سیاسی جنگل میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شیر بڑے اہتمام کے
ساتھ کسی خونخوارچیتے کے کچھار میں داخل ہو اور وہاں اس کا سابقہ گیدڑ سے
پیش آجائے۔کیجریوال نے ساری دنیا پرچیتے کی کھال میں چھپے ہوئے گیدڑ کا
راز فاش کردیا۔آگے چل کرالیکشن کا نتائج جو بھی نکلیں لیکن فی الحال یہ
حقیقت ہےکہ اپنے گجرات دورے کے دوران اروند کیجریوال نے نریندرمودی کو
ذرائع ابلاغ کےدنگل سے ناک آؤٹ کرکے باہر پھینک دیا ہے۔کسی بھی کھیل کے
مقابلے میں میزبان کی کامیابی سے زیادہ اہمیت مہمان کو حاصل ہونے والی فتح
کی ہوتی ہے۔ممبئی کی زبان میں اسے گھر میں گھس کر مارنا کہا جاتا ہےایسا ہی
کچھ اس دورے میں ہوا۔ مودی کے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ اکشر دھام
مندر پر حملے کے وقت بھی اس کے اپنے گھر کے سامنے ہونے والی پولس کارروائی
کئی گھنٹوں تک ساری دنیامیں نشر ہوتی رہی لیکن مودی گھر میں دبکا بیٹھا رہا
جب سب کچھ ختم ہوگیا تووہ باہر آیا ۔ ایسے میں کیجریوال کا بیان کہ میں
کوئی دہشت گرد تو نہیں ہوں جو مودی مجھ سے ملنے سے کترائیں نہایت معنیٰ خیز
ہو جاتا ہے۔
یہ مسئلہ مودی کا نہیں سنگھ پریوار اور بی جے پی کا ہے کہ وہ نازک صورتحال
کا بروقت مقابلہ نہیں کرپاتی اور بعد میں کبھی اس پر پچھتاتی ہے تو کبھی
الٹا اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ ماضی میں اس کی تین بڑی مثالیں سامنےآچکی ہیں
۔ بابری مسجدکی شہادت کے وقت یہ اپنے دہشت گردوں کو مشتعل کرکےوہ ایودھیا
لے آئے اور ان کوقابو میں نہ رکھ سکے جس کا فائدہ نرسمھا راؤ نے اٹھا
لیا۔ اس کے بعد اڈوانی کو خود ٹائمز میں مضمون لکھ کر اپنی ناکامی کا
اعتراف کرنا پڑا ۔ اس کے برخلاف مودی نے سابرمتی ایکسپریس میں لگنے والی
آگ کا فائدہ اٹھا کر فسادات بھڑکائے اور اس کا سیاسی فائدہ خود حاصل
کرلیا۔ سہراب الدین کو قتل کرکے اس پر بھی اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں لیکن
اب وہی تمغے اس کی پیشانی پر کلنک بنے ہوئے ہیں ۔ بی جے پی اپنی سب سے بڑی
کمزوری کا ثبوت اس وقت دیا جب ائیر انڈیاکا جہاز کا اغواء ہوگیا ۔ وہ جہاز
ایندھن لینے کیلئے امرتسر اترا اس کے باوجود بی جے پی کی مرکزی و ریاستی
حکومتیں اسے اڑنے سے روک نہیں سکیں۔ اوراس کے بعد یرغمالوں کو چھڑانے کیلئے
وزیرخارجہ جسونت سنگھ کو بھیجنے کی فاش غلطی ان سے سرزد ہوئی جس کی چنداں
ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو خیر اٹل جی تھے جو جسونت کو روانہ کرکے مطمئن ہوگئے
اگر مودی ہوتا تو ہاتھ جوڑ کر خود پہنچ جاتا ۔
گجرات جانے سے قبل کیجریوال نے اتر پردش کا دورہ کیا تھا اور جب وہ کانپور
پہنچے تو مودی کی لکھنؤ میں اور ملائم کی الہ باد میں ریلی تھی حقیقت یہ
ہے کہ اپنے بلند بانگ دعووں کے سبب جہاں لکھنؤ کا جلسہ ناکام رہا وہیں الہ
باد کی ریلی کامیاب رہی اروند کیجریوال اس دورےمیں کوئی خاص اثر مرتب نہیں
کرسکے اس کے برعکس گجرات میں صورتحال یکسربدل گئی۔ ایسا کیوں ہوا یہ سمجھنا
ضروری ہے؟ مودی اور ملائم ہندوستانی سیاست کے روایتی کھلاڑی ہیں اور
