گذشتہ دنوں طالبان کی جانب سے سے 23ایف سی اہلکاروں کے
قتل کے بعد حکومت نے طالبان کے خلاف غیر اعلانیہ آپریشن شروع کیا جس میں
پاک فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا اور متعدد دہشت گردوں کے ٹھکانوں
پر حملوں کے نتیجہ طالبان کمانڈروں سمیت کئی مطلوب دہشت گرد مارے گئے ۔یہ
فضائی حملے ایک ایسے وقت میں بھی شروع ہوئے جب طالبان اور حکومتی کمیٹیوں
کے درمیان مذاکرات صرف اس وجہ سے تعطل کا شکار ہوئے کہ طالبان نے مذاکرات
کے ساتھ ساتھ دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔
طالبان کے خلاف آپریشن شروع ہونے سے وطن عزیز نئی مشکلات میں گھر گیا اور
سیکورٹی اداروں کو ہائی الرٹ کردیا گیا، جبکہ صوبائی اور وفاقی تمام اداروں
کے گردونواح میں سیکورٹی کے انتظامات سخت کردیئے گئے ۔اسی طرح حیدرآباد کی
مختلف شاہرایوں جن میں سی ایم ایچ روڈ جو کہ کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے وہاں
فوجیوں کو ڈیوٹی پر معمور کردیا گیا جبکہ ایس ایس پی آفس،ڈی سی ہاؤس‘پریس
کلب ‘ریڈیو پاکستان اور جی پی او آفس آنے جانے والے راستوں میں رکاوٹیں
کھڑی کرکے ہیوی ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا ۔ شہر میں جگہ جگہ اسنیپ چیکنگ
بھی شروع کردی گئی ۔
دوسری جانب شہرمیں کئی ایک مقامات پر سیکورٹی کے نام پر زمینوں پر قبضہ کا
بھی سلسلہ ہوچکا ہے ۔گذشتہ ہفتے سینٹرل جیل انتظامیہ کی جانب سے جیل سے
ملحقہ بلدیہ کی 9ایکڑ300گھونٹے کی وسیع اراضی پر قبضہ کرلیا گیا ۔جس سے
بلدیہ بس ٹرمینل سے وابستہ ہزاروں لوگوں بے روذ گار ہو گئے جبکہ ٹرانسپورٹ
برادری کی بری طرح اس سے متاثر ہوئی جس کے خلاف احتجاج کا سللسہ شروع ہوگیا
۔ جیل سپرنڈنٹ پیر شبیر جان سرھندی بلدیہ ٹرمینل پہنچے جہاں ان کے ساتھ
پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔جہاں پیر شبیر جان سرھندی نے اپنی
وردی کا پاور استمال کرتے ہوئے وہاں موجود تمام ڈرائیوروں کا بس ٹرمینل
خالی کرنا کو کہاگیا۔مگر ٹرانسپورٹروں کی جانب سے مسلسل انکار کے بعد جیل
سپرنٹنڈنٹ نے اپنی پولیس پارٹی کے ذریعے زبردستی ڈرائیوروں کوٹرمینل سے
نکال باہر کیا اور وہاں موجود تمام ہوٹل‘پان کی کیبن ‘پتھارے کو اسٹینڈ سے
نکال کر روڈ پر پھنیک دیا گیا جبکہ گاڑیوں کو پولیس اہلکاروں نے خود باہر
نکال۔ا جس کے بعد وہ موجود ڈرائیوروں اور دیگر افراد کی جانب سے احتجاج بھی
کیا گیا مگربلدیہ تھانے کی پولیس نے اپنے سینئر کو جواب دینے کے بجائے
ڈرائیور اور ملازمین کو زود کوب کیا اور ان کو دھمکیاں دی گئیں۔جبکہ جس کے
بعد پیر شبیر جان سرھندی کی ہدایت پر ایک کرین کے ذریعے ٹرمینل کے انٹری
گیٹ کر بڑی بڑی خندقیں کھود دی گئیں اور ٹرمینل کے اندر رہ جانے والی
گاڑیوں کو اگلے روز بلدیہ تھانے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔بلدیہ کی
اس زمین پر کچھ عرصے پہلے بکرا پڑی بھی لگائی جاتی تھی اوراس پر جیل
انتظامیہ نے پرسچن پراپرٹی کا بورڈ لگا کر چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی
تھیں۔بکراعید کے دنوں میں لگائی جانے والی پڑی کے دس دن کے کرائے سے بلدیہ
کا پورا سال اپنے اخراجات پورے کیا کرتا تھا ۔ملازمین کی تنخواہیں ہوں یا
پینشن ‘اسٹریٹ لائٹ کا بل ہو یا یہ سب اخراجات اسی عارضی پٹڑی سے پورے ہوتے
ہیں ۔اب اس زمین پر جیل انتظامیہ کے قبضے کے بعد اب بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد
ایک بار پھر مشکلات و پریشانی کا شکار ہے ۔ شہر پر بات شروع ہوئی تو بات
