وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں
سلامتی پالیسی پیش کردی۔سلامتی پالیسی پیش کرتے ہوئے وزیرداخلہ کا کہنا تھا
کہ سلامتی پالیسی کے تین حصے ہیں، پالیسی کا پہلا حصہ خفیہ رکھا جائے گا،
جس کا تعلق سیکورٹی پالیسی کے انتظامی معاملات سے ہے۔ دوسرا مرحلہ
اسٹریٹیجک ہے کہ موجودہ حالات سے آگے کیسے بڑھنا ہے۔ اسٹریٹیجک حصے میں کئی
آپشنز ہیں۔ایک یہ کہ 13 سال سے جیسا چل رہا ہے سب کچھ ویسے ہی چلنے دیا
جائے۔ دوسرا آپشن مذاکرات ہیں، تیسرا آپشن ملٹری آپریشن اور چوتھا آپشن
مذاکرات کے ساتھ ساتھ ملٹری آپریشن ہے۔ اس پالیسی کا مسودہ ایک سو صفحوں پر
مشتمل ہے، وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ امریکا کے بعد پاکستان میں سب سے
زیادہ 26 عسکری اور سویلین انٹیلیجنس ایجنسیاں ہیں، لیکن ان کا آپس میں
رابطہ نہیں اور معلومات کی شیئرنگ نہیں ہوتی۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی
یعنی نیکٹا کو فوکل پوائنٹ بنایا جائے گا۔ ایک ریپڈ رسپانس فورس بھی تشکیل
دی جائے گی، جو ہر صوبے میں ہو گی اور یہ فورس پولیس کے ماتحت ہو گی۔ ایک
کاؤنٹر ٹیررزم فورس بھی بنائی جائے گی جو خفیہ معلومات کے حصول پر کارروائی
کرے گی۔
چودھری نثار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کی رہنمائی میں جس
طرح معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے مرحلے
میں مذاکرات کا راستہ بنایا، علمائے کرام کی کمیٹی بنائی گئی جس کے بارے
میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو آگاہ کیا، لیکن حکیم اللہ محسود
کی موت کے بعد یہ عمل ختم ہوگیا، جس کے بعد خفیہ مذاکرات شروع ہوئے، جس کے
بہت سے فائدے تھے، لیکن بنوں واقعے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب مذاکرات
خفیہ نہیں ہوں گے، لہٰذا ایک اور کمیٹی بنی جس نے 17 دن کام کیا، اسی دوران
کراچی میں پولیس اہلکاروں اور مہمند ایجنسی کے 23 مغوی اہلکاروں کو قتل کیا
گیا۔ مسلح افواج نے انٹیلی جنس اطلاعات کی روشنی میں پاک فضائیہ کے طیاروں
کے ذریعے میر علی، شوال میرانشاہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں انتہائی حملے
کیے۔البتہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے پرامن شہریوں کی نقل مکانی کا سلسلہ
شروع ہو چکا ہے۔ حکومت نیک نیتی سے سیاست کو ایک جانب رکھتے ہوئے اس پورے
عمل کو آگے بڑھا رہی ہے، لیکن افسوس ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں اب کہہ رہی
ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیا ہی نہیں گیا۔ عمران خان کی منظوری کے بعد
حکومت نے مذاکرات میں ان کا نمائندہ شامل کیا، لیکن اس کے باوجود ان کی
جانب سے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تو یہ
بہت غلط بات ہے۔ اس سے پہلے نئی قومی سلامتی پالیسی 20 جنوری کو وفاقی
کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی تھی، لیکن اسے بوجوہ منظور نہیں کیا گیا
تھا۔ بعدازاں 23 جنوری کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سلامتی پالیسی کا
از سر نو جائزہ لیا گیا اور 29 جنوری کو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف
نے امن کو ایک اور موقع دینے کی بات کرتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا
تھا۔
واضح رہے کہ یہ پالیسی ایسے موقع پر سامنے لائی گئی ہے جب حکومت اور طالبان
کے درمیان مذاکراتی کمیٹیوں کے مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں اور طالبان
کے خلاف ٹارگیٹڈ کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ کابینہ نے طالبان کو غیر مشروط
طور پر جنگ بندی کے لیے کہتے ہوئے یہ باور کرایا کہ طالبان پہلے جنگ بندی
کریں، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن۔ نئی قومی
سلامتی پالیسی پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے
تنقید بھی کی گئی ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کی سلامتی
پالیسی کو غیر واضح قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان سے
مذاکرات یا جنگ کے اقدام پر اپوزیشن اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے۔
اس پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم خورشید
شاہ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔قومی پالیسی پر ہماری سوچ واضح ہے، وزیر
داخلہ کے بیان سے اگر کوئی ابہام پیدا ہوا تو اس کو دور کریں گے۔ مستقبل
میں طالبان کے معاملے اور قومی سلامتی پالیسی کے متعلق اپوزیشن لیڈر اور
دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ان کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔
نئی پالیسی کے بعد پاکستانی عسکری حکام نے کہا ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے
حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو شمالی وزیرستان سمیت جہاں بھی ضروری
ہوا بھرپور فوجی آپریشن کیا جائے گا، فوج آپریشن کے لیے مکمل طور پر تیار
ہے۔ غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایک سینئرپاکستانی عسکری عہدیدار نے
نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے بعض حصے
طالبان کے مراکز بن چکے ہیں، پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے شمالی وزیرستان
اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا،
فی الحال طالبان کی جانب سے 23 ایف سی اہلکاروں کے قتل اور سیکورٹی اداروں
پر پے درپے حملوں کے خلاف جوابی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ عسکری حکام کا
مزید کہنا تھا کہ آپریشن کی صورت میں حقانی نیٹ ورک، تحریک طالبان اور
القاعدہ کا مکمل طور پر صفایا کیا جائے گا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے
بھی دعویٰ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کسی بھی دن ہو سکتا
ہے۔ذرائع کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں پاکستانی حکومتی عہدیدار نے
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آپریشن کے منصوبے پر اعلیٰ امریکی
عہدیداروں سے مشاورت مکمل ہو گئی ہے۔حکومت نے ابھی تک طالبان سے مذاکرات کی
ناکامی کا اعلان نہیں کیا ہے۔اخبار کے مطابق طالبان کے خلاف آپریشن ہوا تو
یہ بلا امتیاز ہو گا اور حقانی نیٹ ورک کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔جبکہ
عسکری حکام اور نئی پالیسی میں آپریشن کے آپشن کے جواب میں کالعدم تحریک
طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد کا نا معلوم مقام سے جاری اپنے ایک
بیان میں کہنا تھا کہ طالبان حکومت کی جانب سے غیر مشروط جنگ بندی کی پیش
کش کو مسترد کرتے ہیں، اگر حکومت نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ
اپنا شوق پورا کر لے۔ حکومت نے ہمارے خلاف جنگ شروع کی تو ہم بھی اس کا
جواب دیں گے، فوجی آپریشن میں طالبان کا نقصان کم اور حکومت کا زیادہ ہو گا،
حکمران اعداد و شمارجمع کرنے کا اپنا شوق پورا کر کے دیکھ لیں۔
دوسری جانب طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے میڈیا کو
بتایا کہ مذاکراتی کمیٹی کا طالبان شورٰی سے رابطہ ہوا ہے۔ طالبان نے
مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکومت ڈیڈ لاک ختم کرنے میں ہٹ دھرمی
کا رویہ ترک کرے۔ حالیہ بمباری اور نقل مکانی سے صورت حال گھمبیر ہو چکی
ہے۔ مولانا سمیع الحق کے عمرے سے واپسی پر مذاکرات میں بریک تھرو ہو گا۔
وزرا کے بیانات غیر ضروری اور اشتعال انگیز ہیں۔ حکومت اور طالبان دونوں
سیز فائر کریں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی قومی مفاد میں اہم کردار ادا کرے۔یہ
خیال رہے کہ دو روز قبل وزیر داخلہ چودھری نثار سے دونوں کمیٹیوں کی خفیہ
ملاقات ہوئی تھی۔میٹنگ میں وزیر داخلہ کا اصرار تھا کہ طالبان جنگ بندی کا
اعلان کریں اور دہشت گرد گروپوں سے ناطہ توڑیں۔وزیر داخلہ کے اصرار پر
طالبان کمیٹی نے دو روز کا وقت مانگتے ہوئے مثبت جواب کی یقین دہانی کرائی
تھی۔ اب طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے مثبت بیان آیا ہے، طالبان کی
کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ کمیٹی نے سیاسی شورٰی سے رابطہ
کیا ہے جس میں مذاکرات جاری رکھنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی پالیسی امن و امان کے
حوالے سے کچھ مثبت پیش رفت نہیں ہے۔نئی پالیسی سے طالبان کے خلاف آپریشن کی
راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے،اس پالیسی کے بعد ملک کے عسکری اداروں نے بڑے
آپریشن کی تیاریاں بھی شروع کردی ہےں۔ اگر حکومت نے طالبان کے خلاف آپریشن
کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس سے ملک کا امن برباد ہوجائے گا، کیونکہ طالبان یہ
اعلان کرچکے ہیں کہ اگر ہمارے خلاف آپریشن کیا گیا تو بھرپور جواب دیں گے۔
ملک کے امن و امان کے حوالے سے سب سے بہتر مذاکرات ہی ہیں۔ حکومت کو
مذاکرات کا سلسلہ فوری بحال کرنا چاہیے، کیونکہ ملک میں امن وامان کا واحد
راستہ مذاکرات ہی ہیں، کیونکہ ہمیشہ جنگوں کا نجام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔
اگر جنگ کے بعد مذاکرات کرنے ہیں تو پھر ابھی سے مذاکرات کیوں نہیں
ہوسکتے۔ممکنہ آپریشن کی صورت میں وزیرستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہجرت
کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ، جس کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے، لوگوں کی
اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی سے لاتعداد مسائل جنم لیں گے۔جبکہ پاکستان
پہلے ہی بڑے سماجی و معاشی مسائل کا شکار ہے، جن میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ |