قلم کار کا مقام اور ’’ اظہار مذمت برواقعہ نا خوشگوار ‘‘

قلم کار کسی بھی قوم اور ملک کیلئے اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان کے دم قدم سے اقوام شعو ری ترقی کے مدارج طے اور حاصل کرتی ہیں ۔ لکھنے والے ایک طرح سے ستون ہیں معاشرے کا معاشرہ بھی وہ جو عالمی سطح تک وسعت رکھتا ہو۔ صرف ایک ملک تک محدود و مسدود نہ ہو۔ قلم کار زندہ ہے تو تاریخ زندہ ہے ۔ تاریخی کار نامے نسلوں کو منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ ماضی کی غلطیوں اور کامیابیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے ۔ غلطیوں کے دہرانے سے بچا جاتا ہے ۔ کامیابیوں کو اپنا یا جاتا ہے ۔ اس مؤرخ کے وجود اور اس کی دانش اور منطق سے حاصل کردہ عقل و خرد سے شعوری ترقی حاصل ہوتی ہے ۔ انسان عقلی اعتبار سے بالغ اور عاقل قرار پاتا ہے ۔ قلم کار نہ ہوتا تو اقوام کی فتوحات اور شکست کے اسباب معلوم نہ ہوتے ۔ ماضی کے تلخ حقائق دوبارہ سرزد ہوجاتے ۔حال کو سنوارے اور مستقبل کے بارے میں فیصلہ سازی نہ ہو سکتی ۔ قلم کار دوسرے الفاظ میں ایک کامیاب تجزیہ کار ہے ۔ جس کے تجزیے اور تبصرے آنے والے زمانے میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں کہ اسباب دفاع کیا کرنے ہیں ۔۔۔۔؟ مستقبل میں خوش کن لمحوں کو بخل سے گزارنا ہے۔ کامیاب اسلاف کی تقلید یا جواں فکر کو بھی مشاورتی عمل میں حصہ دار بنانا ہے ۔ ۔۔۔۔۔؟ ان سب سوالوں کا مدلل جواب اقوام اور افراد کو ایک قلم کار ہی دیتا ہے ۔ ۔۔۔۔ یعنی ایک مثبت سمت کے تعین کا فریضہ سر انجام دیتا ہے ۔ جس کے بغیر منزل مقصود کا حصول صرف مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ شعوری ارتقاء اور فکری نکھا ر کے لئے جس ہستی کا وجود مرکزی حیثیت رکھتا ہے وہ قلم کار ہے ۔ زندہ اقوام اپنے قلم کار کا احترام کرتی ہیں ۔ احترام بھی انتہاء درجے کا ۔ احترام کے فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔ یہی احترام ہی تو ہے جس کے باعث اقوام عروج دوام حاصل کرتی ہیں ۔ اس عروج کو ترقی و معراج کے نام سے موسوم کرنا مناسب اور موزوں ہے ۔ قلم کار کا احترام اقوام ، افراد اور نسلوں پر کیوں فرض ہے ۔ ۔۔۔۔؟ جواب اس مختصر جواب میں ہے ۔ یہ جواب مکمل دلیل ہے ۔ دلیل بھی نا قابل تردید ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔ ایک قلم کار کا احترام اس لئے واجب ہے کہ وہ قلم سے وابستہ ہے ۔ قلم کے ساتھ رابطہ استوار رکھتا ہے ۔ قلم ہی اس کے نظریات کے استحکام کا سبب ہے ۔۔۔۔۔۔ نہیں تو یہ دلائل ، یہ نظریات یہ پیش بنیاں ، نکھرے افکار غیر مدمل ، کمزور اور غیر منطقی ، عقل و خرد سے عاری اور الجھے خیالات کی شکل میں موجود ہوتے ۔۔۔۔ ایک اہم دلیل اور وجہ یہ بھی ہے کہ جس کی وجہ سے قلم کار ( ماضی ، حال اور مستقبل کے مبصر ) کو موذٔب گر دانا جاتا ہے ۔ وہ ہے امن کے پیغمبر قلم کو نفاذ امن کیلئے سفیر مقرر کرنا اس کے مقابل بارود کی نفی کرنا ۔ بارود کا استعمال معاشرے میں انتقام کے جذبات ابھارتا ہے خواہ وہ رائج قانون کے تحت ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔؟ اس کے مقابلے میں قلم دور رس مثبت اثرات پیش کرتا ہے ۔ قلم کار ، مبصر ، دانشور ( حکیم و دانا ) اور تجزیہ کار کے علمی دلائل سے مرعوب تنگ نظر اور کافران حقیقت بزدلانہ اقدامات کے ذریعے قلم کے مبنی بر حقیقت دلائل اور ابلاغ پر قدغنیں لگانے کیلئے بارود کاا ستعمال کرتے ہیں ۔ بندوق کے زور پر اعلیٰ شعور قتل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔ کی حقیقت انھیں نا کام و نامراد ٹھہراتی ہے ۔ ان نا پاک عزائم کی تکمیل ، نا ممکن ٹھہرتی ہے ۔ قلم کا سفیر قلم کار کبھی بھی نہیں مرتا بلکہ مستقل حیات پا لیتا ہے ۔ جسمانی موت ضرور واقع ہو جاتی ہے ۔ لیکن مقدس اور اعلیٰ افکار ایک عالم کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے نسلیں فیض پاتی ہیں ۔

ایک ایسا رواج کہ جو مثبت اقدار کا دشمن ہو ۔ جس کے ذریعے منفی سر گرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہو ۔ اعلیٰ شعورکا قتل عام کیا جا رہا ہو ۔ عام کرنے سے پہلے اس کا تدارک ضروری ہے ۔ آمروں کے ادوار میں کرائے کے قاتلوں کو تیار کرنے اور بنانے والی صنعتوں میں اس متعصب نظریے کو وسیع سطح پر تیار کیا گیا ۔ جو اعلیٰ شعور اور مثبت فکر پر حملوں کا مرتکب ہے اور اس زغم میں مبتلا ہے کہ تخریبی نظام نافذ کردے گا ۔ ایک ایسا نظام کہ جو سلامتی سے متصادم ہوگا ۔

اصغر ندیم سید ایک عظیم لکھاری ہیں ۔ جنھوں نے اس سے بالاتر ہو کر کہ کون شیعہ ہے ؟ کون سنی ہے ۔۔۔۔؟ دانش تقسیم کی ۔ اصغر ندیم سید نے کبھی تعصب کو ہوا نہ دی ۔ ۔۔۔ اصغر ندیم سید نے امن پیا ر اور محبت کیلئے کام کیا ۔۔۔۔ اصغر ندیم سید فرقہ بندی ، تفرقہ بازی اور فرقہ پسندی سے دور رہ کر دانش و عقل کو نسلوں میں انجیکٹ کیا ۔۔۔ امن و سلامتی کے منشور پر عمل کیا ۔۔۔۔ فن اور عطیہ خدا وندی پر شکر کیا ۔۔۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا ء کردہ صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر نعمتوں کا شکر کیا ۔۔۔ بندوق کی بجائے قلم کے ذریعے انقلاب فکر کی کوشش کی۔۔۔ ان پر قاتلانہ حملہ قابل مذمت ہے ۔۔۔۔ !
Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.