کشمیر میں’’باوردی دہشت گردی‘‘

مقبوضہ کشمیر کی ایک عدالت نے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے بھارتی فوج کے ہاتھوں مبینہ طور ہونے والی فرضی جھڑپوں اور حراستی ہلاکتوں سے متعلق دائر کیسوں کی تحقیقات کے حوالے سے حاصل اختیارات پر فوج کے اعتراضات سامنے آنے کے بعد 21معاملات میں کمیشن کی تحقیقات پر حکم امتناعی جاری کردیا ہے جس کے بعد حقو ق انسانی کمیشن نے بھی ان معاملات میں اپنی کارروائی روک دی ہے۔ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے قائم مقام چیئرمین رفیق فدا اور ممبر املوک سنگھ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے محمد احسن اونتو کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر کارروائی روکنے کا فیصلہ صادر کیا ہے تاکہ عدالت میں فوج کی درخواست پر فیصلہ آنے کا انتظار کیا جائے۔احسن اونتونے حقوق انسانی کمیشن کے سامنے فرضی جھڑپوں اور حراستی ہلاکتوں کے کئی معاملات کے حوالے سے پٹیشن دائر کر رکھی ہے جس پر کمیشن نے فوج کے نام نوٹس جاری کیا تھاجس پر بھارتی فوج کی جانب سے 24جنوری2013کو پیش کئے گئے اعتراضات کے جواب میں ریاستی کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کر دیا گیاہے۔فوج نے بشری حقوق ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے پاس فوج سے متعلق شکایات کی سماعت کیلئے اختیارحاصل نہیں ہے ۔ حقوق انسانی کمیشن کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کو معاملے سے متعلق مزید وضاحت کرنے کیلئے کمیشن کے پاس اپنا قانونی صلاح کار بھیجنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ اس حوالے سے جو نصف درجن کیس کمیشن کے پاس زیر التوا ہیں‘ پر بحث ہو سکے۔اس سلسلے میں مرکزی دفاعی سیکرٹری کو بھی آگاہ کیا گیاہے کہ وہ قانونی صلاح کار کو کمیشن کی روبرو پیش ہونے کی ہدایت دے تاکہ کمیشن کے پاس فوج اوربھارتی حکومت کے زیر اثر دیگر آرمڈ فورسز کی کا اختیارات سے متعلق بحث کی جائے تاہم کئی بار مطلع کرنے کے بعد بھی مرکز سے کوئی بھی مثبت جواب میں نہیں ملا۔ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے قائمقام چیرمین رفیق حسین فدا کے مطابق کمیشن کے روبرو کسی قانونی صلاح کار کو ان نقاط پر بحث کرنے کی بجائے وزارت دفاع نے ریاستی ہائی کورٹ کے پاس رجوع کیا جہاں ایک بار پھر یہ بات دہرائی گئی کہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی حدود میں نہیں ہے کہ وہ مرکزی فورسز اور فوج کے خلاف شکایات کی تحقیقات کر سکے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک اور کشمیری نوجوان کو عسکریت پسند قرار دیکر شہید کر دیا جس پر ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں نے سڑکوں پر نکل کر زبردست احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ اس دوران بھارتی فوج اور کشمیریوں کے مابین پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔مذکورہ کشمیری کے پلوامہ کے رہائشی ہونے کی افواہ پر پورے علاقہ میں مکمل ہڑتال کی گئی اور احتجاجی مظاہروں و بھارتی فورسز پر پتھراؤ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔بھارتی فوج کے تشدد سے متعدد کشمیری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سوپور میں لاپتہ ٹرک ڈرائیور بازیاب نہ ہونے پر سخت احتجاج کیا گیا ہے۔کرگل میں ہزاروں کشمیریوں نے نئی انتظامی اکائیوں میں نظر انداز کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے کنٹرول لائن سے متصل علاقہ میں احتجا ج کیا ہے۔ نئی دہلی میں بھارتی وزیر مملکت برائے امور داخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ جموں کشمیر میں سکیورٹی فورسز پر کشمیری مجاہدین کے حملوں میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے اور 2013ء میں 2012ء کی نسبت کئی گنا زیادہ بھارتی فوج مارے گئے ہیں جبکہ جموں کشمیر حکومت نے کہا ہے کہ ریاستی جیلوں میں 140غیر ملکی قید ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بڈگام کے علاقہ چرار شریف سے آٹھ کلومیٹر دور ڈھلون نامی علاقہ میں سنٹرل ریزرو پولیس نے سرچ آپریشن کے لئے محاصرہ کیا اور ایک موٹر سائیکل سوار کو رکنے کا اشارہ کیا اور پھر موٹر سائیکل بروقت نہ روکنے کا دعویٰ کرتے ہوئے فائرنگ کر کے ایک نوجوان کو شہید کر دیا جبکہ دیگر دو افراد اپنی جان بچاکر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ بھارتی فوج کی اس دہشت گردی پر کشمیریوں میں شدید اشعال پھیل گیا اور انہوں نے فورسز کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے جس پر بھارتی فوج نے مزید نفری منگوا کر تعینات کر دی ہے۔ احتجاجی مظاہرین کا کہنا ہے کہ شہید کشمیری نوجوان کا کسی عسکریت پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ ایک عام کشمیری تھا ۔ بھارتی فوج کی طرف سے اسے شہید کرنا محض ترقیاں حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپیں رچانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔شہید نوجوان کا چہرہ مسخ کیا گیاہے جس کی وجہ سے اسکی شناخت کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ احتجاج کے دوران پولیس اور فوج نے مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کی تولوگ مشتعل ہوگئے جس کے نتیجے میں حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔ مظاہرین کو تتر بتر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے گئے اور ہوا میں گولیوں کے کئی راؤنڈ بھی فائر کئے گئے جس کے نتیجے میں پورے علاقہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ نئی دہلی میں راجیہ سبھا کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر مملکت برائے امور داخلہ آر پی این سنگھ نے ایک تحریری جواب میں کہاہے کہ 2013میں 53فورسز اہلکار مارے گئے جبکہ 2012میں یہ تعداد صرف15تھی۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران ریاست میں نہ صرف تشدد کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور اس دوران سیکورٹی فورسز پر ٹارگٹ حملوں میں زبردست اضافہ ہواہے۔ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ حکومت نے کہا ہے جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں 140غیر ملکی افرادقید ہیں ۔ جو افراد ریاستی جیلوں میں قید ہیں ان میں سینٹرل جیل کوٹ بھلوال جموں میں22، سینٹرل جیل سرینگر میں29، ڈسٹرکٹ جیل جموں میں54، ڈسٹرکٹ جیل کٹھوعہ میں6، ڈسٹرکٹ جیل پونچھ میں 4، ڈسٹرکٹ جیل راجوری میں4، ڈسٹرکٹ جیل بارمولہ میں2،ڈسٹرکٹ جیل لیہہ میں9، ڈسٹرکٹ جیل کپواڑہ میں2اور سب جیل ہیرانگر میں 8غیر ملکی شہری موجود ہیں۔ریاستی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ملک کی مختلف جیلوں میں ریاست جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک بھی شخص بیرون ریاست جرائم میں ملوث نہیں پایاگیا ہے اور نہ ہی کسی کونظربندکرکے رکھاگیاہے۔ نئی انتظامی اکائیوں کے قیام کے مطالبے کے حوالہ سے جاری احتجاجی لہر نے اب لائین آف کنٹرول کے متصل علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ لائین آف کنٹرول پر واقع علاقہ چانی گنڈ کے ہزاروں لوگوں نے کرگل دراس شاہراہ پر دھرنا دیا اور سخت احتجاج کیا۔چانی گنڈ ،کاکہ سر ،بدگم ،کرکٹ چھو اور لٹو دیہات کے لوگوں نے نعرہ بازی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ سرکار نے اس علاقہ کو نظر انداز کیا ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبے پر سرکار نے غور نہیں کیا تو وہ اس سلسلے میں ایک منظم احتجاجی مہم چلائے گی۔ادھر لائین آف کنٹرول پر واقعہ ٹاڑ اور گھبرا علاقے کے لوگ بھی سی ڈی بلاک کا مطالبہ کرتے ہوئے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کے دوران فورسز پر پتھراؤ کے الزام میں 9166کشمیریوں کو ملوث قرار دیا گیا اور اس حوالہ سے مختلف پولیس تھانوں1733مقدمات درج کئے گئے ہیں۔بھارتی فورسز پر پتھراؤ میں سری نگر کو پہلے نمبر پر قرار دیا جارہا ہے۔ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ کی جانب سے 2010ء میں جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کے دوران ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ کے تحت بھارتی فوج پر پتھراؤ میں مبینہ طور پر ملوث نوجوانوں کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھاتاہم ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں اپوزیشن لیڈر محبوبہ مفتی کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ نے بتایا کہ 2009سے لیکر31جنوری 2014تک سرینگر میں سنگ باری، تشدد بھڑکانے میں نوجوانوں کے خلاف 738مقدمات درج کئے گئے جن میں 3175افراد ملوث پائے گئے ہیں۔ اسی عرصہ کے دوران بارہمولہ میں درج کئے گئے 256 مقدمات میں867افراد ملوث پائے گئے ہیں۔ اننت ناگ میں191مقدمات درج ہوئے جن میں 940 نوجوان ملوث ہیں۔ ضلع کولگام میں 87مقدمات پولیس نے درج کئے جن میں751نوجوانوں اور افراد کے نام شامل ہیں۔ ضلع پلوامہ، کپواڑہ می، شوپیاں ، گاندر بل،بانڈی پورہ اور دیگر علاقوں میں بھی ہزاروں کشمیریوں پر مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.