متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی اور
دیگر طالبان حامی جماعتوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ پاکستان
پیپلزپارٹی نے اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کامران
اختر نے جماعت اسلامی اور دیگرطالبان حامی جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ
کرتے ہوئے کہا کہ شہر کی 33 یونین کونسلوں میں طالبان موجود ہیں۔طالبان
اسلام، ملک اور انسانیت کے دشمن ہیں،الطاف حسین نے طالبان کے خطرے کا پہلے
ہی بتا دیا تھا لیکن ان کی باتوں کا مذاق اڑایا گیا۔ جب کہ صوبائی وزیر
اطلاعات شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ طالبان لاتوں کے بھوت ہیں، جو باتوں سے
نہیں مانیں گے۔ ہر وہ تنظیم جو براہ راست یا بالواسطہ طالبان کی حمایت کرتی
ہے اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ اس تناظر میں مذہبی و سیاسی رہنماﺅں سے کی گئی
مختصر بات چیت نذر قارئین ہے
حافظ حسین احمد
مرکزی رہنما جمعیت علمائے اسلام(ف)
یہ مطالبہ ناقابل فہم ہے، جن جماعتوں پر پابندی لگی ہے ان سے تو بات چیت
ہورہی ہے، جمہوری جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، مطالبہ کرنے
والے یہ بتائیں کہ یہ مطالبہ کس سے کررہے ہیں، حکومت سے یا فوج سے کررہے
ہیں۔ اس وقت ایسی باتیں بالکل نہیں کرنی چاہیے کہ فلاں فلاں پر پابندی
لگادی جائے۔ ملکی صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ سب کو یکجہتی کے ساتھ رہنا
چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ جو کہہ
رہے ہیں کہ طالبان کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ یہ بتائیں یہ غدار کس کو
کہہ رہے ہیں۔ حکومت خود طالبان سے مذاکرات کررہی ہے، کیا وہ بھی غدار ہے؟
اے پی سی میں تو تمام جماعتوں نے مذاکرات کی حمایت کی تھی، ایم کیو ایم اور
پیپلزپارٹی نے بھی مذاکرات کی حمایت کی تھی، اس طرح وہ بھی غدار ہوئیں۔
ناقابل فہم بات تو یہ ہے کہ یہ سب مطالبے میڈیا پر ہورہے ہیں، حالاں کہ
سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پی پی بھی ان
جماعتوں پر پابندی کی حمایت کررہی ہے، تو وہ بتائے کہ اس نے بھی تو طالبان
کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ حکومت طالبان کے خلاف جو آپریشن کررہی
ہے، وہ ناقابل فہم ہے، کیوں کہ اس سے کتنے لوگ بے گناہ مارے جارہے ہیں۔
ہماری حکومت فضائیہ کو استعمال کررہی ہے، بھارت کشمیر پر کب سے قابض ہے،
لیکن اس نے آج تک وہاں فضائیہ استعمال نہیں کی، لیکن ہماری حکومت فضائیہ
استعمال کررہی ہے۔ میڈیا پر کچھ نہیں بتایا جارہا کہ وہاں کون لوگ مررہے
ہیں۔ حالانکہ میڈیا پر یہ بھی بتانا چاہیے، میڈیا والے وہاں جانہیں
سکتے۔حکومت کو قوم کو غیر یقینی صورت حال سے نکالنا چاہیے، آج قوم اندھیرے
میں ہے اور غیر یقینی صورت حال میں ہے۔
اصل میں جماعتوں پر یہ مطالبے آپس کی کھینچا تانی ہے، اگر ایم کیو ایم
وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کررہی ہے تو پھر کراچی میں بھی آپریشن کا
مطالبہ کرنا چاہیے، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ متحدہ وزیرستان میں تو آپریشن
کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ کراچی میں آپریشن کی مخالفت کررہی ہے، یہاں اپنا
نقصان ہوتا ہے، اس لیے واویلا کیا جارہاہے۔ حالانکہ آپریشن تو آپریشن ہوتا
ہے، چاہے کہیں بھی ہو۔ کسی جماعت پر پابندی کا یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے،
ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے، کسی جماعت پر پابندی کے لیے ریفرنس دائر کیا
جاتا ہے اور ایک لمبا پراسس ہوتا ہے، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیز ہی
میڈیا پر ہوتی ہے، اگر کسی پر پابندی کا مطالبہ ہو تو وہ بھی میڈیا پر،
مذاکرات بھی میڈیا پر ہوتے ہیں اور گالی گلوچ بھی میڈیا پر ہوتی ہے۔ یہ سب
ہوائی باتیں ہوتی ہیں۔ آج سب کچھ ہوا و خلا میں ہورہا ہے، ایسا نہیں ہونا
