلک کے غریب
لوگوں میں بھی یہ اُمید ضرور پیدا ہوجاتی کہ اَب اِن کی بھی حالتِ زندگی
بہترہوجائے گی، اور اِنہیں بھی وہ تمام جدیدسہولیات زندگی میسر آجائیں گیں
جیسے شہر اور مُلک کے دیگرعلاقوں اور بستیوں کو حاصل ہیں،مگر افسوس کہ اِس
حوالے سے ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف نے اِتمام حجت بھی ایسانہیں کیا ہے
یوں ہماری موجودہ حکومت کی کارکردگی جو عوامی مسائل کے حل کی جانب سے پہلے
ہی انتہائی سست ہے اَب صفرسے بھی نیچے جاتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ آج نوازحکومت لاکھ یہ دعوے کرلے کہ اِس نے اپنی حکومت کے آٹھ دس ماہ
میں مُلک سے غربت اور غریبوں کی حالتِ زندگی بہتربنانے میںمثالی
کرداراداکیا ہے تو اِس حکومتی دعوے پر میراتلملاکر صرف یہ ہی کہناہوگاکہ ”
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا یہ دعویٰ صریحاََ جھوٹ ہے“میں اپنے پورے
یقین سے یہ کہہ سکتاہوںکہ ابھی تک نواز حکومت نے مُلک سے غربت اور مہنگائی
کے خاتمے کے لئے ایک رتی کا بھی کام نہیں کیا ہے، حالانکہ اِسے یہ کام شروع
کے ایک دوماہ ہی میںکرلیناچاہئے تھامگر اِس نے اِسے پسِ پست ڈال دیااور اُن
کاموں اور منصوبہ بندیوںمیں لگ گئی جس کے لئے پانچ سالہ مدت بھی کم ہے،
جبکہ ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ ہماری موجودہ حکومت سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں
پر مُلک سے غربت و مہنگائی او ربے روزگاری سمیت مُلک سے بڑھتے ہوئے توانائی
اور دہشت گردی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرتی ...مگرہماری اِس
حکومت نے تو اِس جانب سنجیدگی سے کچھ سوچناتودرکنااِسے اپنے ایجنڈے سے ہی
نکالے رکھااور ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت دیگر اہم حکومتی ذمہ
داران نے تو اپنی ساری توجہ بیرونِ ممالک کے کئی کئی دنوں، ہفتوں اور
مہینوں کے دوروں پر ہی مرکوزرکھی اور اَب جبکہ حکومتی اراکین کے آٹھ دس ماہ
دنیا بھر کی سیرسپاٹوں اور کھومنے پھرنے میں گزرگئے ہیں تو اَبھی اِنہیں
مُلک سے غربت و بے روزگاری کے خاتمے سمیت توانائی کے بحرانوں سے نجات دلانے
کا خیال نہیں آرہاہے اگرچہ موسم سرماتوزائدمدتی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے
بغیرگزرگیاہے مگرآنے والے دِن جب گرمیوں کے ہوں گے تو سوچوپھر لوڈشیڈنگ کا
کیا حال ہوگا..؟یہ سوچ کر بھی جسم میں تھرتھری سی طاری ہوجاتی ہے.اور جب
اُن دِنوں سورج اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ سر زمینِ پاکستان پر بسنے والی
قوم پر آگ کے شعلے برسارہاہوگااور ایسے میںتب بجلی طویل لوڈشیڈنگ ہوگی تو
پھر سوچیں قوم کا کیا حال ہوگا..؟اور حکومت کِدھر جائے گی...؟تولہذاآج
ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ حکومت توانائی کے بحران سمیت دیگرعوامی مسائل
جن میں غربت اور بے روزگاری جیسے دیگر مسائل بھی شامل ہیں اِنہیں ترجیحی
بنیادوں پر حل کرنے کے فوری اقدامات کرے اور اپنی سوچ اور مُلک کے ترقیاتی
منصوبوں میں تیزی لائے اور مُلک سے جلدازجلددہشت گردی کے ناسُورکا خاتمہ
کرنے کے لئے کسی کے دباؤمیں آئے بغیر ایسے دیرپا فیصلے کرے جس سے مُلک سے
مکمل طور پر دہشت گردی کا کینسر جیسامرض ختم ہوجائے اور مُلک میں ترقی و
خوش حالی کا دوردورہ شروع ہوجائے اور ہر شخص کی زبان پر اِس جملے ” جیئیں
تو کیسے...؟“ کے بجائے یہ جملہ بے ساختہ نکل پڑے”جیوتو ایسے..!جیوتو ایسے“...!!! |