بلوچ کے ضمنی انتخاب کے موقع پر
رینجرز کی آمد اور چیف سیکرٹری و انسپکٹر جنرل پولیس کے کردار پر خاصا
ردعمل دکھایا گیا ہے۔ وزیراعظم نے لینٹ افسران کی واپسی تک کے احکامات صادر
فرمادئیے تھے۔ بظاہر تین امیدواروں کے درمیان نہیں بلکہ حکومت آزادکشمیر
اور حکومت پاکستان کے درمیان مقابلہ تھا۔ ریاستی حکمرانوں نے ضابطہ اخلاق
کی دھجیاں بکھرتے ہوئے وزیراعظم اور پوری کابینہ انتظامی افسروں سمیت پی پی
پی کے امیدوار کو کامیابی کروانے کے لیے لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں موجود
تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی وزیر امور کشمیر بھی پیچھے نہ رہے۔ یوں دستور کا
حلف پڑھنے والوں نے قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں ذرا شرم محسوس نہیں
کیا۔ریاستی تشخص کے علمبردار سردار عتیق مسلم کانفرنس کی ـ’’پذیرائی‘‘ دیکھ
کر مکمل خاموش ہو چکے ہیں۔
آزادکشمیر کے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے منہ سے قانون کا نام سن کر مجھے
حیرت ہوتی ہے کہ دھاندلی کی پیدوار لوگ کس منہ سے قانون کا لفظ نکالتے ہیں۔
ان میں سے کون ہے جو منصفانہ انتخاب کے نتیجے میں منتخب ہوا ہے یا ماضی کا
کوئی حکمران اس کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ سب لوگ جھرلو کی پیداوار ہیں۔ کوئی
اپنے اثرورسوخ، برادری اور کرائے کے قاتلوں کے ذریعے منتخب ہوتا ہے، کوئی
انتظامیہ کی مداخلت سے ہوتا ہے، کوئی ’’مری والی سرکار‘‘ کی پشت پناہی سے
فیضیاب ہوتا ہے۔ کتنے ہی حلقوں میں ون وے پولنگ کے ذریعے زندہ اور مردہ سب
کے ووٹ پول کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا بھر میں
پھیلے ہوئے ہیں، ان کے ووٹ آبائی علاقوں میں سرکاری سرپرستی میں پول ہوتے
ہیں۔ مسلم کانفرنس، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی والے تو پاکستان کے
حکمرانوں کی مدد سے مہاجرین کی سیٹیں تحفے میں لیتے رہے ہیں۔ سردار عتیق کو
یاد نہیں کہ وہ کراچی سے کس طرح منتخب ہوئے تھے۔ تب ریاستی تشخص کہا ں تھا۔
پاکستان میں ویلی اور جموں کے حلقوں میں ہمارے کشمیر بازگروں کی درخواست پر
پاکستانی حکمرانوں (پی پی پی اور نواز لیگ) نے ہمیشہ مہاجرین جموں کشمیر کے
حق رائے دہی پر شب خون مارا ہے۔ سردار عبد القیوم ، سردار ابراھیم خان،
سردار عتیق ، سلطان محمود چوہدری سمیت کسی نے کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ اب
کی بار سب کو ریاستی تشخص یاد آگیا۔ یہ سارے ڈاکو ہیں، انہوں نے ہمیشہ اہل
کشمیر کے ارمانوں کا خون کیا ہے۔ یہ تخت اسلام آباد کی طاقت پر باری، باری
قومی خزانے لوٹ رہے ہیں۔ انہیں عوام کے حقوق اور ریاست کے وقار سے کیا لینا
دینا ہے، یہ اپنے پیٹ کے غلام ہیں، جو نہ پہلے بھرا ہے اور نہ مرتے دم تک
بھرے گا۔اﷲ ان بھوکوں سے قوم کو نجات دلائے۔
جس ملک میں چوہدری ریاض، خواجہ سعید اور سردار سید محمد جیسے لوگ چیف
الیکشن کمشنر رہ چکے ہوں، وہاں غیرجانبدارانہ انتخاب سے بڑا جھوٹ کیا
ہوسکتا ہے۔ اﷲ ہی جانتا ہے کہ یہ لوگ عدلیہ میں کیا کرتے رہے ہیں۔ چیف
الیکشن کمشنر کے عہدے کو جس طرح ان لوگو ں نے پامال کیا ہے ، وہ ہماری
تاریخ کا سیا ہ ترین باب ہے۔ ان میں غیرت کی اتنی بہتات ہے کہ اخباری
اطلاعات کے مطابق خواجہ سعید کا تین حلقوں (فاروڈ کہوٹہ، مظفرآباد اور
اسلام آباد) میں ووٹ درج تھا اور تینوں جگہ پول بھی ہوا، اس پر انہیں کبھی
ندامت بھی نہیں ہوئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو برائی کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔
آزادکشمیر کے انتخابات محض ڈھونگ ہیں۔ کبھی فوج والے اپنی مرضی کے لوگوں کو
لاتے ہیں اور کبھی تخت اسلام آباد والے ۔ آزادکشمیر کے عوام کی ہمیشہ تذلیل
کی گئی ہے۔ مسلم کانفرنسی اور پپلیے چونکہ اس گنگاہ سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں
، اس لیے انہوں نے کبھی انگلی نہیں اٹھائی، اس بار مسلم کانفرنس کو عوام نے
مسترد کردیا اور پی پی پی کے حکمران اپنی انتظامیہ کو استعمال نہ کرپائے تو
سب کو ریاستی تشخص یاد آگیا ۔ جنرل (ر) محمد حیات مرحوم نے اپنے دور حکومت
میں جو بلدیاتی انتخاب کروائے تھے ان کے علاوہ مجھے کبھی غیر جانبدارانہ
انتخاب دیکھنے کو نہیں ملے۔ ہمارے ہاں سیاسی کارکن کی جن خطوط پر تربیت
ہوتی ہے اس کے خیر کی توقع نہیں ہوسکتی۔ یہ سب لفافہ، پرمٹ اورفائل کلچر کی
پیداوار ہیں ۔ یہ عہدے اور ذمہ داریاں بھی بکتی ہیں۔ یہ چوروں کی آمجگاہ ہے۔
یہاں چوری اور سینہ زوری ، برادری ازم اور ووٹوں کی خرید و فروخت سرعام
ہوتی ہے۔
جس ریاست کے حکمران اپنے عوام کو روزانہ تقدس مجروح کرتے ہیں، اس ریاست کا
تقدس ہوتا کہاں ہے۔ جس ریاستی مشینری کی بنیاد ہی جھرلو پر ہو نہ وہ خود
انصاف پسند ہوتی ہے اور نہ انصاف انہیں ہضم ہوتا ہے۔ جس سکے کا چلن ہے نواز
لیگ نے اسی کی زبان میں سیاست کی ہے اور ایک سیٹ لے اڑے ہیں۔ مجاوروں نے
پرانی تنخواہ پر نوکری جاری رکھنے کا یقین دلادیا ہے۔ غیرت مند سمجھوتے
نہیں کرتے قربانیاں دیتے ہیں۔ سوداگران نے یہ منصب خرید کر لیے ہیں، جب تک
خرچہ پورا نہیں ہوتا سمجھوتے تو مجبوری ہے۔ |