بریگیڈیر امتیاز احمد نے مزید
کہا کہ
انہوں نے مزید کہا کہا اس سلسلے میں انہوں نے اپنے سینئرز کے حکم کے تحت
نائن زیرو پر متحدہ کے قائد الطاف حسین سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات پانچ
گھنٹے جاری رہی ملاقات میں انہوں نے الطاف حسین سے کہا کہ آپ دائیں بازو کی
جماعت کو سپورٹ کریں مگر الطاف حسین نے دائیں بازو کی جماعتوں کو سپورٹ
کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن اور جناح پور
کے نقشے کی برآمدگی کے سوال پر بریگیڈیر امتیاز احمد نے کہا کہ ایم کیو ایم
کے خلاف آپریشن کی اجازت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے نہیں لی گئی اور
ان کی اجازت کے بغیر یہ آپریشن شروع ہوا۔
جب یہ آپریشن شروع ہوا اور ایم کیو ایم نے اس آپریشن کے خلاف آواز اٹھائی
تو نواز شریف نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی سے یہ معاملہ ڈسکس کیا اسکے
بعد انہوں نے (نواز شریف) نے اس آپریشن کو جاری رکھنے کی اجازت دیدی۔ انہوں
نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی اطلاع وزیراعظم نواز شریف کو نہ
ہونا ان کی سیاسی معصومیت ہے کہ اتنی بڑی چیزوں کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا؟
انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کے دفتر سے جناح پور کے نقشہ کی برآمدگی
ایک ڈرامہ تھی۔ جب میں نے سات دن بعد اس واقعہ کی تفتیش کی تو میں اس نتیجہ
پر پہنچا کہ یہ سارا معاملہ ڈرامہ ہے اور ایم کیو ایم کے کسی بھی دفتر سے
جناب پور کا نقشہ برآمد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل نصیر اختر اس وقت
کور کمانڈر کراچی تھے ان کی مرضی کے بغیر جناح پور کے بقش برآمد ہونا بڑا
سوال ہے انہیں تفتیش کرنی چاہیے تھی اس قسم کے نقشہ کس نے پیش کیے۔
آئی جے آئی بنوانے کے فیصلے کے متعلق امتیاز احمد کا مؤقف تھا اس فیصلے میں
جماعت اسلامی کا بنیادی حصہ تھا جس میں قاضی حسین احمد، پروفیسر غفور احمد،
مولانا فضل الرحمن، نواز شریف اور دیگر بھی شامل تھے۔ یہ متفقہ فیصلہ تھا
جس میں چیف آرف آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ، صدر اسحاق خان، حمید گل اور وہ
خود (بریگیڈیر امتیاز احمد ) شامل تھے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پیسہ
ایوان صدر سے آیا تھا یہ پیسہ آئی جے آئی کی تشہیری مہم کے لیے تھا۔ اس کی
تقسیم کیلیے مرکزی کمیٹی بنائی گئی جس میں جماعت اسلامی، ملک نعیم حسن اور
جے یو آئی کے رہنما سمیع الحق شامل تھے۔ |