سردارِ دو جہاں ،سرورِ کا ئنات حضرت محمد ﷺ کا قول
ہے کہ ’’ جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت
نہ ہو تو زبان سے روک دے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو دل میں برا جانے
اور یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے ‘‘بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت کم
لوگ ایسے پا ئے جا تے ہیں جو پہلے اور دوسرے درجے پر فائز ہوں یا کم ازکم
تیسرے درجہ میں تو ان کا شمار ہو سکے ، اگر ایسا ہو تا توہم ان لوگوں کو
اسمبلیوں کے لئے منتخب نہ کرتے جو آج پارلیمنٹ لاجز میں ڈیرے ڈالے شراب و
شباب کے مزے لوٹ رہے ہیں۔مگر مقامِ شکر ہے کہ ابھی ایسے دو چار لوگ بھی مو
جود ہیں جو برائی کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے۔جس کی ایک تازہ ترین مثال
مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے درویش صفت آزاد رکنِ قومی اسمبلی جناب جمشید
دستی کے حالیہ انکشافات ہیں جو انہوں نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی کے فلور
پر بآوازِ بلند بیان کئے۔انہوں نے پارلیمنٹ لاجز میں مقیم قوم کے بعض منتخب
نمائیندوں کے شغلِ منشیات و جنسیات سے پردہ اٹھایا تو ارکانِ پارلیمنٹ کی آ
نکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔انہوں نے ارکانِ پارلیمنٹ کے لاجز کو عشرت کدے
سے تعبیر کرتے ہو ئے کہا کہ وہاں ایک طویل عرصہ سے رقص و سرور کی محفلیں
منعقد کی جا تی ہیں ، مجرے ہو تے ہیں ، شراب و شباب کے مزے لوتے جاتے ہیں ،
ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ چار سے پانچ کروڑ کی شراب وہاں استعمال
ہو تی ہے، بد کردار لڑکیوں کو لا کر ان پر غریب عوام کا سرمایہ لٹا دیا
جاتا ہے۔سرائیکی علاقے سے منتخب ہونے والے آزار رکنِ اسمبلی جمشید دستی نے
کہا کہ نماز، فجر کے بعد جب وہ چہل قدمی کے لئے باہر نکلتے ہیں تو چرس کی
بدبو نے ماحول پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہوتا ہے۔جب وہ یہ انکشافات کر رہے تھے
تو کئی معزز ارکانِ اسمبلی کے چہروں پر شر مساری کے رنگ آتے جا تے رہے، کئی
سیخ پا بھی ہو ئے، کئی پریشان دکھائی دے رہے تھے اور انہین سمجھ نہیں آ رہی
تھی کہ اپنا ردِ عمل کیسا ظاہر کریں، سچ کا اثر کیسے زائل کریں ،ایک لمحے
کے لئے تواسمبلی حال میں با لکل سناّٹا چھا گیا۔متحدہ قومی مو منٹ سے تعلق
رکھنے والی خاتون محترمہ نعیمہ کشور نے بڑی تیزی کے ساتھ جمشید دستی کا ما
ئیک بند کر دیا اور کہا کہ فاضل رکن اس معاملے کو اسمبلی کے اسپیکر کے
چیمبر میں لا ئین مگر وہ بولتے ہی رہے اور ببا نگِ دہل اعلان کرتے رہے کہ
ان کے پاس مجروں کے ویڈیو موجود ہیں ،ان کے پاس دیگر کئی اہم ثبوت ہیں جو
وہ سپیکر کے سامنے پیش کرینگے۔گندگی کا یہ کاروبار کافی عرصہ سے جاری و
ساری ہے متعلقہ حکام کو کئی بار اطلاع بھی دی گئی مگر کسی کے کانوں پر جوں
تک نہیں رینگی۔اینٹیلیجنس ادارے متعلقہ حکام کو پل پل کی خبر پہنچاتے رہے
ہیں۔لاجز سے نور کے تڑکے کے ساتھ جوان و حسین لڑکیان کاروں مین رخصت ہو
جاتی ہیں جن کا اجڑا سنگھار پوری کہانی کی چغلی کھا رہا ہوتا ہے اور بقولِ
شاعر، یہ اترا ہوا چہرہ، یہ بکھرے ہو ئے گیسو--صبح بتا رہی ہے تیری رات کا
فسانہ۔یوں علی الصبح لاجز کی رات کا فسانہ افشاء ہو تا ہے۔جمشید دستی کے
بیان کے بعد بعض ارکانِ اسمبلی نے جمشید دستی کے بیان پر افسوس اور قدرے
غصے کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ جمشید دستی کے انکشافات کو ہضم کرنا مشکل
ہے ۔ قومی اسمبلی کے رکن رجا ہراج نے کہا کہ ارکانِ اسمبلی چلتا پھرتا آئین
ہیں۔ الزامات سستی شہرت حاصل کرنے کا شاخسانہ ہے،پارلیمانی ایون میں پہنچنے
والے ارکانِ اسمبلی آئین کے آرٹیکل 62, 63 کے معیار پر پو را اترنے کے بعد
ہی ایوان میں پہنچے ہیں ۔متذکرہ رکن نے آئین کی تو ہین کی ہے۔پارلیمنٹ کے
اندر اور باہر جمشید دستی کا بیان مو ضوعِ سخن رہا۔ہر کوئی اپنے دفاع میں
دور کی کوڑی لاتا رہا۔کسی نے پارلیمنٹ کی را ہداریوں میں زرق برق لباس پہنے
خواتین اور چمکتے دمکتے چہروں پر تبصرہ آرائی کی، ایک پارلیمنٹرین نے یہ
شعر پڑھا ’’تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر، سب کو معلوم ہے اور سب کو
خبر ہو گئی۔‘‘تحریکِ انصاف کے ایم این نے کہا ’’بدنام جو ہونگے تو کیا نام
نہ ہوگا ‘‘ چوہدری اسد الرحمان نے 1998میں نواز شریف کے دور کا وہ قصہ بھی
سنایا جب پارلیمنٹ کے بلاک اے سے ایک بے لباس مد ہو ش خاتون ایم این اے اپا
رٹمنٹ سے باہر آگئی تھی۔قصہ مختصر، پالیمنٹ لاجز کی کہانی،جمشید دستی کی
زبانی ،پورا دن موضوعِ بحث رہا، مگر ایک بات جو بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ
پاکستانی عوام کے منتخب کردہ بیشتر اراکینِ اسمبلی کو عوام کی کو ئی فکر
نہیں، وہ ہاتھ آئے مو قعہ سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں خواہ وہ ملکی دولت لو
ٹنے کو مو قعہ ہو، شراب و کباب یا شباب کا موقعہ ہو، دونون ہاتھوں سے فیض
یاب ہو نے کی کو شش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا ایسے راہبرانِ
قوم کسی قوم کی ہچکولے کھاتی کشتی کو سمندر کے بیچ سے ساحلِ سمندر تک لا
سکیں گے؟ کیا ایسے راہبرانِ قوم پاکستانی عوام کو امن، بے روزگاری سے نجات،
مہنگائی سے چھٹکارا دلا سکیں گے ؟اگر نہیں، تو پھر آپ بھی سو چئے !
ہم بھی سوچتے ہیں کہ انجامِ گلستاں کیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔؟ |