مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بدترین رسوائی اور شکست

 زمانہ گزراپنا توکرکٹ سے لینا دینا ختم ہو چکا ۔ کیونکہ دنیا میں زندگی انتہائی مختصر ہے تو دوسری طرف کرنے کو اور اتنے کام ہیں کہ ان کا ارادہ ہی باندھ لیا جائے توکرکٹ کے لئے سوچنے کی بھی فرصت نہیں رہتی۔لیکن ڈھاکہ میں نے والے پاکستان و بھارت کے کرکٹ میچ نے تو اپنی جانب کھینچ ہی لیا ۔بھارت پاکستان سے ہارا توپاکستانیوں کے ساتھ کشمیری عوام بھی بھارت کی شکست پر خوشی منانے میں سب سے آگے تھے۔اسی خوشی میں ایک کشمیری ذبح ہو ا تو بیسیوں کو بھارت نے غدار قرار دے کر حق تعلیم سے محروم کرنے کی پوری کوشش کی۔جو بھی ہو ایک بات تو ہزراہا مرتبہ کی طرح ایک بار پھرنکھر کر سامنے آ گئی کہ کشمیری قوم آج بھی خون کے دریا پار کر کے پاکستان پر فدا اور بھارت پر ہرلحظہ ہر لمحہ صرف نفرین بھیجتی ہے۔یہ دو قومی نظریہ بھی کسی ایسے فولاد سے بنا ہے کہ جو کبھی کمزور ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔پاکستان میں کتنے لوگ تھے جنہوں نے کوشش کی کہ کشمیری پاکستان کو بھول جائیں۔پاکستان بھارت ایک ہو جائیں لیکن ایسا سوچنے والوں کے ہمیشہ صرف رسوائی ہی ملی ہے۔کشمیری قوم بھی نجانے کس خمیر سے بنی ہے کہ بھارت کے سامنے نہ جھکتی ہے اور نہ اس کی پاکستان سے محبت میں کمی آتی ہے۔یہ اسی کشمیری قوم کا اعزاز و افتخار ہے کہ بھارت 27سال سے اپنے ترکش کے تیر آزما کر ان کے خلاف نامراد ہی ٹھہرا ہے۔دنیا کی تاریخ میں اتنے محدود رقبے پر اتنی بھاری اور اتنی لمبی فوجی تعیناتی نہیں ملتی جس کا منظر دنیا 27سال سے مقبوضہ وادی کشمیر میں دیکھ رہی ہے۔بھارت کل تک دعوے کر رہا تھا کہ کشمیرکی تحریک آزادی اب دم توڑ چکی ہے لیکن اب اسی بھارت کا یہ حال ہے کہ اس نیمقبوضہ کشمیر میں ہر روز بڑھتی جہادی سرگرمیوں اور جہادی معرکوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں بڑا سکیورٹی اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس وزیر دفاع اے کے انٹونی کی سربراہی میں ہوا جس میں ملک کی دفاعی سکیورٹی ایجنسیوں کے علاوہ بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔ میٹنگ کی اہمیت کے پیش نظر بھارت کی خفیہ ایجنسی آئی بی کے سابق سربراہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ کے بعد وزیراعظم کو جو رپورٹ جاری کی گئی اس میں کہا گیا کہ کشمیری مجاہدین کی بڑی تعداد کنٹرول لائن پر داخلے کے لئے تیار ہے جسے روکنے کے لئے مسلح افواج کو چوکس کیا جائے، کنٹرول لائن پر حفاظتی انتظامات مزید سخت کئے جائیں مقبوضہ کشمیر میں فوجی سرگرمیاں بڑھائی جائیں۔ اس اجلاس کے دوران آئی بی کے سابق سربراہ کے اس بیان کو بھی بہت اہمیت ملی کہ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کی واپسی کے بعد وہاں برسرپیکار مجاہدین لامحالہ کشمیر کا ہی رخ کریں گے اس لئے بھارت کو اس حوالے سے آنکھیں کھولنا ہوں گی۔

بھارت میں یہ اجلاس اس لئے منعقد ہوا کہ کنٹرول لائن سے متصل ضلع کپواڑہ کے علاقہ لولاب کے جنگلات میں بھارتی فوج نے لشکر طیبہ کے 7 مجاہدین کو شہید کرنے کادعویٰ کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کپواڑہ میں پولیس اسٹیشن پر ہزاروں لوگوں نے حملہ کر کے ان نوجوانوں کے اجساد خاکی جبراً چھین لئے تھے جنہیں بھارتی فوج خفیہ دفنانا چاہتی تھی۔ ان شہداء کے جنازوں میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جو آزادی کے حق اور بھارت کے خلاف مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔ اس واقعہ کے بعد کپواڑہ میں کئی دن مسلسل کرفیو نافذ رہا توکشمیری عوام کرفیو توڑ کر مظاہرے کرتے رہے۔اس دوران درجنوں کشمیری زخمی تو متعدد گرفتار بھی ہوئے۔ اس واقعے کے خلاف 28 فروری جمعہ کے روز ساری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال بھی ہوئی توہر جگہ مظاہرے ہوتے رہے جبکہ بھارتی فورسز کشمیریوں کو دبانے کے لئے حسب روایت مار دھاڑ کے ہی حربے آزماتی رہیں۔

