صحرائے تھرمیں بچے مرئے تو روٹی ملی

 کافی عرصہ ہوا ایک ترک افسانے کا اردو ترجمہ پڑھا تھا جو آج قحط زدہ صحرائےتھر کے حالات دیکھ کر یاد آگیا، افسانہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گذاررہا تھا۔ گھر کا سربراہ بیمار ہوا تو جو جمع پونجی تھی وہ اُسکے علاج معالجے پر لگ گی مگر وہ بچ نہ سکا اورایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی تلاش کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخارمیں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہیں تھا، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی:۔
اماں بھائی کب مرے گا؟۔
ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا، میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟۔
بچی معصومیت سے بولی: "ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں"۔

دو ہزار آٹھ سے 2013ء تک مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سپریم کورٹ نےسندھ کی قائم علی شاہ حکومت کو نا اہل قرار دیاتھا، اگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہوتی تو شاید سندھ میں گورنر راج آجاتا۔ بدنصیبی سے سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی پانچ سالہ بری کارگردگی کے باوجود دوبارہ سندھ میں برسراقتدار ہے اورقائم علی شاہ ہی وزیراعلی ہیں۔ قائم علی شاہ کی گذشتہ 5سال میں جو کارکردگی رہی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ کسی چھوٹے سے شہر کےلیے بھی کچھ نہیں کیا، صرف لوٹ مار اور اقرباپروری میں مصروف قائم علی شاہ کی حکومت ہر شعبہ میں ناکام رہی ہے۔ امن و امان کی صورتحال بدترین ہے، اسٹریٹ کرائم، ٹارگٹ کِلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور کرپشن عام ہے۔ رشوت لے کر نوکریاں دی جاتی ہیں ، لہذا کارکردگی صفر ہے، مگر سندھ کے لوگوں کی بدنصیبی کہ ابھی تک ذوالفقارعلی بھٹو اوربینظیر بھٹو کے نام پر نام نہاد پیپلز پارٹی نے پورئے سندھ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آصف زرداری کے سپوت اور پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلی بلاول کی سرپرستی میں یکم فروری سے آٹھ فروری تک سندھ کلچرل فیسٹول منایا گیا جس میں سندھ حکومت نے کڑوڑوں روپےخرچ کیے۔ اس فیسٹول کے افتتاح سے صرف ایک دن پہلے سندھ کےایک حصےصحرائے تھرمیں وزیر اعظم محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 31 جنوری 2014ء کو 1.6 ارب ڈالر کے تھر کول منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ تھر کول میں 175 ارب ٹن سے زائد کے کوئلے کے ذخائر وجود ہیں اور یہ مقدار سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مشترکہ ذخائر سے زیادہ ہے۔تحقیق کے مطابق اگر ان ذخائر کو استعمال کیا جائے تو اس سے 200 سال تک ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سنہرئے مستقبل کا خواب ہے یہ تھر کول منصوبہ، لیکن افسوس جس وقت اس منصوبے کی بنیاد رکھی جارہی تھی اور پھر اگلے آٹھ دن دن تک سندھ کلچرل فیسٹول کے نام پر بلاول کے دوستوں کی مہمان نوازی کی جارہی تھی اور کڑوڑوں روپے خرچ کیے جارہے تھے، ٹھیک اُس وقت صحرائے تھر کے باشندئے مصنوئی قحط سالی کے باعث خوراک اور صاف پانی کی کمی کی وجہ سے بیمار ہوکر موت کی آغوش میں چلے جانے والےاپنے بچوں کو دفنانے میں مصروف تھے اور ابھی تک ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ صحرائے تھر، جہاں انسانی زندگی بارش کی محتاج ہے، ابر رحمت برسے تو جل تھل ایک ہوجاتا ہے، جانوروں کیلئے چارہ بھی دستیاب ہوتا ہے اور انسانوں کو خوراک بھی، مگر دو سال سے بارش نہ ہونے پر تھرپارکر قحط سالی کا شکار ہے۔جانوروں کے بعد بھوک و افلاس نے انسانی زندگیوں کو نگلنا شروع کردیا ہے، حکومت نے تھرپارکر کو آفت زدہ تو قرار دے دیا مگر متاثرین کیلئے مختص گندم محکمہ خوراک کے گوداموں میں سڑ تی رہی۔غذائی قلت کا شکار معصوم بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر دم توڑتے رہے ہیں،ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی کے سرکاری اسپتال میں گزشتہ تین ماہ کے دوران علاج کیلئے لائے گئے بچوں میں سے دسمبر سے ابتک 150 سے زیادہ بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مارچ کے شروع تک نہ تو مرکزی حکومت کو ہوش تھا اور نہ ہی سندھ کی صوبائی حکومت کو لیکن جب میڈیا نے لگاتار اس خبر کو نشر کرنا شروع کیا تو سب جاگ گے، وزیراعظم نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی جو اب تک سو رہی تھی اُسکو ہدایت کی ہے کہ وہ امداد فراہم کرنے کے لیے سندھ اتھارٹی سے رابطہ کرے۔ سندھ حکومت بھی جاگی اور دس کڑوڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا، دس مارچ کو وزیراعظم نوازشریف نے مٹھی کا دورہ کیا، ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا جسکے بارئے اُس وقت ہی شبہ ظاہر کیا گیا کہ اس رقم میں خردبرد ہونے کا اندیشہ ہے۔پاکستان کی تمام این جی اوز بھی پہنچ گی ہیں، ڈالر ایڈ پر چلنے والی این جی اوز کو ڈالر کمانے کا سنہری موقعہ دستیاب ہوا ہے، سیاسی جماعتیں بھی امداد کے نام پر اپنی سیاست چمکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ البتہ کچھ این جی اوز اور کچھ ادارئے واقعی مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اجناس میں خودکفیل ہے، خشک سالی ایک قدرتی عمل ہے جبکہ قحط انسانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے، اسلیے یہ کہنا کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے قطعی غلط ہوگا، سوائے صحرائے تھر کے باقی پورئے ملک میں بارشیں بھی ہوئیں اور اجناس کی پیداوار بھی ہوئی۔یو ایس ایڈ نے قحط کو تباہ کن غذائی بحران قرار دیا ہے جو بڑے پیمانے پر غذائی قلت اور اموات کا باعث ہوتا ہے ۔ حکومت سندھ نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دی کہ تھرپارکر نے خشک سالی سےقحط کی جانب سفر شروع کردیا ہے۔ وفاقی حکومت بھی سمجھنے میں ناکام رہی کہ خشک سالی قحط میں تبدیل ہو رہی ہے ۔ خشک سالی سے قحط تک کافی وقت تھا، مگر حکمراں یا تو سوئے ہوئےتھے یا اپنی کرپشن میں مصروف تھے، یہ ہی وجہ ہے کہ گندم گوداموں میں تو موجود تھی مگرضررورت مند ترستے رہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ فرماتے ہیں کہ تھر میں گندم درست طریقے سے تقسیم نہ ہوسکی جس کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا۔صحرائےتھر میں خشک سالی وقفوں سے بارہا ہوتی رہتی ہے، جوبچے مرئے ہیں یا اب بھی ہسپتالوں میں ہیں اُسکی اصل ذمیدارحکومت سندھ ہے جو اپنی لاپرواہی کی وجہ سے خشک سالی کو قحط میں تبدیل ہونے سے روکنے میں ناکام رہی۔یہ قحط اور اموات سندھ حکومت کی نااہلیت اور کرپشن ہے۔

