مخبوط الحواس اور جزوقتی رپورٹر کا فتویٰ اور پھر جواب

ایک صحافی کو اگر سماجی کارکن(social worker) کا نام دیا جائے تو یقیناً غلط نہ ہوگا لیکن ایک صحافی جو ہے تو لباس صحافت میں لیکن اپنے اندر درندگی کی غلاظت رکھتا ہے روسیاہ ٹھہرتا ہے(اس کا منہ سدا کالا رہتا ہے) اس کی روسیاہی معاشرے میں اسے گھٹیا اور پرلے درجے کا منافق گردانتی اور قراردیتی ہے۔

مثبت صحافت ہر دور میں افضل ٹھہرتی ہے اس کے ذریعے، ناصرف علاقائی سطح پر تبدیلی کے آثار نمودار ہتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی انقلاب برپا ہوتا ہے صحافتی اداروں کی بھیڑ میں تبدیلی کے آثار کیوں نمایاں نہیں ہورہے بلکہ معاشرہ بے راہ پروری اور بدعنوانی کی دلال میں مزید دھنستا چلاجارہا ہے دہشت گردی جو مذاہب و مسالک یعنی فرقوں سے منسوب ہے مزید پھیلتی چلی جارہی ہے سیاسی و مذہبی جماعتیں مخصوص ایجنڈے پر عمل پیراہیں جن کی کڑیاں ملک و ملت کے دشمن عناصر سے جاکر ملتی ہیں مثال کے طور پر ایک وقت تھا کہ افغانستا کی شورش کے زمہ داروں کو مجاہدین جیسے مقدس نام سے منسوب کیاجاتا تھا۔ اس دوران ایک ایسے دور کا بھی دورانیہ آیا جس میں ان مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا جانے لگا اور اب ایک بار پھر مذاہبوں اور فرقوں کے نام پر لڑنے والوں کو دہشت گرد سے معزز شہری جیسے نام دینے کی سازش ہورہی ہے جس کا آغاز پاکستان میں جنگجوؤں کے ساتھ مذاکراتی عمل کی ابتداء مین ان سورش پسندوں کی رہائی کی شکل میں ہوچکا ہے اس ضمن میں تھال لاتعداد شورش پسند رہا بھی کئے جاچکے ہیں ان جرائم میں پاکستان کا میدیا برابر کا گنہگار ہے ہر دور میں مخصوص اور برسر اقتدار سیاسی جماعتوں نے اپنے ٹاؤٹ صحافی پال رکھے ہیں جنہوں نے زہریلا مواد پرنٹ اور نشر کئے رکھا جس کے منفی اثرات ہمارے سامنے ہیں برسراقدار طبقات کی مہربانیوں سے عوام الناس شعوری سطح پر تاحال پسماندگی کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ برے اور بھلے کی سوچ سے عاری ہے زرد صحافت اور زرخرید صحافیوں کے پروپیگنڈے میں آکر اپنے مستقبل کا فیصلہ کردیتی ہے راقم کے نظریات سے یہ مطلب اخذ نہ کیاجائے کہ میں پاکستانی صحافت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ صحافت میں رائج ان نظریات اور افکار کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں جو زمینی حقائق کو بدلنے کی بجائے کرپشن کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور من پسند فرقوں کو حقیقی اسلام کا نام دے کر رائج کر کے دیگر مذاہب‘ مسالک اور فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں لیکن اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی صحافت کی یہ سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ ان ایجنڈوں کی تکمیل میں پیش پیش ہے۔

گذشتہ دنوں مقامی پولیس سٹیشن میں پولیس افسروں کے ساتھ ایک اہم ایشو پر بات ہورہی تھی اس دوران انہوں نے مجھے کہا کہ منشا فریدی صاحب! یہاں کے اخباری رپورٹرز آپ کو مخبوط الحواس اور پاگل قراردیتے ہیں میں نے جواب دیا کہ پاگلوں کو سب پاگل ہی نظر آتے ہیں نبیوں پر کافروں نے پاگل پن کے لیبل لگائے۔ علامہ اقبالؒ کو ان کا فلسفہ نہ سمجھنے والوں نے کفر کے فتوے کا نشانہ بنایا جب وہ میرا فلسفہ نہ سمجھیں گے اور میری بات اور فکر کی گہرائی تک نہ پہنچیں گے تو کیا وہ فتویٰ نہ دیں گے؟ یہی فتویٰ اور درکواست بازیاں ہی ان کا ذریعہ معاش ہے -

ملک دشمن طاقتیں ہمیشہ افسر شاہی اصل قوت حاکمہ‘ سیاست اور صحافت پر قبضہ کر کے کسی بھی خطہ زمین کو اپنا نشانہ بناتی ہی یوں وہاں کے اقدار اور مثبت فکر اور شعور کو اپنے غلط فیصلوں کے ذریعے تسخر کرنا چاہتی ہیں زرق برق لباس افرادی قوت اور اپنی کم علمی کی طاقت کے ذریعے حقائق کو مسخ کرتی ہیں ان حالات مین ایک عالمی سوچ رکھنے والے صحافی کا قلم ہی تبدیلی لاسکتا ہے اس کلچرکے لوگ(غیر فلسفیانہ فکر کے حامل پریس رپورٹر) کی شعور رکھیں کہ صحافت/رپورٹنگ کس قدر حساس ہے اور اس کے منفی استعمال سے معاشرے میں کس حد تک تخریبی عوامل طاقت حاصل کر کے ہماری سماجی و قانونی اقدار کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ راقم تو اس حد تک اصلاحات کا خواہاں ہوں کہ عدالتی فیصلوں سے سزائے موت کے فیصلے کو ہٹا دیا جائے کیونکہ جس خاندان کے فرد کو سزائے موت دی جاتی ہے تو اس مین ریاست کے خلاف انتقام کا جذبہ ابھرتا ہے یوں سماجی سطح پر انتشار اور ملکی سطح پر بھی انتشار کا خوف لاحق ہوتا ہے جو ایک دن حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے اس حوالے سے قانون سازی میں پیش رفت ضروری ہے رپورٹنگ/صحافت میں مراعات یافتہ (جنہوں نے نا صرف شدت و انتہا پسندوں بلکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں سے بھی ان کی سرپرستی اور تحفظ دینے کے ضمن میں لاتعداد مفادات حاصل کر رکھے ہیں) طبقہ جو خفیہ اداروں اور ہمارے ایسے اداروں کیلئے بھی کام کررہے ہیں جو ہیں تو بظاہر قانون کے نفاذ کے مراعی لیکن در اصل بیرونی اور دہشتگردوں کے اشارے اور ایجنڈے کی تکمیل پر عمل پیرا ہیں جب مبینہ طور پر ایک اشتہاری جاوید لاشاری کی ویڈیو منظر عام پر آئی جنہیں اقبال چانڈیہ(پولیس آفیسر) کے نیٹ ورک نے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں پار کردیا تھا اس ویڈیو میں جاوید لاشاری ایک مشاعرے میں بہترین شاعری سنارہے ہیں جنس کی شاعری پر راقم نے تحقیقی کام شروع کر دیا ہے اور ان حقائق کو بھی منظر عام پر لایاجائے گا جن کی بنیاد پر انہیں پارکردیا گیا مذکورہ نیٹ ورک نے ظاہرکیا کہ جاوید لاشاری خطر ناک مجرم تھا پہلے تو یہ سوچنا چاہئے کہ انسان مجرم کیوں بنتا ہے……؟ اس سوال کا جواب کالج پڑھنے والوں کے ذمہ……! جو اپنی شعوری و فکری استطاعت کے مطابق سوچ اور دے سکتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ جاوید لاشاری جملے مہمان (عظیم) شاعر کو مظفر گڑھ ضلع کی بااثر سیاسی شخصیات کے اشارون پر قتل / شہید کیا گیا افسوسناک بات یہ ہے کہ پناجب میں قانون نافذ کرن یوالے ادارے کے ایک کرپٹ افسر نے یہ خدمت انجام دی/مذکورہ پولیس افسر اس طرح کی دیگر وارداتوں میں بھی ملوث ہے اورکامایبی کے ساتھ انجام دے چکا ہے اس کا اگلا ہدف راقم ہے مجھے سچ لکھنے دہشت گردی جعلی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت اور جرائم پیشہ گرپوں کے خلاف قلم اٹھانے کی پاداش مین کسی بھی وقت قتل یا پار کرواسکتا ہے ان مقاص کے لئے اقبال چانڈیہ نے اپنے بدمعاش اور ٹارگٹ کلرز چھوڑ دیئے ہیں جن کے نام میں نے گوگل‘ فس بک‘ اور ٹوئیٹر پر ظاہر کردیئے ہیں مجھے اغوا کیا گی یا قتل یا پھر مجھے تیزاب گردی کا شکار کیاگیا میری آنکھ نکال کر اندھا یا میرے ہاتھ کاٹے گئے تو ذمہ داری اقبال چانڈیہ عرف بالا کلر اور اس کے ایجنٹوں پر عائد ہوگی……! اقبال چانڈیہ جیسے کِلر اور اس کے آلہ کار اخباری رپورٹنگ سے وابسۃ بھاڑے کے ٹٹو معاشری بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ورنہ نسل انسانی انہیں غدار کا نام دے گی موجودہ حالات و واقعات میں تو یہ لوگ عذرا ہیں ہی……! کیونکہ یہ لوگ امن کا منطق پیش کرنے والوں کے صریح دشمن ہیں۔

