پاکستان اور طالبان میں کھلی جنگ

سب کو معلوم تھا کہ ایسا ہونا ہے، امن کا کچومر نکل گیا۔ مذاکرات کا جنازہ اُٹھ گیا۔ حکومت کے ارمان کا قیمہ بن گیا ۔ طالبان نے روزمرہ کی طرح ایک بار پھر اپنی فطرت اور کردار کو عیاں کر دیاکہ طالبان کا مطلب ہے دہشت گردی ، درندگی، حیوانیت اور موت۔ ایک ایسی طاقت جس کی رگوں میں صرف تشدد ڈور رہا ہے ، جو بات تو شریعت کی کرتی ہے مگر اس کا ہر قدم اور فیصلہ غیر شرعی ہوتا ہے۔ طالبان نے امن مذاکرات کا آغاز ناقابل تسلیم شرائط کے ساتھ کیااور خاتمہ چوبیس پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے سرقلم کرکے دیا۔طالبان کے اس قدم نے امن مذاکرات کا شیرازہ بکھیر دیاجس کے بعد اب پاکستان اور طالبان کے درمیان کھلی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ طالبان کہتے ہیں ہم نے سیز فائر کر دیا مگر اگلے دن پھر کوئی خود کش حملہ ہوجاتا ہے، طالبان آپس میں بٹ چکے ہیں ان کے کئی گروپس ہیں جن میں کوئی مذاکرات کی بات کرتا ہے تو کوئی جنگ کرنے کی۔ اب اگر مذاکرات کئے جائیں تو کس سے ؟

پاکستان کے جنگی جہاز وں کی جانب سے اگر حملے بند کر دیئے گئے ہیں مگر جنگی جہاز اب بھی سرحدی علاقوں پر اُڑانیں بھر رہے ہیں تو دوسری جانب طالبان وقت گذاری کے کھیل کے بعد پھر طاقت کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہیں۔ طالبان اور امن کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اگر طالبان نے امن مذاکرات کے لئے رضامندی ظاہر کی تھی تو اس کا مقصد صرف و صرف ڈرون حملوں میں کمر ٹوٹنے کے سبب سانسیں درست کرنے کے لئے وقت یا مہلت تھی۔ امن مذاکرات کے دوران 24سیکورٹی اہلکاروں کے سر کاٹ دیئے جانے کے بعد ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ امن اور طالبان میں وہی فرق ہے جو زمین و آسمان میں ہے۔ دونوں کا ملن کبھی اور کہیں بھی ممکن نہیں۔ امن مذاکرات کا جنازہ نکلنے کے بعد اب نواز شریف حکومت کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ طالبان کے خلاف آر پار کی جنگ لڑیں ، بلکہ امریکہ کو ڈرون حملوں کے آغاز کے لئے ہری جھنڈی دکھائیں اور اس بار بات محبت کی نہیں جنگ کی کریں۔ دفاع کی بجائے حملہ ہی بہترین حکمت عملی ہو گی۔نواز شریف نے پہلے ہی مذاکرات کی بات کی تھی، کہا تھا کہ پاکستانی طالبان کوئی غیر نہیں ، بات چیت کا دور ضرور شروع ہو گا، امن کی راہ ضرور نکلے گی، لیکن حکومت سازی کے بعد نواز شریف کو طالبان کے ہاتھوں کافی تلخ تجربات ہوئے ، اس کے باوجود نواز شریف نے ہمت نہیں ہاری ۔ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد امن مذاکرات خطرے میں پڑھ گئے تھے، جب ڈرون حملوں نے امن مذاکرات سے چند دن قبل طالبان کو سب سے بڑا جھٹکا لگا تھا۔ ڈرون کے عذاب سے بچنے کے لئے طالبان نے امن مذاکرات کا ڈرامہ کیا۔ پاکستانی حکومت نے اوبامہ انتظامیہ کے ہاتھ پیر جوڑ کر ڈرون حملوں کو بریک لگانے پر راضی کیا، مگر طالبان وہی کر رہے ہیں جس کی اُمید ہے، امن مذاکرات کے دوران بھی پاکستان میں اسلامی قانون لاگو کرنے کا مطالبہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اس بات جیت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ طالبان نے بڑی شان سے مذاکرات کے لئے اپنے وفد کا اعلان کیا، جن کے ارکان سے بات چیت میں حصہ لینے کی رضا مندی بھی نہیں لی گئی۔ پاکستانی طالبان کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے کوئی آثار نہیں وہ منزل حاصل کرنے کے لئے آخری دم تک جنگ لڑنے کے قائل ہیں جو پاکستان میں آنے والے دنوں میں مذید بڑے دہشت گردانہ حملوں کا اشارہ ہے۔طالبان کو اب تک چوروں اور لٹیروں کی ٹولی مانا جاتا ہے جو شریعت اور اسلامی قانون کے نام پرملک میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔طالبان کئی بار یہ ثابت کر چکے ہیں کہ یہ گروپ صرف تشدد پر یقین رکھتا ہے اور طالبان سے امن مذاکرات صرف و صرف خود کو دھوکہ دینا ہے۔ اب یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے چیئرمین عمران خان نے امن مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کرنے سے کیوں انکار کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ طالبان ناقابل اعتبار ہیں ۔ وہ جانتے تھے کہ طالبان کی نمائندگی صرف بدنامی ہی دے گی، اس لئے عمران خان نے وضاحت کی تھی کہ وہ "طالبان خان"نہیں عمران خان ہیں۔طالبان تو شریعت کا مطالبہ تو کرتے ہیں مگر ان کی سرگرمیاں خود غیر اسلامی ہیں وہ خون بہا رہے ہیں ، ظالم کردار نبھا رہے ہیں ، قاتل بن گئے ہیں درندگی کر رہے ہیں۔ حیوانیت کو شرمندہ کر رہے ہیں ایسے عناصر کبھی اسلام پسند نہین ہو سکتے۔اور حکومت اگر امن مذاکرات میں شامل ہے تو صرف و صرف وقت خراب ہو رہا ہے کیونکہ یہ طالبان کی چال ہے جو حکومت کو امن مذاکرات میں اُلجھا کر خود کو منظم کر رہے ہیں۔حکومت بھی طالبان کی فطرت سے واقف ہے مگر اس کے باوجود کینسر کا علاج آپریشن کی بجائے دوا سے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دراصل پاکستانی کی مڈل کلاس میں طالبانی نظریات کی مقبولیت نے حکومت کو بھی اس کے خلاف کھل کر آنے کا حوصلہ نہین دیا تھا۔ اب پاکستان کی مڈل کلاس بھی کشمکش کا شکار ہے کہ طالبان کس اسلام کی بات کر رہے ہیں۔ اگر یہ حکومت میں آگئے تو انجام کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر طالبان نے حمایت حاصل کی تھی تو اب تیزی کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی مول لے رہے ہیں۔سیاستدان بے خوف ہو کر مخاطب کرنے لگے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے طالبان کے خلاف اعلان جنگ پر روز دیا ہے ، کیونکہ طالبان نے ہی اُن کی ماں بینظیر کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف نے طالبان کے ساتھ ڈھیل برتی تھی تو آج وہ قید ہیں، مگر طالبان اُن کے خون کے پیاسے ہیں ۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب سیاستدانوں کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ طالبان کے خلاف میدان میں آئیں اور عوام کو بتائیں کہ ان کا ایک ہی علاج ہے اُن کا خاتمہ۔

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80103 views i am a humble person... View More