بہت لمبی ہوجائیں گی شہر کی خدستہ صورتحال کے بارے میں اپنے آنے والے
آرٹیکل میں بتاؤگا۔ بات کرینگے بس ٹرمینل کی زمین کا جہاں جیل انتظامیہ نے
قبضہ کرلیا اورچارو ں طرف سے بس ٹرمینل کو بند کردیاہے ۔ یہ بات قابل ذکر
ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب بلدیہ کی آدھی زمین پر قبضہ ہوا تب بھی جیل سپرنٹڈنٹ
پیر شبیر جان سرھندی اور ایس ایس پی حیدرآباد پیر فرید جان سرھندی تھے اور
اب بھی یہ دونوں پولیس کے افسران ہے ۔حیدرآباد کے شہریوں سے ایک اور سہولت
چھین لی گئی ۔ابھی ایک زخم بھرا نہیں تھا کہ ۔سیکورٹی کے نام پر سیکورٹی
اداروں کی جانب سے قاسم چوک سہیل بس اسٹینڈ کو بھی خالی کروالیا گیا۔اور
وہاں موجو د عملے اور دکانداروں کو نکال باہر کیا گیا ہے۔
ٹرانسپوٹروں کے احتجاج اور پریس کانفرنس میں بار بار کہا گیا ہے کہ حکومت
سندھ ‘گورنر‘وزیراعظم اور صدرمملکت براہ کرام بس ٹرمینل پر ممکنہ قبضے کی
خبر کا نوٹس لے ۔ شہریوں کو ذہنی عذاب سے نجات دلائی جائے ۔مگر افسوس صد فی
صد افسوس ایوانوں میں موجود ہمار ے موجود منتخب کردہ نمائندوں کے پاس اپنے
ہی عوام کیلئے ٹائم نہیں۔اور یہ بات باعث تشویش ہے کہ اب تک اتنا کچھ ہو
جانے کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اس واقعہ کے خلاف نہ تو
اسمبلی اور نہ ہی کوئی پریس کانفرنس مذمتی بیان سامنے آیا ۔مگر حسب سابق
اپنے شہریوں کو تسلی دینے کیلئے علاقائی بنیاد پر ایوان صنعت و تجارت سیٹھ
گوہر اﷲ ‘جماعت اسلامی کے شیخ شوکت علی اور متحدہ زونل آفس سے مذمتی بیان
سامنے آئے اور پیر شبیر جان سرھندی کے اس اقدام کو کافی تنقید کا نشانہ
بنایا گیا۔اوریہ بیان روزانہ کی بنیاد پر شائع ہورہے ہیں۔کیا یہ نچلی سطح
کے بیانات کافی ہے ۔
اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اس
واقعہ کا نوٹس نہ لینا اوراسمبلی میں ایک مذمتی قرار داد پیش نہ کرنا ۔کیا
وجہ ہے کہ آخرکیوں حکومت اس ٹرمینل کے معاملے میں خاموش رہی ۔حکومت کی ذرا
سی عدم دلچسپی کے باعث ہزاروں افراد بے روز گار ہوگئے اور حکومت کی کان تک
جوں نہ رینگی۔حکومت کے اس رویہ کے بعد عوام میں اعلیٰ احکام کے خلاف شدید
غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے ۔
کیا اس طرح کے اقدامات کرنے سے دہشت گردی کو روکنے میں ملے گی یا حسب سابق
شہریوں کو اندھیرے میں رکھا جائے گا۔کیا ہمارے ملک کے سیکورٹی ادارے اتنے
کمزور ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی غیر محفوظ تصور کررہے ۔یا پھر عوام کی
آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے ۔
اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک آزادی شہری ہونے کے میں حکومت
اور اس کے اتحادیوں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا اس طرح کے اقدام سے کرنے سے
دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے گی ۔یا حسب سابق شہریوں کو ہی
پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور یہ بھی سوال اپنی جگہ اب موجود رہے گا کہ
اگر اس قدر سخت اقدامات کے باوجود بھی اگر دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوگیا
تو اس کا ذمہ دار اب کون ہوگا ۔ کیا شہریوں کو پریشان کرکے خود کو محفوظ
کرنے والے شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکیں گے ۔ یقینی طور پر ان سوالات کا
جواب سامنے آئے گا اور اس کے لئے ہمیں اور عوام کو انتظار کرنا ہوگا ۔ |