اب دیکھیں طالبان کے ساتھ امن مذاکراتی عمل کی کوشش ہورہی تھی اس دوران طالبان رہنما حکیم اﷲ محسود کو قتل کر دیا گیا جو مبینہ طورپر امریکی جاسوس طیارے کے حملے میں ہلاک ہوا مذاکرات کا عمل اب دوبارہ شروع ہو چکا ہے) اس ہلاکت میں کہا امریکہ پاکستان کے اندر کے حالات جانتا ہے اور ملوث ہے……؟ ہرگز نہیں……ہمارے اداروں میں ایسے افراد موجود ہیں جو بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہین اور ملکی امن مین رخنہ ڈال رہے ہیں اور مستقل فساد دیکھنا چاہتے ہیں سب سے پہلے ان طاقتوں کا قلع قمع کرنا چاہے جو ہمارے اندر رہ کر ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں یہ ذمہ داری حکومتی و سرکاری ادارے ہی پوری کرسکتے ہیں ان عناصر کو اداروں اور سماج سے نکال دینا ہی ملکی و علاقائی امن کے لئے ناگزیر ہے ورنہ معاشرہ بے چینی کا شکار رہے گا اس طرح کے نان سیٹیٹ ایکٹرز (غیر ریاستی عناصر) سے پہلے ہی وطن عزیز کو دولخت کیاخدا نہ کرے کہ دوبارہ سقوط ڈھاکہ جب سانحہ دیکھنا نصیب ہو…… خطے میں آباد چھوٹی چھوٹی اقوام کے تحفظ کے لئے وسیع اتحاد و اکائی ضروری ہے اس لئے ہماری بقاء پاکستان کے استحکام ہی سے ممکن ہے سرائیکستان کے قیام کے لئے متحرک جماعتیں ہون یا سرائیکی ثقافت زبان اور ادب پر لکھنے والے قلمکاریوں بحیثیت فرزندان وطن ان کے حقوق ہیں بطور آزاد شہری ان کے حقوق کا قتل و عام ایک گھناؤنا جرم ہے راقم دیگر موضوعات کے علاوہ سرائیکی و ادب او رعالمی ادب پر لکھتا ہوں جس میں معاشرتی و ملکی امن کے موضوعات بھی بوقت ضرورت در آتے ہین لیکن شر پسند عناصر( جومیدان صحافت کے گیدڑ ہیں) دُم دباکر بھاگتے ہیں اور جا کر پولیس سٹیشنوں اور بالاکِلرز کی گود مین رحم کی اپیل کر کے راقم کو جعلی پولیس مقابلوں اور دہشتگدرانہ حملوں میں قتل کردینے کا اِذن مانگتے ہیں یوں اندراج مقدمہ کی بھیک کا حصول ان گیدڑ نماؤں کی فتح تصور ہوتی ہے لیکن یاد رہے کہ ’’آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا‘‘

یہاں یہ یاد رہے کہ حامد میر‘ مبشر لقمان‘ نجم سیٹھی( اور وارث میر مرحوم) جیسے عظیم صحافیوں پر امریکی اور بھارتی ایجنٹ قرار دینے کی ناپاک کوششین ناکام رہی ہین تو کیا یہ لوگ جو بلیک ملینگ پر ایمان رکھتے ہیں میرا کچھ بگاڑ سکیں گے ہرگز نہیں…… یہ گونگنے اور بہرے بے زبان ہی رہیں گے…… اپنی ماں دھرتی اور میرے جیسے اپنے حقیقت پسند بھاؤیں کا خون کرتے رہینگے بروز محشر میرے ہاتھ ان کا گریبان ہوگا……!

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 46993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.