ہمارے مسائل

جب سے شعور کی آنکھیں کھولی ہیں تب سے پاکستان کو مسائل میں گھرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ مگر انکو حل کرنے کی طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ ہر الیکشن کے بعد ایک مداری ہم پر مسلط ہو جاتا ہے جو مسا ئل کی گردان کو دہرا کر اور اپنی جیب کو بھر کر چلا جاتا ہے۔ اگلے الیکشن میں اسکی پارٹی کچھ سالوں کے لیے پاور سے آوٹ ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سے اگلی باری پھر انھی کی لگ جاتی ہے۔ بچپن سے ہی انھی چہروں کو حکومت کے سنگھاسن پر براجمان دیکھ رہا ہوں۔ پنجاب میں شریفوں کی پانچویں اور وفاق میں تیسری باری ہے۔ ایسا ہی حال سندھ میں روٹی کپڑا اور مکان والوں کا ہے۔ میں نے عقل و خرد کے بہت گھوڑے دوڑائے مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر میری قوم انکو بار بار منتخب کر کے ان سے نکالنا کیا چاہتی ہے ؟ حالانکہ یہ طے شدہ اور ایک مسلمہ حقیقت و اصول ہےکہ ایک ہی طرح کا تجربہ سو بار بھی کریں تو نتیجہ مختلف نہیں نکل سکتا۔ لیکن جب ان سے سوال انکی ڈلیورنس اور کارکردگی کا کیا جاتا ہے تو مارشلاؤں اور جمہوریت کے نا پختہ ہونے کا رونا رو کر اور بے شرمی و ڈھٹائی سے لب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چونکہ چنانچہ اس مللک میں کافی سال مارشلاء رہے ہیں جن کی وجہ سے جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی اور ناپختہ رہی۔ ابھی جمہوریت کی دوشیزہ نابالغ تھی تو ملک تباہی کے دھانے پہ کھڑا سسک رہا ہے اور اگر فوج اور ڈکٹیٹر نہ ہوتے اور جمہوریت نام نہاد پوری آب و تاب سے چمکتی َ، اور اسکی پختگی و جولانی نصف النہار پہ ہوتی تو سوچیں مللک کا کیا حال ہوتا ، میرے ملک کے ہونہار حاجی و شریف ، زرداری و مزاری ، گیلانی و مخدوم اس ملک کی در ودیوار اور اینٹوں تک کو بیچ کھاتے۔ مجھے سب قسم کے آمروں سے نفرت ہے خواہ وہ آرمی وردی میں ہو یا اچکن و شیروانی میں ہو۔ اور میں ایک جمہوری فہم رکھتا ہوں اور صحیح جموریت کا معترف بھی ہوں۔ لیکن پاکستان میں تو نام نہاد جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی آمریت ہم پر مسلط ہے۔ آپکی نام نہاد جمہوریت کی کارکردگی اتنی شاندار اور بیمثال ہے کہ جمہور یعنی عوام دن رات آپکو بددعائیں ٹی سی ایس کر رہے ہیں اور ایک آمر پرویز مشرف کے دور کو یاد کر کے مشرف کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کے قصیدے پڑھنے والے کرائے کے دانشوروں کی خدمت عالیہ میں گذارش ہے کہ آئین کے آرٹیکلز کی گتھیوں سے عام آدمی کو کوئی غرض نہیں اور نہ اسکو اس میں الجھنے سے کوئی غرض وغایت ہے۔ ان آئینی گتھیوں میں آپ الجھیں کیونکہ آپ کا پیٹ تو بھرا ہے، لاکھوں میں آپکی تنخواہیں ہیں ، آپکا حق بنتا ہے کہ آپ کہیں کہ بد ترین جمہوریت بہترین آمریت ہے۔ آپکو جناب اس نام نہاد جمہوریت نے بہت نوازا ہے، اس جمہوریت نے اگر نہیں دیا تو غریب کو کچھ نہیں دیا۔ آپ میڈیا والوں کے لیے تو اس جمہوریت نے سیکرٹ فنڈ بھی رکھا ہے ، غریب کے لیے اس جمہوریت کا دامن خالی ہے۔ آپ جناب اس جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں، آپ نے تو قصیدے پڑھنے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں نا کہ جو جسکا کھاتا ہے اسی کا گاتا ہے۔اب آخر میں جمہوریت کے ٹھیکداروں سے ایک سوال کہ جناب جمہوریت کی نرسری اور بنیاد بلدیاتی انتخابات کو مانا اور سمجھا جاتا ہے، بلدیاتی انتخاب آخری بار کب ہوے تھے، یقینا‘‘ آپکا جواب ہو گا کہ مشرف دور میں تو پچھلے پانچ سال اور موجودہ جمہوری دور میں کیوں نہیں ہوئے ؟ بلدیاتی انتخاب کروائے بھی تو ایک آمر نے کتنی شرمناک بات ہے۔ میں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ شرمناک غیر پارلیمانی نہیں اسکے معنی نامناسب کے ہیں حوالے وریفرنس کے طور پر عمرآن اللغات دیکھ سکتے ہیں۔ سارے آرٹیکل سے نتیجہ یہ نکلا کہ آمریت و جمہوریت عام آدمی کے مسائل حل نہ کر سکیں کیونکہ انکی تجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ آمر اور سیاستدان عوام کے لیے اقتدار میں نہیں آتے۔ انکے ٹارگٹ اور مشن کچھ اور ہوتے ہیں ۔ جس دن یہ عوام کی خدمت و فلاح کے لیئے اقتدار میں آئے تو مجھے کامل یقین ہے کہ نا صرف ہمارے مسائل حل ہوں گے بلکہ اقوام عالم میں بھی ہمارا باعزت و باوقار مقام ہو گا۔ پیوستہء رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172304 views System analyst, writer. .. View More