یہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ نصف
صدی سے زیادہ کا قصہ ہے، سمجھ نہیں آ رہی کروں تو کہاں سے شروع کروں۔میرے
وطن عزیز کے لوگوں کی حالت نہ آمریت اور نہ جمہوریت بدل سکی، بلکہ اس گورکھ
دھندے نے کچھ خاندانوں کو ضرورت سے زیادہ امیر کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک اٹل
حقیقت ہے کہ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنا
نہیں چاہتی۔ ہمیں بھی اپنا رویہ بدلنا ہو گا، کبھی ہم روٹی کپڑا اور مکان
کا نعرہ لگانے والے کو اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں اور کبھی شریعت کے لالی
پاپ کے سہارے گیارہ سال گذارنے والے آمر کو، اور پھر اسی آمر کی آغوش سے
سیاست سیکھ کر آنے والے اور قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگانے والے کو ہم
نے مسیحا سمجھ لیا، اسکے بعد احتساب کا نعرہ لگانے والے کو اپنا نجات دہندہ
سمجھ کر ، مٹھائیاں تقسیم کر کے اسکا استقبال کیا لیکن قوم اس سے بھی مایوس
ہوئی اور قوم نے سوچا کہ چلو یہ سب تو ٹھرے دنیادار اس بار مذہب کے نام
نہہاد ٹھیکداروں کو آذمتے ہیں یہ بھی ڈیزل کے پرمٹ اور ذمینوں کی بندربانٹ
تک ہی محدود رہے اور عام لوگوں کی حالت ویسی ہی رہی، ان تمام لیڈروں سے
میرا صرف ایک سوال ہے، کہ نہ ادھر ادھر کی تو بات کر مجھے یہ بتلا کہ قافلہ
کیوں لٹا ، مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔ تاریخ پاکستان
کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میری قوم سیاستدانوں،
آمروں، مولویوں اور پیروں کی ڈسی ہوئی ہے الاء ماشاءاللہ۔ سیاستدان نے
سماعتوں کو لبھانے والے نعرے لگا کر لوٹا اور اپنے کاروبار دنیا میں
پھیلائے ، نام نہاد ملاں و پیروں نے مذہب کی آڑ میں دھندہ کیا۔ آپ مخدوموں
کو دیکھ لیں ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں ہر جیتنے والے کے ساتھ ہوتے
ہیں۔میرے وطن کی معیشت کا حال یہ ہے کے اسکے تمام بڑے اثاثے سیل پر لگے ہیں
تو دوسری طرف میرے حکمرانوں کے اثاثے پانچ برآعظموں میں پھیلے ہیں اور دن
دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور حوس ء زر ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ مجھے
اس بات پہ گلہ ضرور ہے کہ آپ حکومت تو پاکستان پر فرماتے ہیں اور کاروبار و
اثاثے پاکستان سے باہر ہیں لیکن اسکے باوجود میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
آپ جہاں چاہو کاروبار کرو لیکن خدارا اس مللک کے حال پر رہم کرو اور اسکے
اثاثے نجکاری کے نام پر حسب منشاء خود نہ خریدو۔ آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا
ہوں کہ ہم میں بھی فنی خرابی ہے، جو باربار ڈسے جانے کے باوجود بھی انھی
لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔ لیکن ایک اور بات ہے اگر ہم ووٹ نہ بھی دیں تو یہ
٣٥ پنکچر لگوا کر آ جاتے ہیں، اب کہیں نجم سیٹھی صاحب ایک کروڑکا مجھے بھی
نوٹس نہ بجھوا دیں۔ ہر سیاسی پارٹی عوام کی خدمت کے لیے اقتدار میں آتی ہے
پر عوام کی حالت بد سے بدتر ہو جاتی ہے، خدمت کا ڈھونگ ہے کیونکہ خدمت کے
لیے ایک باری کافی ہوتی ہے۔ یہ باربار آنا خدمت کے نہیں اپنے کاروبار و
اثاثوں کی بٹرھوتری اورتحفظ کے لیےہے اور یہ انکی ضرورت ہے۔ |