کیجریوال کی یاترا بھی روایتی قسم کی تھی اس لئے کیجریوال اس کھیل میں
انہیں ہرا نہیں سکے لیکن گجرات کا دورہ نہایت غیر روایتی قسم کا تھا اور اس
متبادل طریقۂ کار میں فی الحال ہندوستانی سیاست کے اندر اروندکیجریوال کا
کوئی ثانی نہیں ہے۔ کیجریوال اگر کوئی یاترا لے کر یامختلف شہروں میں جلسوں
کا منصوبہ بنا کر گجرات جاتے تو اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو یوپی میں ان کی
مہم کاہوا تھا لیکن اس بار انہوں نے اعلان کیا کہ میں ایک مطالعاتی سفر
پریہ جانچنے کیلئے گجرات جارہا ہوں کہ مودی کے ترقیاتی دعوے کس حد تک درست
ہیں ۔
ہندوستانی سیاستدان فی الحال ایسی کسی مشق میں دلچسپی نہیں رکھتے اس لئے
دورے کے مقصد کی ندرت نے ذرائع ابلاغ کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اروند
کیجریوال کے نزدیک ترقی کا اپنا مخصوص معروضی نقطۂ نظر ہے۔وہ عوامی فلاح و
بہبود کو روایتی اعدادو شمار کے پیمانے پر نہیں پرکھتے بلکہ اس بابت
بدعنوانی، بنیادی عوامی سہولیات مثلاً تعلیم و صحت کی سہولیات کا فقدان ،
کسان ، ان کی زمینوں کا معاوضہ، ان کے اندر خودکشی کے واقعات، نوجوان اوران
کی بیروزگاری، چھوٹی صنعتوں کا بند ہونا، ماہی گیر، نمک بنانے والے غریب
لوگ اور ان کے مسائل وغیرہ کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان موضوعات پر روایتی انداز
میں ٹسوے بہانے کے بجائے وہ منتخب بستیوں میں پہنچ گئے اور لوگوں سے ان کی
حالت زار دریافت کرنے لگے چونکہ ذرائع ابلاغ ان کا پیچھا کررہا تھا اس نے
انہیں نشر کرنا شروع کردیا اور مودی کی قلعی کھلنے لگی ۔ اس مقصد کیلئے خاص
طور پر ایسے علاقوں کا انتخاب کیا گیا تھاجو اس کسوٹی پر بری طرح پسماندہ
ہیں اس لئے مودی کے غباروں سے ایک ایک کر کے ہوا نکلنی شروع ہوگئی مودی کا
سارا زور چونکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خوش فہمی پیدا کرکے اپنی شخصیت کا
لوہا منوانے پر ہے اس لئے وہ گھبرا گیا اور ڈرانے دھمکانے کی اپنی فطرت پر
لوٹ آیا لیکن یہ چال الٹی پڑی اور کیجریوال کی گرفتاری بریکنگ نیوز بن گئی
۔ اور تو اور بی جے پی کے دہلی و لکھنؤ کے دفاتر پر عام آدمی پارٹی کے
کارکنا ن جھاڑو لے کر پہنچ گئے ۔ بی جے پی کے غنڈوں نے ان پر حملہ کرکے
مزید کام بگاڑ دیا ۔ اس ہنگامے نے اروند کیجریوال کو پھر ایک بار میڈیا کا
بے تاج بادشاہ بنا دیا۔
مودی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے کیجریوال کو رہا کروادیا۔پولس کا
کہنا کہ ہم نے کیجریوال کوگرفتار نہیں کیا بلکہ انہیں روک کر الیکشن کمیشن
کا ضابطۂ اخلاق سمجھا رہے تھے اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے۔ گجرات کی
بدنام زمانہ پولس فورس جس کے آدھے درجن افسران قتل و غارتگری کے سنگین
الزامات میں جیل کی چکی پیس رہے ہیں کسی سابق آئی اے ایس افسر کو ضابطۂ
اخلاق سکھلائیں اس سے مضحکہ خیز بات اور نہیں ہو سکتی ۔ اجازت نامے کے بغیر
لاؤڈ اسپیکرکا استعمال والا الزام بھی بے بنیاد نکلا لیکن اروند کیجریوال
کا ماسٹر اسٹروک ابھی باقی تھا اور جب وہ سامنے آیا تو مودی کے ہاتھ سے
