پاکستان میں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں
کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اس بے پناہ قدرتی حسن کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر
کے سیاحوں کیلئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے تفریحی مقامات سوات، کالام،
مالم جبہ، کاغان، ناران، شوگران، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، مری، ہنزہ، کالاش اور
آزاد کشمیر اپنی خوبیوں اور خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت کے حامل
ہیں۔ یہاں کے خوبصورت مناظر دیکھنے والوں پر ایک سحر طاری کر دیتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں جس جگہ نے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے وہ وادیٔ کونش
یا کونش ویلی کہلاتی ہے۔ کونش ویلی پاکستان کی ایک خوبصورت ترین وادی ہے جو
اپنے دلفریب اور دل موہ لینے والے مناظر، روح پرور آب و ہَوا، بلند و بالا
فلک بوس سفید لباس اوڑھے کوہسار، دیدہ زیب اور دل کشا مرغزاروں، جنگلات،
جاذبِ نظر آبشاروں، حد درجہ خوبصورت، پُراسرار اور طلسماتی نیلگوں جھیلوں
کے باعث جنتِ اَؔؔرضی کا درجہ رکھتی ہے۔یہ ضلع مانسہرہ بلکہ ہزارہ ڈویڑن کی
خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک ہے جو پاک چین دوستی کے تعاون سے تعمیر
ہونے والی سلک روٹ (شاہراہ قراقرم) کے دونوں جانب واقع ہے۔یہ بین الاقوامی
شاہراہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے شروع ہو تی ہے اور ہنزہ، گلگت،
چلاس، داسو، بشام، بٹ گرام اور پھر وادیٔ کونش سے ہوتی ہوئی مانسہرہ، ایبٹ
آباد، ہری پور سے ہو کر حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے جا ملتی ہے۔
حدودِ اربعہ کے لحاظ سے وادیٔ کونش کے مشرق میں درہ بھوگڑمنگ واقع ہے جس
میں دھڑیال، سُم، ڈاڈر، جبوڑی، نواز آباد، سچہ کلاں جیسے مضافات ہیں جبکہ
مغرب میں وادیٔ اگرور کے مشہور و معروف گاؤں کھبل، شمدھڑہ، اوگی، دلبوڑی،
شرگڑھ اور تربیلا واقع ہیں۔ شمال مغرب میں کوزہ بانڈہ کے چھوٹے مضافات اور
بستیاں واقع ہیں جبکہ جنوب میں مانسہرہ شہر، ہزارہ یونیورسٹی، عطر شیشہ کا
وسیع و عریض علاقہ اپنے قدرتی مناظر کو سموئے ہوئے ہے۔شاہراہ قراقرم کی
تعمیر و توسیع نے وادیٔ کونش کی خوبصورتی اور قدرتی حسن کو نکھارنے میں
ریڑھ کی ہڈی جیسا کردار ادا کیا ہے۔ مانسہرہ کی طرف سے یہ بین الاقوامی
شاہراہ جب وادیٔ کونش میں داخل ہوتی ہے تو سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی
شنکیاری سے نکل کر کوٹلی بالا، اہل، بٹل اور چھترپلین کے وسیع و عریض میدان
میں قدم رنج ہوتی ہے۔ اس خوبصورت وادی کا ہیڈ کوارٹر بٹل ہے جو مانسہرہ سے
34.35ڈگری شمال اور 73.75ڈگری مشرق میں قراقرم ہائی وے پر واقع ہے۔ بٹل
پہاڑوں کی گود میں واقع تاریخی حیثیت کا حامل ایک خوبصورت شہر ہے۔ بٹل سے
بذریعہ سڑک پانچ منٹ کی مسافت پر وادیٔ کونش کا ایک اور دلکش اور صحت افزاء
مقام چھترپلین آتا ہے جہاں گلگت، چین اور شمالی علاقہ جات جانے والے غیر
ملکی سیاح اپنی آنکھوں کو قدرت کے ان انمول مناظر کو سمو کر جاتے ہیں۔
سیاحوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے چھترپلین میں قیام و طعام کیلئے نہ صرف
ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز بن رہے ہیں بلکہ بہت سے لوگ اپنے بزنس کو بڑھاوا دینے
کیلئے اس علاقے میں خصوصی دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ یہ علاقہ شہد، مرغ اور
مچھلی فارمنگ کیلئے بھی موزوں ہے۔ کسی بھی مقام کا جغرافیائی محل وقوع بہت
اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے وادیٔ کونش کی خوش قسمتی ہے کہ
اس کے ارد گرد میں ہر علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ جہاں تک نظر دوڑائی
جائے قدرتی مناظر کا ایک دلکش سلسلہ جا بجا پھیلا دکھائی دیتا ہے، بالخصوص
موسم بہار میں ان قدرتی مناظر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ موسم
گرما میں بھی یہاں رات کا آخری پہر سرد ہوتا ہے حتیٰ کہ لحاف یا کمبل میں
بھی ٹھنڈ لگتی ہے۔ ایک طرف موسیٰ کا مصلیّٰ اپنے جلوے دکھا کر باہمت سیاحوں
کو اپنی چٹانوں پر آنے کی دعوت دیتا ہے تو دوسری جانب سوات اور کاغان کے
درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وادیٔ کونش کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
پہاڑ، جنگلات اور خوبصورت بل کھاتے ندی نالے اس وادی کے حسن کو دوبالا کرتے
ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان گھری اس حسین و جمیل وادی کے ہیڈ کوارٹر بٹل سے شفاف
پانی کا ایک خوبصورت دریا گزر کر جاتا ہے جسے مقامی لوگ دریائے کونش، بٹ
کَس اور کٹھا کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ یہ دریا اس وادی کی خوبصورتی کو مزید
دلکش بنا دیتا ہے اور وہاں سے گزرنے والے ہر راہ گیر کو اپنے خوبصورتی کے
سحر میں جکڑ دیتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے خوبصورت ممالک میں ہوتا ہے۔
اس کی خوبصورت وادیاں، خوبصورت مناظر، سرسبز و شاداب پہاڑ، بہتے دریا اور
یہاں کا ثقافتی ورثہ اپنے اندر کئی خوبیاں اور خوبصورتی لئے ہوئے ہے۔ حکومت
کو چاہئے کہ دوسرے سیاحتی مقامات کی طرح وادیٔ کونش کو بھی دنیا بھر کے
سیاحوں میں متعارف کرانے کیلئے کلیدی کردار ادا کرے۔ اس سے نہ صرف سیاحت کی
دنیا میں اس علاقے کی اہمیت بڑھے گی بلکہ اس سے ملکی معیشت بھی ترقی کرے گی
اور مقامی لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع بھی میسر آ سکیں گے۔ |