23 مارچ 1940سے چار دن قبل لاہور میں ایک الم ناک حادثہ
پیش آیا جس میں پولیس اور خاکساروں کا تصادم ہو گیا اور مسلمانوں کی بہت سی
قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ حکومت پنجاب نے نیم فوجی جماعتوں کو خلاف آئین
قرار دے کر پابندی لگا رکھی تھی کہ اِن جماعتوں کے رضاکار اپنی مخصوص وردی
پہن کر سرعام پریڈ نہیں کر سکتے۔ اِس پابندی کی زد خاکساروں پر بھی پڑی
تھی، علامہ مشرقی دہلی میں تھے، ان کے اخبار ’’الاصلاح‘‘ میں جو لاہور سے
شائع ہوتا تھاا اس میں کئی روز سے اشتعال انگیزتحریریں چھپ رہی تھیں۔جن میں
بار بار لکھا جاتا تھا کہ خاکساروں کو چاہیے کہ سرسکندر حیات خان کے گرد
لاشوں کے انبار لگا دیں۔ اسی نوع کی اور بھی غیر ذمہ دار تحریریں شائع کی
جا رہی تھیں۔ 19 مارچ کی صبح خاکساروں کے جتھے پریڈ کرتے ہوئے بھاٹی دروازے
کے اندر نمودار ہوئے پولیس نے روکنا چاہا لیکن خاکساروں نے اپنے صیقل
،بیلچوں سے پولیس کے سپاہیوں اور افسروں کو مارنا شروع کر دیا۔ پولیس والوں
کی تعداد تھوڑی تھی اس لیے خاکسار دائیں بائیں مارتے آگے نکل گئے پولیس کے
چند افسربری طرح زخمی ہوئے ایک انگریز افسر ہلاک بھی ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں
بہت سی مسلح پولیس کی بڑی نفری لاریوں پر سوار ہو کر آ گئی اور خاکساروں کا
قتل عام شروع کر دیا۔ 50 کارکن موقع پر شہید ہوگئے شام تک لاہور میں چاروں
طرف غم کے بادل چھا گئے، 22 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس شروع ہونے
والا تھا۔ اِس لیے ہر شخص کی زبان پر یہ بات تھی کہ ایسی رنجیدہ اور اشتعال
انگیز فضا میں اجلاس ہو بھی سکے گا یا نہیں، سرسکندر نے بہت کوشش کی کہ
اجلاس ملتوی کر دیا جائے لیکن قائداعظم نے کہا اجلاس ہر صورت میں ہوگا۔ 21
مارچ کی صبح قائداعظم لاہور تشریف لائے۔ ان کے اعزاز میں ایک بے مثال اور
عدیم النظیر جلوس نکالنے کا تمام سامان مکمل ہو چکا تھا لیکن خاکساروں کا
حادثہ ہونے کی وجہ سے چوں کہ فضا سوگوار تھی، اس لیے انہوں نے جلوس نکالنے
سے انکار کر دیا۔ 21 مارچ کی شام کو غروب آفتاب کے بعد لیگ کونسل کا اجلاس
ہوا جس میں جنرل سیکرٹری کی رسمی رپورٹ کے بعد ضابطے کے مطابق مجلس انتخاب
مضامین (سب جیکٹس کمیٹی) کے چند مزید ارکان نا م زد کیے گئے۔ ان میں پنجاب
سے ڈاکٹر محمد عالم اور میاں فیروزالدین احمد کو جگہ ملی، قائداعظم نے
لاہور پہنچتے ہی اخباری نمائندوں کو بیان دیا کہ لیگ اِس اجلاس میں انقلاب
آفریں اقدام کرے گی، اِن کے اس اشارے پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں اور قیاس
آرائیاں ہونے لگیں، ہندو ا خبار نے بھی بڑے بڑے حاشیے چڑھائے لیکن بات کی
تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا، 22 مارچ کی سہ پہر کو لیگ کا کھلا اجلاس ہوا
قائداعظم صدارتی تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ہر طرف سناٹا چھا گیا، انہوں نے
کچھ دیر اُردو میں خیالات کا اظہار کیا پھر انگلش میں بولنے لگے گزشتہ دو
سال کا خلاصہ بیان کیا برطانوی حکومت کا کانگریس اور دیگر مختلف عناصر میں
سے ایک ایک کا تجزیہ کیا پھر جنگ یورپ کے متعلق لیگ کی پالیسی کی وضاحت کی
اور آخر میں دو قوموں کا نظریہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے لالہ لاجپت رائے کا
ایک خط پڑھ کر سنایا جو موصوف نے 1924 میں بنگال کے مشہور لیڈر سی آر داس
کو لکھا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں ان دونوں کو ایک
دوسرے میں ضم کرکے ایک قوم بنانا ناممکن ہے۔ لالہ لاجپت رائے چونکہ ہندو