ترک افسانے کے آخر میں بچی اپنی ماں سے پوچھتی ہے کہ "بھائی کب مرئے گا؟" ۔ اور پھر ماں کے سوال کے جواب میں بچی معصومیت سے بولی: "ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں"۔ ٹھیک اسطرح ہی سپریم کورٹ میں قحط کے اوپر "ازخود نوٹس" کی سماعت کے دوران ایک جج صاحب نے بھی اٹارنی جنرل سے یہ سوال کیا تھا کہ "کتنے بچے مرینگے توآپکی حکومت حرکت میں آئے گی؟"۔ سندھ فیسٹیول کے نام پر ثقافت کا جشن منانے اورکروڑوں روپے اڑانے والی سندھ حکومت کو نہ ہی بلکتے بچوں کی صدائیں سنائی دیں اورنہ ہی ماوٴں کے بہتے ہوئے آنسوں کا اُن پر اثر ہوا، لیکن میڈیا کے شور مچانے اور مرنے والے بچوں کی تعدادمنظر عام پر آنے سے حکومت سندھ حرکت میں آئی، پوری طرح تو اب بھی پریشان حال لوگوں تک امداد نہیں پہنچ پائی ہے، لیکن امداد شروع ہوگی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کے سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ "صحرائے تھر میں بچے مرئے تو روٹی ملی"۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 486233 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More