چاہیے۔ سب کوسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی
(امیر جماعت اسلامی سندھ)
جماعت اسلامی اور مذہبی جماعتیں ملک میں امن کی بات کرتی ہیں۔ اگر امن کی
بات کرنا کوئی جرم ہے تو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں
بے گناہ لوگوں کا خون نہ بہے، ان کا قتل نہ ہو، ہم ملک میں مثبت قوتوں میں
ہم آہنگی پید اکرنا چاہتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ملک ترقی کرے، لیکن یہ بات
امریکی ایجنڈے پر کام کرنے والوں کو برداشت نہیں ہے، وہ لوگ پاکستان کو
امریکی قلعہ بنانا چاہتے ہیں۔ امریکی کالونی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ملک میں
اسلام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لیے ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ ہم
سمجھتے ہیں کہ صرف متحدہ ہی نہیں، اس کے ساتھ پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی
امریکی ایجنڈے پر کام کررہی ہیں۔ یہ سب ایک ہیں، یہ ملک کو آگ لگانا چاہتے
ہیں۔ ان پر امریکی ڈالر برس رہے ہیں، انہی ڈالروں کی بدولت یہ سب کچھ ہورہا
ہے، جب یہ تینوں جماعتیں ”ملة واحدہ“ ہیں تو اگر وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتی
ہیں تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
ان کے پس پردہ امریکی ڈالر ہیں، یہ امریکا کے ایجنٹ ہیں۔ الطاف حسین پر
برطانیہ میں دباﺅ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں عمران فاروق کے قاتل موجود ہیں۔
برطانیہ ان سے وہ قاتل مانگ رہا ہے، یہ ڈر رہے ہیں کہ کہیں انہیں برطانیہ
کے حوالے نہ کردیا جائے۔ کراچی میں ہونے والی تحفظ پاکستان ریلی اصل میں
تحفظ الطاف حسین ریلی تھی۔جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں پر پابندی کا یہ
مطالبہ بالکل درست نہیں ہے۔ کسی آئین و قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔ افسوس
تو اس بات پر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں دہشت گردوں کو ساتھ ملایا
جارہا ہے۔ ساری دنیا اور سارا میڈیا جانتا ہے کہ متحدہ دہشت گرد جماعت ہے۔
برطانیہ کے اداروں نے رپورٹس دی ہیں کہ متحدہ دہشت گرد ہے۔ پاکستان میں ایک
نہیں سینکڑوں بار مختلف ادارے یہ رپورٹس دے چکے ہیں کہ متحدہ دہشت گرد ہے۔
ان کے کتنے قاتل دہشت گرد میڈیا پر آکر خود اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے
سو سو قتل کیے ہیں، ساری دنیا اجمل پہاڑی اور اس طرح کے متعدد ایم کیو ایم
کے دہشت گردوں کو جانتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے اس کے باوجود اس نام نہاد دہشت
گردی کی جنگ میں اتنے بڑے دہشت گردوں کو ساتھ ملایا جارہا ہے، ان حالات میں
عوام کو بھی اور وفاقی حکومت کو بھی آنکھیں کھول لینی چاہیے۔
مولانا محمد یونس قاسمی
(ترجمان سربراہ اہلسنت والجماعت )
ہمارا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پابندی
لگانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام کارکن متشدد ہوتے جاتے ہیں، وہ کسی کے
ہاتھ میں نہیں رہتے۔ اگر کسی جماعت پر یہ الزام ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کی
حامی ہے تو قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ان سے بات ہونی چاہیے۔ایسے
مطالبوں کے پس پردہ دراصل اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔ اسلام پسند
جماعتوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ملک میں اسلام پسندوں
کو کمزور کیا جاسکے۔ آئین و قانون کسی بھی ایسی جماعت پر پابندی کی اجازت
نہیں دیتا، جو اس کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کررہی ہے۔ جماعت اسلامی پر
بھی اگر پابندی کامطالبہ کیا جارہا ہے تو وہ بھی ایک آئینی جماعت ہے اور
آئین پاکستان میں بھی اس کا بڑا کردار رہا ہے اور پاکستان میں اس کی سیاسی
سرگرمیاں آئین و قانون کے دائرے میں ہیں۔
|