پرویز مشرف صاحب خصوصی عدالت سے بلی چوہے کا کھیل کھیلنے
میں مگن ہیں۔کبھی عدالت کے روبرو پیش ہونے کی نیت سے چک شہزاد کے عالی شان
فارم ہاؤس سے باہر آ ہی جائیں تو یا فارم ہاؤس کے آس پاس سے بم برآمد
ہوجاتا ہے یا پھر دل آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتا ہے ، کبھی واپس فارم ہاؤس کے
اندر گھس جاتے ہیں تو کبھی ہسپتال کے بستر پر جا پہنچتے ہیں۔ انہیں یقین ہی
نہیں ہوتا کہ آئین پاکستان نامی کتاب کی کسی شک سے انحراف کرنا آئین پامال
کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور غداری بھی قرار پا سکتا ہے! وہ تو اس بات پر
سر جھٹکتے ہوئے مسکرا کر کہتے ہیں کہ جس شخص نے پاکستان کے لئے جنگیں لڑی
ہوں وہ غدار کیسے ہو سکتا ہے۔ یہی وہ اعلی ظرف سوچ ہے جس کے تئیں فوجی
جرنیل اپنے آپ کو باقی ماندہ پاکستان سے ممتاز درجے پر فائز کرتے ہیں۔ یہی
سوچ جرنیلوں کو پاکستان کا مائی باپ بننے کا لائسنس فراہم کرتی ہے۔ پھر
مائی باپ تو مائی باپ ہوتا ہے۔حالانکہ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ قوم کے
لئے جان قربان محض فوج نہیں کرتی بلکہ واپڈا کا وہ لائن مین بھی قوم ہی کے
لئے جان سے گیا تھا جو اسی عوام کے لئے کڑکتی گرمی کے دنوں میں بجلی بحال
کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گیا اور واسا کا وہ اہلکار بھی قوم ہی
کے لئے سیورج کی بند لائینیں کھولتے ہوئے اُنہی سیورج لائینوں کے گندے پانی
میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ ایسے افراد کو نہ ہی تمغوں سے نوازا جاتا ہے ، نہ عزت
و تکریم سے اور نہ ہی ان کے بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کی کوئی گارنٹی دی
جاتی ہے ۔لیکن فوج فوج اور جرنیل جرنیل ہے! ایوب خان کی شکل میں ہو تو ترقی
کے نام پر عوام کے بنیادی و سیاسی حقوق سلب کرتے ہوئے پاکستان کے ٹکڑے کرنے
کی بنیاد رکھتا ہے، یحی خان ہو تو ملک کو یکجا رکھنے کے نام پر ملک توڑنے
کے عمل کی تکمیل کرتا ہے، ضیاء الحق ہو تو اسلام آئزیشن کے نام پر دہشت
گردی، فرقہ واریت، نفرت اور رجعت پسندی کے بیج بوتا ہے ، پرویز مشرف ہو
توسب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک بیچ کر ،ادارے و معیشت تباہ
کر کے گارڈ آف آنر لیتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔
حکومت اور فوج کے درمیان گزشتہ دنوں میں ہونے والی ملاقاتوں میں دہشت گردوں
سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل طے پایا ہو یا نہیں مگر اتنا ضرور ہوگیا کہ
وزارتِ داخلہ کی جانب سے پرویز مشرف کو کالعدم تحریکِ طالبان اور القائدہ
کی جانب سے قتل کر دیے جانے کی تنبیہ جاری کر دی گئی اور وہ حضرت جو پہلے
ہی عدالت نہ آنے کا بہانا ڈھونڈتے رہتے ہیں انہیں عدالت سے دور رہنے کا ایک
اور مضبوط جواز فراہم کر دیا! اس تنیبہ کے بعد چند سوالات سر اٹھاتے ہیں۔
پہلا یہ کہ اگر حکومت کے پاس ایسی مربوط اطلاعات موجود ہیں کہ تحریکِ
طالبان جنگ بندی کے دنوں میں بھی ایسے قتل و غارت کے پلان تشکیل دینے سے
باز نہیں آ رہی تو پھر مذاکرات کیوں جاری رکھے جا رہے ہیں؟ طالبان حمایتی
سیاسی قوتوں سے جا جا کر ملاقاتیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ
اگروزارتِ داخلہ کے لئے عام پاکستانیوں کی زندگیوں کی بھی کوئی قدر و قیمت
ہے تو ایسی کوئی پیشگی اطلاع ایف ایٹ واقعہ سے متعلق بھی دے دی جاتی تو
گیارہ قیمتی پاکستانی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکتی تھیں۔پر اس وقت تو اطلاع
یہ تھی کہ اسلام آباد پاکستان کا محفوظ ترین شہر ہے! اب اندازہ کیا جا سکتا
ہے کہ وزارتِ داخلہ کی معلومات کی درستگی کا معیار کیا ہے!!!