طوطے اڑ گئے ۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ سلمان خان کے پتنگ بازی کیلئے جس
وزیراعلیٰ کے پاس وقت ہے اس کے پاس ایک سابق وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات کی
فرصت نہیں ۔مودی نے محسوس کرلیا کہ جس طرح سلمان کی فلم فلاپ ہوگئی اسی طرح
کیجریوال سے اس ملاقات کے بعداس کی اپنی پتنگ بھی ’’ کائی پو
چھے‘‘ہوجائیگی(یعنی کٹ جائیگی)۔
نریندر مودی جب سےبی جے پی پر وزیراعظم کا امیدوار بن کر مسلط ہواہے اس وقت
سے اس کی دلچسپی گجرات میں ختم ہوگئی ہے اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو ہندوستان
کا وزیراعظم سمجھنے لگا ہے ۔ ایسے میں گاندھی نگر میں قیام کے باوجود مودی
کا اپنے پاس چل کر آنے والے مہمان سے ملاقات کرنے سے انکار کردینا اس کے
احساسِ کمتری کی دلیل ہے ۔ پچھلے دنوں امریکی سفیر سے ملاقات کے سبب خبروں
میں رہنے والے نریندر مودی کو اروند کیجریوال نے اس کے دروازے پر دستک دے
کر بوکھلاہٹ کا شکار کردیا۔ اروند کیجریوال کو پانچ کلومیٹر دور روک دیا
گیااور باقائدہ وقت لے کر حاضری دینے کیلئے کہا گیا۔ وقت لینے کیلئے منیش
سسودیہ جب مودی کے دفتر میں پہنچے تو اس کے سکریٹری نے نہ صرف اس وقت بلکہ
آئندہ چار دنوں تک مصروف ہونے کا بہانہ بنا دیا ۔ اب نریندرمودی کو کون
سمجھائے کہ جس ہندوتوا کا وہ علمبردار ہے اس میں ’’اتیتھی دیو بھوو‘‘ کا
مسلمہ اصول ہے ۔
مودی کی چائے کے چرچے فی الحال ہندوستان کی حدود سے نکل کر امریکہ اور
یوروپ تک پہنچ گئے ہیں ۔ اس کی ابتداء کچھ اس طرح ہوئی کہ کسی احمق
کانگریسی نے کہہ دیا ایک چائے بیچنے والا ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔
پھر کیا تھا مودی کا موقع مل گیا اس نے پہلے تو اپنے تقریر میں اعلان کیا
میں چائے بیچتا تھا دیش نہیں گویا کانگریسی قوم فروش ہیں لیکن معاملہ یہیں
پر نہیں رکا بلکہ اس کے بعد ملک بھر میں ’نامو‘ نامی چائے کی دکانیں کھل
گئیں اور چائے پر چرچا شروع ہوگئی ۔ اس چرچا میں ٹی وی چینلس کے ذریعہ کئے
جانے والے مصنوعی جائزوں پر گفتگو ہوتی ہے اوریہ طے کیا جاتا ہے کہ مودی
کووزیراعظم بنانے کیلئے کیا کیا جائے ؟ اس سوال کے نت نئے جواب آئے دن
ایجاد کئےجاتے ہیں اور خیالی پلاؤ بنائے جاتے ہیں لیکن جب گجرات کے نہایت
سنگین اور سنجیدہ مسائل پر چرچا کرنے کیلئے اروند کیجریوال نے مودی کو دعوت
دی تو اچانک اس کی چائے پھیکی اور سرد ہوگئی۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ گاندھی
جی نے لوگوں کو اپنی ٹوپی پہنا کر خود اسےپھینک دی۔ گجرات میں سب مشہور
چائے کی پتی کا برا نڈ ’واگھ بکری ‘چائے ہے ۔ کیجریوال کے ساتھ چائے نوشی
سے انکار کرکے مودی نے خود ظاہر کردیا کہ ان دونوں میں شیر کون ہے اورکون
بکری ہے ؟
مودی کی بزدلی اور راہِ فرار کی مثالیں اس سے قبل بھی سامنے آچکی ہیں
مثلاً اس نے ایک بار کہا تھا کشمیر کے متعلق دستور کی دفع ۳۷۰ پر قومی سطح
پرعوامی مباحثہ ہونا چاہئے۔ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے اس
تجویز کی تائید کی اور مودی کو پیشکش کی کہ وہ کسی بھی وقت اس موضوع پر بحث
کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ اس کے بعد نریندر مودی کو سانپ سونگھ گیا اور خاموشی
سے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ جب راہل گاندھی کو نریندر مودی نے کھلے مباحثے کی
دعوت دی تو اس کے جواب میں مرکزی وزیر کپیل سبل نے مودی کواس کی اپنی
دلچسپی کےموضوع پر مباحثے کیلئے بلایا اس پیشکش کو بھی مودی قبول نہیں
کرسکا ۔ اس کی وجہ مودی کی معلوماتِ عامہ کی کمی ہے جس کے سبب وہ کبھی سکند
اعظم کو بہار پہنچا دیتا ہے تو کبھی بھگت سنگھ کو انڈمان روانہ کردیتا ہے ۔
مودی کو وزیراعظم بنانے کا ٹھیکہ جس امریکی کمپنی کو دیا گیا ہے اسے ٹی
پارٹی کا اچھا خاصہ تجربہ ہے اس لئےممکن ہےاسی نے چائے پر چرچا کا آئیڈیا
دیا ہو۔ امریکہ میں ٹی پارٹی کے نام سے قائم ہونے والی ایک نیم سیاسی تحریک
چائے کی پیالی میں انقلاب لانے کی ناکام کوشش کرچکی ہے ۔ سنا ہے مودی نے
اسی امریکی عوامی رابطے کی کمپنی کو اپنے پروپگنڈے کا کام سونپ رکھا ہے جو
دو مرتبہ براک اوبامہ کو صدر منتخب ہونے سے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے کوئی
بعید نہیں ہے اس بار اس کی حماقتوں کے سبب اروند کیجریوال کو ہندوستان کا
وزیر اعظم بن جائے اس لئے کہ تیسرے محاذ میں جس کی نشستیں سب سے زیادہ ہوں
گی اس کا رہنما وزیراعظم بنے گا ۔ ایسے میں اگر عام آدمی پارٹی کو ۵۰
نشستیں حاصل ہو جائیں تو اس کا رہنما اپنے آپ وزارتِ عظمیٰ کا سب سے
طاقتور دعویدار ہو جائیگا۔
کیجریوال نریندر مودی سے گجرات کی ترقی کے حوالےجو ۱۶ سوالات کئے ان میں سب
سے اہم مندرجہ ذیل ہیں:
حال میں ۸۰۰ کسان خود کشی کیلئے کیوں مجبور ہوئے؟ بجلی کے کنکشن کے لئے ۴
لاکھ کسانوں نے کئی سال سے پریشان کیوں ہیں؟کوڑیوں کے بھاو میں ان کی زمین
ہتھیا کرامبانی جیسے سرمایہ داروں کو سستے داموں پر کیوں دی جارہی ہے ۔
کیجریوال نے مودی کو امبانی ، اڈانی اور ٹاٹا کا پراپرٹی ایجنٹ قرار دے
دیا۔ کچچھ کے کسانوں کو ان کی زمین سے نکالنے کے لئے سپریم کورٹ میں کیس
کیوں درج کیا گیا؟زرعی پیداوار میں کمی کے چلتے زراعت کی شرح اضافہ کا
دعویٰ کیونکر درست ہے ؟کچھ کے لوگوں کو پانی کیوں نہیں مل رہا ہے؟بدعنوانی
عام کیوں ہے؟ امبانی کے داماد کو وزیر کیوں بنایا گیا؟ نوجوانوں کو ٹھیکے
کی نوکری پر رکھ کر استحصال کیوں کیا جا رہا ہے؟گجرات کے اسکولوں کا برا
حال کیوں ہے؟گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کو کیوں بند کیا جارہاہے؟یہ سوالات
مودی کے دعووں کوسفید جھوٹ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔
نریندر مودی نے کسی زمانے میں اپناسینہ ٹھونک کر کہا تھا’۵۶ انچ کا
سینہ‘پچھلے دنوں راہل گاندھی نے اس کا جواب یوں دیا کہ ہمیں ۵۶ انچ کا سینہ
نہیں بلکہ اس کے اندر کشادہ دل کی ضرورت ہے ۔راہل کا اشارہ تو لوگ سمجھ گئے
لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ مودی کا دل تنگ ہے ۔ نریندر مودی کے دل کی
تنگی پر کیجریوال کے ساتھ اختیار کئے جانے والے رویہ نے مہر ثبت کردی اس
لئے راہل کو مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ویسے بی جے پی فی الحال عام
آدمی پارٹی کے اقدامات سے اس قدر بوکھلائی ہوئی کہ جواب دینے کے بجائے