یہ بات تو سبھی کے علم میں ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے بھارتی حکام تواتر سے یہ الزامات دھرا رہے ہیں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی بڑی تعداد دیکھنے کی تیاری میں ہے۔ پاکستانی فوج پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ وہ مجاہدین کو کور فائر دے کر ’’دراندازی‘‘ میں مدد دیتی ہے۔ پاکستان میں 43 جہادی کیمپ متحرک ہیں۔ 3 ہزار تک مجاہدین کنٹرول لائن کے قریب تیار بیٹھے ہیں۔ یعنی بھارت اس کوشش میں ہے کہ وہ تحریک آزادی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اس سے جان چھڑائے حالانکہ یہ اس کی سرے سے بھول اور غلطی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے آٹھ لاکھ ریگولر فورسز متعین کر رکھی ہیں۔ ہر ہفتے ہڑتال ہوتی ہے ۔روزانہ گرفتاریاں، روزانہ آنسو گیس شیلنگ، روزانہ مظاہرے، فائرنگ شہادتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب تو صرف اور صرف کشمیری عوام خود کر رہے ہیں جن کے خلاف بھارت ہمیشہ نامراد ٹھہرا ہے۔

ہر روز تیزی سے بدلتے حالات و تحریک میں بڑھتی حرارت کے بعد تو اپنے بچاؤ کے لئے بھارت کو کشمیر پالیسی بدلنا ہی پڑے گی۔بھارت کو اب دیکھ لینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں جہاں ایک طرف ہر روز بڑھتے جہادی معرکے اس کی فوجوں کے لئے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں توتما م تر چالوں کے باوجود کشمیریوں کی سیاسی اور عوامی تحریک دونوں میں ہر روز تیزی آ رہی ہے۔ بھارت کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ ایک طرف دعوے کرتا ہے کہ تحریک آزادی کمزور ہو کر ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن دوسری طرف وہ ہر روز اپنی فوجی طاقت میں نہ صرف اضافہ کرتا ہے بلکہ حریت رہنماؤں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی سالہاسال سے گھر پر قید ہیں۔ ڈاکٹر قاسم فکتو کی 14 سالہ قید مکمل ہوئے 6 سال گزر چکے ہیں لیکن بھارت انہیں رہا کرنے پر تیار نہیں۔ ان کی اہلیہ آپا آسیہ اندرابی کشمیر کی تحریک آزادی کا استعارہ بن چکی ہیں۔ مسرت عالم ساڑھے تین سال سے بھارتی جیلوں میں ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور شبیر شاہ سمیت سبھی حریت رہنما ایک دن آزاد تو 2 دن قید میں ہوتے ہیں۔ جناب شبیر شاہ کی توآدھی سے زیادہ زندگی جیلوں میں گزری ہے۔اس کے علاوہ سات ہزار سے زائد دیگر کشمیری بھی برسہا برس سے قید و بند کی تمام تر سختیاں جھیل رہے ہیں ۔ بھارت نے طاقت و سیاست کا ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن کشمیریوں کو زیر نہ کر سکا۔ اب وہ ہمیشہ کی طرح اس کو پاکستان کے کھاتے ڈال کر اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔ حالانکہ معاملہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ یہ ساری تحریک کشمیریوں کی اپنی ہی شروع کردہ ہے جس پر وہ ہر روز پہلے سے زیادہ سرگرمی سے چل رہے ہیں۔گزشتہ چند ہفتوں کے معرکوں میں شہید ہونے والے مقامی کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد کے بعد تو بھارت اور دنیا کی اس معاملے میں آنکھیں کھل جانی چاہیں۔

بھارت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ہاں دنیا میں سب سے زیادہ 100 سے زائد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان میں سے کشمیر کی تحریک ہی سب سے زیادہ طاقتور اور سرگرم ہے۔ بھارت کو ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اپنے سارے اتحادیوں سمیت افغانستان سے نکل رہا ہے،مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا ہو گا۔ بھارت کے پاس اس حوالے سے بہترین موقع ہے کہ وہ اس تحریک کو کشمیری عوام کی تحریک ہی سمجھ کر اپنے اس حق خودارادیت کے وعدے کو پایہ تکمیل تک پہچائے جس کا وعدہ اس نے خود 1948ء میں اقوام متحدہ میں جا کر کیا تھا۔ بھارت یہ جانتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ سے برسرپیکارجہادی طاقتیں اب فارغ رہنے کے بجائے جلد کشمیر کا رخ کریں گی تو تحریک کا رخ یکسر تبدیل ہو گا۔ اس کا اندازہ انہیں گزشتہ سال کے معرکوں حالیہ خونریزجھڑپوں سے ہو جانا چاہئے۔ افغان مجاہدین اگر کشمیر پہنچے تو بھارت کے لئے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔حالیہ بڑھتے معرکے بھی بھارت کے لئے ایک الارم ہے۔27سال کا منظر نامہ سامنے رکھنے کے بعد تو نظر یہی آتا ہے کہ دن رات دفاعی کانفرنسز منعقد کرنے، افواج الرٹ کرنے، ظلم و ستم بڑھانے اورپاکستان پر الزامات لگانے سے آج تک بھارت کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور مستقبل میں بھی اس حوالے سے وہ کوئی امید نہ رکھے ۔اس سے پہلے معاملہ کہ کشمیر سے آگے بڑھے، بھارت کو کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے۔

کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے بدلتے مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھ کر پاکستانی حکومت اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت پر اس بہترین وقت میں دباؤ میں اضافہ کریں۔ تحریک آزادی کی ہر سطح پر مدد و حمایت کریں۔ تاکہ کشمیریوں کو یہ احساس ہوکہ وہ تنہا نہیں اور ان کی تحریک جلد منزل مقصود پر پہنچنے والی ہے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.