خیر بھلا ہو ہمارے بگڑے بھائیوں کا جنہوں نے وزارتِ داخلہ کے اس اعلان کو
مسترد کر تے ہوئے جنگ بندی پر عمل پیرا رہنے کا عندیہ دے دیا ۔ یوں صاف ہوا
کہ پرویز مشرف کے عدلیہ کے سامنے بدکتے چلے جانے کی وجوہات کیا ہیں ، انکی
پشت پناہی کون کر رہا ہے اور یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومت بھی
فی الحال اس معاملے پر کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتی۔وزیرِ اعظم صاحب
ماضی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں! پرویز مشرف کے بدکنے کی وجہ تو سمجھ آتی ہے
پر سائیں تو سائیں، سائیں کے پیروکار بھی سائیں۔ ان کے وکلاء کو بہر حال
عدالت کے سامنے اتنا اچھلنے کودنے کی اجازت دینا مناسب نہیں لگتا۔ طوفانِ
بدتمیزی کا عالم دیکھیے کہ رانا اعجاز جو پرویز مشرف ہی کے دورِ اقتدار میں
پنجاب کے وزیرِ قانون رہ چکے ہیں خصوصی عدالت کے جج حضرات سے جس سُر اور لب
و لہجے میں گفتار کرتے ہیں تو ایسا گماں ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کی روح ان
میں حلول کر گئی ہے اور اپنے دل کے پپولے عدلیہ اور جج صاحبان کے خلاف پھوڑ
رہی ہے۔ بہرطور فوج کا پاوا تو ماننا پڑے گا کہ موقع پر موجود پولیس افسران
بھی جج صاحب کے احکامات کے باوجود چھوٹے سائیں کو ہاتھ لگانے سے کتراتے رہے۔
ویسے عدالت کی تضحیک کرنا حکمران طبقے کا عمومی رویہ ہے جس کی جڑیں تقسیم
ہند سے وراثت میں ملا نو آبادیاتی نظام ہے۔ عدلیہ ہمیشہ حکمران طبقے کے غیر
آئینی اقدامات کو آئینی شکل و صورت میں ڈھالنے کی ریاستی مشینری کے طور پر
مستعمل رہی اور تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب عدلیہ نے ماضی کی روش ترک کرتے
ہوئے ڈکٹیٹر کے سامنے سینہ سپر ہونے کا فیصلہ کیا! اب سینہ سپر ہونے کے
محرکات قومی تھے یا ذاتی، یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
اسی رویہ کا اظہار موجودہ حکومت کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے! پرویز مشرف
کے خصوصی عدالت کے منظر سے نظر گھما کر سپریم کورٹ میں جاری لاپتہ افراد
کیس پر ڈالیں تو وہاں جسٹس خواجہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلی خیبر
پختون خوا سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔یہاں شکوہ یہ ہے کہ حکومت تمام تر
وسائل میسر ہونے کے باوجود اب تک نہ ہی لاپتہ افراد کا اتا پتا فراہم کر
پائی ہے ، نہ ہی اس معاملے میں ملوث افسران سے نمٹ سکی اور نہ ہی لاپتہ
افراد کے لواحقین کے لئے فنڈ کا قیام کیا جا سکا ہے یوں عدالت کے احکامات
کو صریحاٌ نظر انداز کیا جا رہا ہے!!!
رویے تبدیل ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے۔پاکستانی نظام ارتقائی عمل سے گزر
رہا ہے۔ ابھی جس جس کا جہاں جہاں جیک لگتا ہے وہ لگا رہا ہے۔ پرویز مشرف
اپنے زورِ بازو پر عدالت کے احکامات کی دھجیاں بکھیرتا ہے تو حکومت اپنی
بساط کے مطابق اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتی ہے۔لیکن یہ امید بھی اپنی جگہ
قائم ہے کہ جمہوری عمل جاری ساری رہا تو ادارے ، حکمران اور عوام نظام میں
اپنی اپنی جگہ سمجھتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے کے عادی
ہوتے چلے جائیں گے جو بلاشبہ منظم و کامیاب اقوام کا وطیرہ ہے ۔ |