معذوربچے کی طرح شکایت لے کر الیکشن کمیشن کے دروازے پر پہنچ گئی ۔ذرائع
ابلاغ اس کے پاس ہر سوال ایک ہی جواب ہے کہ عام آدمی پارٹی کانگریس کی
ایجنٹ ہے اور کانگریس نے اسے مودی کوروکنے کیلئے میدان میں اتارا ہے
حالانکہ راہل کے بہنوئی واڈرد کی بدعنوانی کو بی جے پی نے نہیں بلکہ عاپ نے
افشاء کیا۔ سلمان خورشید کے خلاف عاپ نے محاذ کھولا اور شیلادکشت کو عاپ نے
ہرایا جبکہ بی جے پی ان کے خلاف کمزور امیدوار کھڑا کرتی رہی ۔اسی لئے شاید
کانگریس کے رہنما یوسف ابراہانی نے ممبئی میں اعلان کردیا کہ عاپ کو دیا
جانے والا ہر ووٹ دراصل بی جے پی کیلئے ہے ۔
مندرجہ بالا بیانات کی روشنی کانگریس اور بی جے پی کےدرمیان عاپ کے حوالے
سے بلا کی یکسانیت نظر آتی ہے ایسے میں عام آدمی پارٹی کا دعویٰ کہ
کانگریس اور بی جےپی دونوں مکیش امبانی اور ان جیسے سرمایہ داروں کے مہرے
ہونے کے سبب یکساں ہیں زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ان دونوں
جماعتوں کے رہنماؤں میں ایک مشترک چیز یہ بھی ہے کہ راہل اور مودی دونوں
لکھی لکھائی تقریر کرنے میں ماہر ہیں ۔ ان دونوں کے اندر حاضر دماغی اور
برجستگی کا زبردست فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ راہل تو کبھی کبھار اخبار نویسوں
کے ساتھ بھی گفتگو بھی کرلیتے ہیں لیکن مودی نہ کبھی کسی مباحثے میں شریک
ہوتا ہے اور نہ کسی اخبار یا ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتا ہے ایک مرتبہ ٹائم
سے گفتگو کرتے ہوئے گاڑی کے نیچے کتے کے مرنے کی مثال اسے مہنگی پڑ چکی ہے
۔ مودی کو رٹے رٹائے مکالمات کو فلمی انداز میں بیان کرنے کا فن خوب آتا
ہے اور اسی کے سبب وہ اپنے جلسوں اور ان کی رپورٹنگ کے سبب ذرائع ابلاغ پر
چھایا رہتا ہے ۔
نریندر مودی کا ایک سنگین مسئلہیہ بھی ہے کہ اس بیچارے وزارتِ عظمیٰ کے
امیدوار کو گجرات کے اندر اور باہر کوئی محٖفوظ نشست نہیں مل رہی ہے گاندھی
نگر پر اڈوانی جی سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جب بی جے پی والوں نے بنارس
کی نشست سے مودی کو لڑانے کی چرچا شروع کیا تو اچانک ۸۰ سالہ مرلی منوہر
جوشی خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ۔ انہوں نے سارے شہر میں اپنے پوسٹر
لگوادئیے ۔ اپنے نئے دفتر کا افتتاح کردیا اور اپنی تعریف و توصیف میں لکھی
گئی ایک کتاب کا اجراء بھی اپنی اہلیہ سے کروادیا۔ اڈوانی اورسشما کے بعد
اب جوشی نے بھی ناراضگی کا بگل بجا دیا ہے لیکن ڈاکٹر جوشی کو ہوشیار رہنا
چاہئے اس لئے کہ فی الحال یوپی کی بی جے پی کانگراں امیت شاہ ہے اور کسی
ونجارہ کی مدد سے ڈاکٹر جوشی کا بھی وہی حشر کرسکتا ہے جو سہراب الدین اور
عشرت جہاں کا کیا گیا۔عاپ نے اول تو یہ اعلان کیا کہ مودی گجرات کے باہر
جہاں سے بھی الیکشن لڑے کیجریوال اس کے سامنے امیدوار ہوگا اور اب
احمدآباد میں یہ نعرہ لگایا ہےکہ ’’شیلا دکشت ہاری ہے اب مودی کی باری
ہے‘‘۔ اس نعرے کے بعد بھی اگر ارون جیٹلی اپنے بیان میں مودی کی حمایت کرتے
ہوئےاروند کیجریوال کو باؤلا کہتے ہیں تو ان سے بڑا نادان کوئی اور نہیں
ہوسکتا۔
|