بٹ صاحب میرے صحافی دوست ہونے کے
ساتھ ساتھ میرے سینئر بھی ہیں اکثر وہ سیاست دانوں کی مزاح سے بھر پور گپیں
سناتے ہیں میں اور میرے صحافی دوست ان کی باتوں کو بڑے شوق سے سنتے ہیں
کیونکہ ان میں کسی نہ کسی معاشرتی مسئلے پر مزاح کے انداز میں تنقید ہوتی
ہے جب بھی کہیں چار صحافی حضرات اکھٹے ہوں اور وہاں بٹ صاحب بھی ہوں تو ہم
ایک کہانی ان سے اصرار کر کے سنتے ہیں جس میں وہ کسی وزیر کا ذکر کرتے ہیں
جو ان پڑھ ہونے کی وجہ سے پروٹوکول سے ناآشناء تھے جب ان کو وزارت ملی تو
ان کے سیکرٹری نے کہا کہ سر آپ کی آج فلاں جگہ میٹنگ ہے آپ کو پروٹوکول
چاہیے صاحب کی بلا جانے کے پروٹوکول کیا ہوتا ہے فرمانے لگے نہیں رہنے دو
جب چلنے کا وقت آیا تو سیکرٹری نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور گاڑی چلنے لگی
تو وزیر موصوف فرمانے لگے کہ وہ ٹوٹرئے (پروٹوکول )والی گاڑیاں کہاں ہیں جس
پر سیکرٹری نے بتایا کہ سر آپ نے خود ہی تو منع کیا تھا کے پروٹوکول نہیں
لینا صا حب فرمانے لگے کہ مجھے بتاتے نا کہ ٹوٹر والی گاڑیوں کو پروٹوکول
کہتے ہیں اس سے تو وزیر کی پہچان ہوتی ہے ورنہ تو گاڑیاں سب کے پاس ہوتی
ہیں قصہ مختصر کے ٹوٹرے والی گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں وہ وزیر صاحب کا
قافلہ روانہ ہوتا ہے بٹ صاحب کی یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے جو آپ کو بھی
سنا دی آج میری تحریر کا موضوع یہی پروٹوکول ہے آپ یوں سمجھ لیجیے کہ عام
شہری اور عوامی نمائندوں کے درمیان ایک آہنی دیوار کا نام پروٹوکول ہے
پروٹوکول کو جو بھی نام دیں اور اس کی جتنی بھی وضاحتیں کریں وہ اپنی جگہ
لیکن اس کا سیدھا سا مطلب عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلہ رکھنا اب
پروٹوکول سیکورٹی سے زیادہ دکھاوئے اوربرتری کے احساس کا نام بنتا جا رہا
ہے اس کا دوسرا مطلب عام شہری کو حقیر سمجھنا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے
پہلے پہل حکمران پروٹوکول پر اتنی توجہ نہیں دیتے تھے پروٹوکول سن دو ہزار
کے بعد عام ہوا پروٹوکول نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے کے پورے حکمران اور
اشرفیہ طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اب تو جس وزیر کے ساتھ پروٹوکول نہ ہو
لوگ اس کو وزیر ہی نہیں سمجھتے اگر چہ وہ چینخ چینخ کر کہہ رہا ہو کہ وہ
وزیر ہے یہاں المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے
بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف با اثر حکمران طبقہ اپنے
رْعب اور دب دبے کے لئے پروٹوکول کے نام پر ہزاروں محافظوں اور درجنوں
گاڑیاں لئے گھوم رہا ہوتے ہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاست دان
خود کو عوامی نمائندہ اور خادم تو کہلواتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد اْن
کا رویہ اس کے برعکس ہوتاہے یہ درست ہے کہ موجودہ حالات میں بعض شخصیات کے
لئے سیکورٹی بہت ضروری ہے ان شخصیات کے دشمن بھی اتنے ہی طاقتور اور خطر
ناک ہیں کہ اْنہیں ختم کر سکتے ہیں اسی طرح بعض شخصیات ایسی بھی ہیں کہ ان
پر حملے سے نہ صرف ملکی نظام کو دھچکا لگ سکتاہے بلکہ ملک میں انتشار بھی
پھیل سکتا ہے مثال کے طور پر کسی بھی ملک آرمی چیف ، وزیراعظم اور صدر
انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اْنہیں نقصان پہنچنے کی صورت میں ملک دشمن
عناصر کے حوصلے مزید بڑھ جاتے ہیں میں ملک کی اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے
انتظامات کی مخالفت نہیں کر تا کیونکہ پا کستان میں چند سال قبل محترمہ بے
نظیر بھٹو پرہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والے عوامی فسادات کا
مظاہر دیکھ چکا ہوں جلاوگھیراوکی جو کیفیت ان دنوں نظر آئی اْس نے نہ صرف
پاکستانی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ لاکھوں لوگوں کو جمع پونجی بھی
لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بن گئی لیکن دوسری طرف جب اہم شخصیات کی حفاظت کے
نام پر پروٹوکول کو دیکھتاہوں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حفاظت کم اور
دکھاوا زیادہ ہے۔ پروٹوکول کے نام پر محافظوں کی درجنوں گاڑیاں لے کر
گھنٹوں راستے بند رکھنا اور شہر بھر کی پولیس کو سڑکوں پر کھڑا کر دینا محض
اپنی انا کے غبار ے میں ہوا بھرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس سے جہاں یہ ظاہر کیا
جاتاہے کہ یہ شخصیات عوام سے کہیں بالاتر ہیں ‘ وہیں عام شہری کی توہین بھی
کی جاتی ہے۔ راستے بند کر کے شہر بھر کو جام کر دیا جاتا ہے بوڑھے افراد
اور مریض سڑکوں پر دم توڑ رہے ہوتے ہیں اس دوران ٹریفک میں پھنسی ہوئی
ایمبو لینسس کے سائرنوں سے یوں لگتا ہے کہ غریب عوام کو چلا چلا کر کہہ رہے
ہوں کہ خدا کے لئے اپنے حقوق کو پہچانو جبکہ دوسری طرف پورے شہر کا ٹریفک
نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ وہ پولیس جو عوام کی حفاظت کے لئے ہونی چاہیے‘
پروٹوکول کے نام پر وی آئی پیز کے راستے پر پتلوں کی طرح گھنٹوں کے لئے
کھڑی کر دی جاتی ہے اب تو امیر لوگوں میں یہ جنگ بھی چھڑ چکی ہے کہ کس کے
پروٹوکول میں کتنی سائرن والی گاڑیاں ہیں اور کس کے کتنے محافظ ہیں۔ عوامی
پیسوں کا جتنا ضیاع پروٹوکول کے نام پر ہوتا ہے، شاید کسی اور مد میں ہو
پروٹوکول کلچر ختم کر دیا جائے تو یہی ہزاروں اہلکار جرائم کے خاتمے کا
باعث بن سکتے ہیں دوسری جانب ہمارے ہاں ایک اور بری روایت یہ ہے کہ ہمارے
سیاست دان اپوزیشن میں ہوں اور اسمبلیوں کا حصہ نہ ہوں تو وہ اپنی ہر دوسری
تقریر میں حکومتی پورٹوکول کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں جلسوں اور ریلیوں میں
بغیر محافظ گھومتے پھرتے ہیں اْس وقت اْنہیں نہ تو پروٹوکول کی ضرورت ہوتی
ہے اور نہ ہی اْن کے لئے کسی قسم کی رہائش یا محافظ کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔
اْن دنوں یہی لیڈر حکومت میں آکر پروٹوکول ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں لیکن
حکومت میں ہوں تو اپنے سابقہ دعوے بھول جاتے ہیں۔ پھر ہمیں یہی سیاست دان
اپنی اْن سرکاری رہائش گاہوں میں نظر آتے ہیں جنہیں وہ یونیورسٹی میں تبدیل
کرنے کے نعرے لگایا کرتے تھے اور اْسی پروٹوکول کے ساتھ سفر کرتے ملتے ہیں
جسے ختم کرانے کے لئے تقاریر کیا کرتے ہیں یہ ہے ہماری سیاست کا دوغلا چہرہ
جسے عوام نہیں پہچان سکتے عوام کو دلفریب نعروں سے متاثر کر نے کا سلسلہ
ماضی میں بھی نظر آتا تھا اور اب بھی نظر آتا ہے۔ وزیراعظم ‘ صدر ‘ آرمی
چیف اور عدلیہ تواپنی جگہ لیکن اْن کے بعد وزیروں ‘ مشیروں اور پھر بھاری
پارٹی فنڈ دینے والے معاون تک اپنی اپنی سطح پر پروٹوکول کے مزے لوٹتے ہیں
اسی طرح اب اولاد اور خاندان کے دیگر افراد کے بھی وی وی آئی پی پروٹوکول
دلوانے کی رسم چل نکلی ہے۔ اْن کا پروٹوکول رکھ کر دنیادنگ رہ جاتی ہے
قانون سازی کا حق بھی اْنہیں ہی حاصل ہے جو اس پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مقدس پارلیمنٹ میں ایسا کوئی بل منطور ہی نہیں ہوتا اگر کوئی
قرار داد پیش کی جائے تو وہ بھی حکومت کی جانب سے نہیں آئی بلکہ اپوزیشن کی
جانب سے آتی ہے جسے بعد میں متفقہ طور پر مل کر رد کر دیا جاتا ہے ضرورت اس
امر کی ہے کہ قوم کا جو پیسہ پروٹوکول کے نام پر ضائع کیا جا رہا ہے ، اْسے
محفوظ کیا جائے ہمارے ہاں پروٹوکول کے نام پر جتنی فورس مخصوس ہے، یہ فورس
شہر میں گشت شروع کر دے تو سٹریٹ کرائم ممکن ہی نہیں رہیں گے جرائم پیشہ
افراد کی بروقت گرفتاری ممکن ہو گی اور کئی وارداتیں ختم ہو جائیں گی اس
طرح پولیس خصوصا تربیت یا فتہ ایلیٹ فورس نجی سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی انجام
دینے کی بجائے عوام کی حفاظت کیلئے مخصوص ہو تو ملک سے بدامنی اور
لاقانونیت کا خاتمہ ممکن ہو گا ۔ |