قوم کی ذہنیت کے صحیح علمبردار سمجھے جاتے تھے ،ان کے اِس خط نے لوگوں کو
ششدر کر دیا۔ ملک برکت علی مرحوم سٹیج پر بیٹھے تھے۔ اِن کے منہ سے نکل گیا
کہ لاجپت رائے نیشنلسٹ ہندو تھے۔ قائداعظمؒ نے زور دیا اور کہا کہ ہندو
نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا۔ ہر ہندو اول و آخر ہندو ہی ہے۔ امن کی آشا اور نجانے
کون کون سی باشا جیسے منصوبے ہم نے بنائے اور ان پر مرے جا رہے ہیں،
قائداعظمؒ کے اس بیان کو پس پشت ڈال دیا۔ ہندو کے حوالے سے ایک اور کہاوت
بڑی مشہور ہے ’’بغل میں چھری اور منہ میں رام ‘‘ یہ واقعتاً کوئی بھی موقع
جس میں مسلمان کو نقصان ہو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا لیکن ہم ہیں کہ اس سے
دوستی کرنے کے لیے تن من دھن لگا دیتے ہیں اور اُس کے بہکاوے میں بار بار آ
رہے ہیں شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے اِس وطن کی خاطر کیوں
قربانیاں پیش کی تھیں؟ آج ہم نے اُن کا خون کیوں بیچ دیا؟
دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے انہیں اپنے
رہنماؤں کے اصولوں پر نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے نتیجے
میں غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، پوری
چینی قوم اپنے لیڈر ماؤزے تنگ کے اقوال پر مبنی چھوٹی سی سرخ کتاب کو اپنے
سینے سے لگائے رکھتی تھی، اُنہوں نے محض دکھاوا نہیں کیا بلکہ کہے اور لکھے
ہوئے پر عمل بھی کیا جس کے باعث آج اِن کا شمار دُنیا کی اہم ترین قوموں
میں ہوتا ہے امریکہ اِس وقت دنیا کی واحد سپرپاور کہلاتا ہے۔ امریکیوں نے
اپنے بابائے قوم ابراہم لنکن کے افکار و خیالات پر میں عمل کیا، ابراہم
لنکن کے ایک خط نے دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے۔ یہ خط لنکن نے
اپنے بیٹے کے ہیڈ ماسٹر کو لکھا تھا، اس تحریر میں وہ اوصاف بیان کیے گئے
ہیں جو لنکن اپنے بیٹے میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اِس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ
ایک ایسی تحریر جس میں ایک رہنما نے براہ راست عوام کو مخاطب بھی نہیں
کیاگیا، پوری قوم کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔ اس خط کے اہم نقاط دیکھیں تو
امریکی معاشرے کی امتیازی خصوصیات کی اِن سے مماثلت واضح ہو کر سامنے آ
جاتی ہیں۔ لنکن لکھتے ہیں ’’میرے بیٹے کو سکھائیں کہ سب لوگ حق پر نہیں
ہوتے‘‘ سبھی لوگ سچے نہیں ہوتے لیکن ہر بدمعاش کے مقابلے میں ایک ہیرو ہوتا
ہے اور ہر خود غرض سیاست دان کے مقابل ایک بے غرض رہنما، آج امریکہ میں
ایسا بیدار معاشرہ موجود ہے جس میں کسی خود غرض سیاست دان یا بدمعاش کو کھل
کھیلنے کی اجازت نہیں لنکن مزید لکھتے ہیں ’’مفت میں مل جانے والے پانچ
ڈالروں سے کمایا ہوا ایک ڈالر بدرجہ اچھا ہے‘‘ کسے نہیں معلوم کہ محنت سے
پیسہ کمانے کی امریکہ میں کیا قدر و قیمت ہے میرے بیٹے کو بتاؤ کہ کتابیں
پڑھنا بڑی مثبت بات ہے لیکن فطرت سے ہم کلام ہونا پرندوں، پودوں اور قدرتی
مناظر پر غور و فکر بھی اتنا ہی ضروری ہے، میرے بیٹے کو بتاؤ کہ نقل کرکے
پاس ہو جانے سے فیل ہو جانا زیادہ قابل عزت بات ہے، سب جانتے ہیں کہ ایک
غلط بیانی امریکہ کے صدر جیسے طاقتور عہدے پر فائز شخص کے پاؤں تلے سے زمین
نکال دیتی ہے۔ اسے سکھاؤ کہ اپنی محنت اور ہُنر وہاں بیچو جہاں سب سے
بہترین پھل ملے مگر اپنے دل اور روح پر کبھی ’’برائے فروخت‘‘ کا لیبل مت
لگاؤ اب ذرا اپنے قائد کی طرف آتے ہیں، اُن کی زندگی کے اہم پہلوؤں پر
تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔ قائداعظمؒ اپنی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے
’’اے ڈی سی نے قریب آ کر دریافت کیا سر چائے پیش کی جائے یا کافی قائد نے
چونک کے سر اٹھایا اور سخت لہجے میں کہا، یہ لوگ (وزرا) گھروں سے چائے پی
کر نہیں آئے، جس وزیر نے چائے پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے قوم کا پیسہ قوم
کے لیے ہے، وزیروں کی عیاشی کے لیے نہیں‘‘ قائداعظمؒ جب تک برسراقتدار رہے
تو اجلاس میں پانی کے سوا کچھ نہ پیش ہوا۔ جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے
وال پرٹ لکھتے ہیں جب میں نوجوان صحافی کی حیثیت شے برصغیر کے سیاسی حالات
کی رپورٹنگ پر مامور ہوا تو قائداعظمؒ کو کوئی اہم رہنما تصور نہیں کرتا
تھا، ایک پریس کانفرنس کے بعد حسب عادت میں ان کے پاس گیا، ان سے پوچھا
کوئی ایسی بات جو آپ نے حذف کروانی ہو دنیا بھر کی عظیم شخصیات ایسے مواقع
پر خود صحافیوں سے کہتی ہیں، فلاں بات کاٹ دو، فلاں شائع کر دو وغیرہ
وغیرہ، قائداعظم نے چونک کر میری طرف دیکھا اور کہا نوجوان حذف کروانے سے
تمہاری کیا مراد ہے۔ جناح جو کچھ کہتا ہے، ریکارڈ پر لانے کے لیے کہتا ہے،
ایک اور اہم واقعہ گورنر جنرل ہاؤس کے لیے ایک مرتبہ 38 روپے کا سامان
خریدا گیا۔ قائداعظم نے تفصیلات طلب کیں تو معلوم ہوا کہ کچھ چیزیں فاطمہ
جناح نے منگوائی ہیں۔ آپ نے حکم دیا اِن کے پیسے محترمہ فاطمہ جناح کے
اکاؤنٹ سے کاٹ لیے جائیں۔
ذرا غور طلب باتیں ہیں چھوٹی ضرور ہیں مگر اِن میں کئی راز مدفن ہیں۔ آج
ذرا چین کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم کتنی محنتی
ہے، مستقبل کی سپرپاور بھی اسی ملک کو کہا جاتا ہے یہ وہی قوم ہے جودنیا
بھر میں افیونی کہلاتی تھی لیکن ماؤزے تنگ جیسے عظیم لیڈر نے آج اُنہیں
کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ آج پاکستان کی حالت دیکھیں، قائداعظم اجلاس میں
چائے تک نہیں آنے دیتے تھے، ہمارے وزراء تو بچوں کے لیے Pamper تک قومی
خزانے سے خریدتے ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے ایک وزیر پر خرچا آتا
ہے اور ہمارے وزیر بھی ماشاء اﷲ دنیا کے تمام پارلیمنٹ ممبران سے زیادہ
مراعات لے رہے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے عوام کے پیٹ کاٹ کر اپنی
تجوریاں بھری ہیں لیکن ہمارے لیڈر قائداعظم، لیاقت علی خان نے اپنا پیٹ کاٹ
کر عوام کے پیٹ کا خیال کیا۔ ہمارے اسلاف اور عظیم حکمران حضرت عمر فاروقؓ
جیسا لیڈر دنیا میں آج تک کسی کو نہیں ملا اُن کا قول ہے ’’اگر دریائے فرات
کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمرؓ سے اُس کا سوال ہوگا۔ ایک اور
23مارچ ہماری زندگی میں آن پہنچا، ہمیں سوچنا ہوگا کہ اِس دن ہم اپنے اندر
ایک تبدیلی لائیں جو 23 مارچ 1940 کو آئی تھی آج کھڑے ہونے کا وقت ہے اپنے
آپ سے اصلاح شروع کریں، انشاء اﷲ معاشرہ سنور جائے گا۔یہی اس دن کا تقاضا
ہے۔افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہا کے ہمارے حکم رانوں نے ایک طویل عرصے
تک 23مارچ کو ہونے والی پڑیڈ کی راویت کو ختم کر کے پاکستانی قوم کے اندر
سے 23مارچ کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کر نے میں کوئی کسر اٹھانہیں چھوڑی۔میاں
نواز شریف سے میری مودبانہ التماس ہے کہ محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت
دیتے ہوئے آپ ایک بار پھر اس روایت کو زندہ کر کے پاکستانیوں کو 23مارچ کو
جذبے سے منانے کا موقع فراہم کریں۔
|