نواب اکبر بگٹی جنہیں موت پر بھی اختیار رہا - پارٹ ٣

سردار مری و سردار مینگل کی جگہ جن لوگوں کو حکومت نے پگڑی پہنائی- ان کے اپنے قبیلے کے لوگوں نے انہیں قتل کیا- نواب بگٹی کی جگہ ایک چھ رکنی کونسل تشکیل دی گئی جو قبائلی معاملات چلاتا تھا لیکن اس کونسل کے پانچ رکن قتل کئے گئے اس طرح سرکار اپنی تمام تر بربریت و چالاکیوں کے باوجود کسی بھی میدان میں کامیاب نہ ہوسکی اور قبائل کے درمیان ان “سیاسی“ سرداروں کو غیر مؤثر نہ کرسکی اور نہ ہی بلوچستان میں یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب ہوسکی کہ یہ سردار اپنی سرداری بچانے کیلئے لڑرہے ہیں اس کا اندازہ بعد میں نیب کے پیلٹ فارم سے ان رہنماؤں کی کامیابی سے لگایا جاسکتا ہے گویا اسلام آباد کے ساتھ مزاحمت نے ان کی شخصیت کو مزید چار چاند لگا دیئے تھے-

انتہائی بے سروسامانی کے باوجود تقریباً نو سال تک بلوچ مزاحمت کرتے رہے- ایوب خان کی شکل میں اسلام آباد نے تیسرا آپریشن اس لئے شروع کیا، کیونکہ نواب نوروز خان کے ساتھیوں کی شہادت نے بلوچستان میں اسلام آباد کے خلاف شدید نفرت پیدا کی تھی، چنانچہ سیاسی طور پر یہی تین سردار بلوچستان کے بارے میں پختہ فکر رکھتے ہیں اس لیے انہیں سرداری سے ہٹانے کے بہانے آپریشن کا آغاز کیا گیا تاکہ وہ سیاسی طور پر پورے بلوچستان کو اسلام آباد کے خلاف منظم نہ کرسکیں-

چوتھا آپریشن بھی اس وقت شروع کیا گیا جب بلوچ قیادت نے اسلام آباد سے زیادہ اختیارات کا تقاضا کیا اور اپنی سرزمین پر نئی آبادکاری کے جیسے منصوبوں کی مخالفت کی-

آخری معرکہ : پانچواں آپریشن“ ڈاکٹر شازیہ خالد“ ریپ کیس یا اور بہانے اپنی اہمیت ضرور رکھتے ہیں- لیکن یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تاکہ نواب اکبر بگٹی شہید سمیت جو بھی اٹھے گا اسے ٹھکانے لگایا جاسکے اور بلوچستان میں بلوچوں کی حاکمیت کا قصہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا جائے، کیونکہ پاکستان اپنی ایٹمی قوت کے گھمنڈ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہید بگٹی اور شہید کمانڈر بالاچ مری اور آپ کے سرمچار اس حد تک مزاحمت کرسکتے ہیں- اسلام آباد والوں کو علم نہیں تھا کہ پورا بلوچستان ان کم خریدو زر خرید سرکاری سردار، نواب و سیاسی سربراہوں کا نہیں جو پاکستان کی چمچہ گیری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ہمیشہ آمادہ نظر آتے ہیں، بلکہ ان سے ہٹ کر بھی ایک باشعور بلوچستان ہے، جو ان کی نظروں سے اوجھل ہے- ماضی کی طرح اس بار بھی جس طرح بلوچ کیلئے مزاحمت لازمی تھی اسی طرح پاکستان کو بلوچستان کے وسائل کو فوری طور پر نکالنے اور ٹھکانے لگانے کی ضرورت تھی- ایٹم بم بنانے کے باوجود یہ ملک آٹا، گھی، شکر کے بحرانوں سے دائمی دوچار ہے یہ ملک خیراتوں پر پل رہا ہے اسے اس گہری کھائی سے صرف اور صرف بلوچستان کے وسائل نکال سکتے ہیں- لہٰذا صدر مشرف نے ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت بلوچستان کو ہمیشہ کیلئے بلوچوں سے چھیننے کیلئے انتہائی عیاری سے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر “ گوادر ڈی سی پورٹ“ کی تعمیر کا کام شروع کردیا- اس منصوبے کے تحت افغانستان کے راستے وسط ایشیاء کے ممالک تک ریل اور روڈ کے راستے کھولنے تھے- اس طرح ترکمستان کی گیس افغانستان کے راستے پائپ لائنز کے زریعے بلوچستان اور چین و ہند تک لے جانے کا کھربوں ڈالروں کا منصوبہ تھا یہ اس بڑے منصوبے کی ظاہری صورت تھی اصل میں وہ کھربوں ڈالروں کی چمک دمک اور بلوچوں کی تقدیر بدلنے کے شور کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے طور پر استعمال کر کے اس منصوبے کو کامیاب دیکھنا چاہتا تھا، جس کی تکمیل کا خواب پاکستان کے ہر حکمران نے اپنے دور حکومت میں دیکھا ہے- یہ وہی پروگرام تھا جو ذوالفقار بھٹو تمام تر عیاریوں کے باوجود پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا تھا- اب اس پروجیکٹ کی خوشی میں بلوچ ( اگر نہیں سمجھتا ہے) پاگل ہوکر خود اپنی زمین بیچے گا اور اس وقتی کاروباری ریل پیل میں اسلام آباد بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے جہاں تیل و گیس دستیاب ہے انہیں نکالنا شروع کرے گا اس طرح بلوچ اپنی زمین بیچ کر خود اپنے آپ کو بے دخل کرے گا- رہی سہی کسر نئے چھ سات ملین آباد کار پورا کریں گے جنہیں پاکستان سرکار گوادر منصوبے کو کامیاب کرنے کے نام پر یہاں لاکر آباد کرے گی- یہ منصوبہ بلوچ قوم کی قومی پہچان و ہزاروں سالہ تاریخ کے تابوت پر آخری کیل تھی جسے پاکستانی حکمران ٹھوکنا چاہتے تھے- اس تناظر میں پہاڑوں کا رخ کرنے سے پہلے نواب صاحب نے اپنا تاریخی جملہ “مرگ یا مڑگ“ کہا تھا ڈاکٹر شازیہ کیس میں کسی “کیپٹن حماد“ کے بارے میں صدر کا بیان خود اس بات کی دلیل تھی کہ وہ پورے بلوچستان کو ڈاکٹر شازیہ کی طرح برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں- جس میں غیرت ہے سامنے آئے- نہیں تو ایک ملک جہاں اس کے بانی کی گاڑی میں ہسپتال تک پہنچنے کیلئے تیل نہ ڈالی گئی تاکہ محمد علی جناح راستے میں دم توڑ دے اس کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ہزاروں ہجوم کے درمیان قتل کیا گیا، جہاں پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا جہاں چیف مارشل لاء کو ہوا میں اڑایا گیا وہاں ایک کیپٹن کو سزا دینا کونسی بات تھی-

اسلام آباد کے فوجی جانتے تھے کہ اگر اس کیپٹن کو ہزار دفعہ پھانسی دے دیں تب بھی بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلوچستان کے بار بار اٹھنے کا ایک ہی مقصد ہے، جسے وہ غلامی سے چھٹکارہ کہتے ہیں جب تک بلوچ مکمل طور پر غلامی پر رضامند نہیں ہوگا اس وقت انہیں سرکوب کرنے کے لیے یہ آپریشنز کرنے پڑیں گے-
Baloch Voice
About the Author: Baloch Voice Read More Articles by Baloch Voice: 13 Articles with 14630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.