صوبہ سندھ کی سیاست میں پی پی پی
اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات کی کیمسٹری بڑی دلچسپ بھی ہے اور ہولناک
بھی ۔ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک مضمون(subject) اس کا بھی ہونا چاہیے کہ
صوبے کی یہ دو بڑی جماعتوں کے درمیان دوستی اور دشمنی کی تاریخ ،اس کے
اسباب و عوامل کیا ہیں ان دونوں جماعتوں کو وہ کیا نفسیاتی عوارض یا سیاسی
مجبوریاں لاحق ہیں جو کبھی یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں اور
کبھی دوستی کی پینگیں بڑھنے لگتی ہیں ۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایم کیو
ایم اپنے آپ کو سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص اردو بولنے والوں کا نمائندہ
سمجھتی ہے جب کے اب ایسا نہیں ہے کیونکہ اب پاکستان کے حوالے سے پوری دنیا
میں انتخابات کو خاص طور پر سندھ کے انتخابی نتائج کو عوامی نمائندگی کا
معیار نہیں سمجھا جاتا جب کے دوسری طرف پی پی پی اپنے آپ کو سندھ کے دیہی
علاقوں اور بالخصوص سندھی بولنے والوں کا نمائندہ سمجھتی ہے لیکن چونکہ پی
پی پی ایک وفاقی جماعت ہے جس کے سیاسی اثرات پورے ملک میں ہیں اس لیے سندھ
کے شہری علاقوں اور اردو بولنے والوں میں بھی اس کے کچھ سیاسی اثرات پائے
جاتے ہیں ۔1970سے پہلے پورے سندھ میں سندھی مہاجر کی کوئی تفریق نہیں تھی
اسی وجہ سے حیدرآباد کے ایک نواب صاحب کی سیاست پٹ گئی تھی جنھوں نے پنجابی
پختون مہاجر اتحاد سندھ بنا رکھا تھا ۔یہ تو 1972میں جب بھٹو صاحب نے سندھ
اسمبلی میں اچانک سندھ زبان کا بل پیش کیا تو اس سے پورا سندھ آگ کی لپیٹ
میں آگیا بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے شہید چوک وجود میں آئے بھٹوصاحب نے
ایسا کیوں کیا اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ وہ مجیب کے مشرقی پاکستان کے
مقابلے میں مغربی پاکستان میں کامیاب تو ہو گئے تھے لیکن جس طرح مجیب کے
پاس بنگالیوں کی حمایت کی وجہ سے وفاق کو بلیک میل کرنے کے لیے بنگال کارڈ
کا ترپ کا پتہ ہاتھ میں تھا اسی طرح بھٹو صاحب سندھ کو پی پی پی بیس بناکر
سندھ کارڈ کا پتہ اپنی پارٹی کے خفیہ سیف میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ آئندہ
کی سیاست میں وہ رہیں یا نہ رہیں ان کی پارٹی کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہاتھ
میں رہے جس سے وہ وفاق کو قابو میں رکھ سکیں ان فسادات کے بعد سے سندھ کی
سیاست دو متوازی لکیروں کے مانند ہوگئی ۔1973کے دستور میں کوٹہ سسٹم کی وجہ
سے سندھ کے شہری نوجوانوں کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری
ملازمتوں میں پابندی لگادی گئی جس نے سندھ کے شہری نوجوانوں میں احساس
محرومی کو جنم دیا اور پھر جب قومی جماعتیں اس احساس محرومی کی شدت کو ختم
یا کم کرنے میں وفاقی پالیسیوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں تو اس کے نتیجے
میں ایم کیو ایم وجود میں آئی ۔ایم کیو ایم نے سندھ کے نوجوانوں کے حقوق کا
نعرہ بلند کیا لیکن بعد میں یہ اسٹبلشمنٹ کی پارٹی بن گئی اس طرح اس نے
اپنی تاریخ تبدیل کرلی پھر مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں
تبدیلی سے اس کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو گیا ۔اس مختصر تمہید کے بعد ہم آج کل
کی ان خبروں کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں جس میں بتایا جارہاہے کہ دبئی میں
کوئی اجلاس ہوا اور ایک بار پھر صوبے میں مفاہمت کی سیاست کا آغاز ہونے
والا ہے جس دن کی یہ خبر ہے اسی دن کے اخبارات میں یہ بھی خبر شائع ہوئی ہے
کہ لانڈھی کی PS-128پی پی پی کے جنرل سکرٹری حاجی عبدالغنی کامریڈ کو "نامعلوم"دہشت
گردوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ،اسی دن فقیر کالونی ضلع غربی شباب ملی
کے جنرل سیکرٹری علی اصغر تنولی کو بھی شہید کیا گیا ۔ان دونوں پارٹیوں کو
آپس میں ایک دوسرے سے بہت شکایات ہیں لیکن یہ مفاہمت کیوں ہو رہی اور کون
کرا رہا ہے ہمیں تو وہ دن بھی یاد ہے جب ایم کیو ایم کو نصیراﷲ بابر سے
شدید شکایات تھیں ایک جگہ تقریباَپندرہ غریب مزدوروں کو جمع کر کے قتل کیا
گیا اور وہاں سے ایک پرچہ ملا جس پر لکھا ہواتھا کہ نصیراﷲ بابر کے لیے
تحفہ ایسے کئی واقعات ہوئے پھر ایم کیو ایم اسی دور سے یہ واویلا مچارہی ہے
کہ اس کے پندرہ ہزار کارکنوں کو غائب کر دیا گیا یہ الگ بات ہے وہ ہر مرتبہ
مرکزی اور صوبائی اقتدار میں شریک رہی لیکن وہ خود ان کا سراغ نہ لگاسکی ۔پھر
اسی طرح ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ ایک صاحب نے خود اپنی آنکھوں سے یونیورسٹی
کی ایک دیوار پر پی ایس ایف (پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن)کے ان تین نوجوانوں کے
بھیجے لگے ہوئے دیکھے جنھیں ایک مخالف لسانی تنظیم کے دہشت گردوں نے دیوار
کے ساتھ کھڑا کر کے گولی ماری تھی ۔ہمیں وہ دوربھی یاد ہے جب پی پی پی اور
ایم کیو ایم کے کارکنوں نے ایک دوسرے کو اغوا کیا تھا پھر اس وقت کے کور
کمانڈر آصف نواز نے درمیان میں پڑکر دونوں جماعتوں کے مغویان کا آپس میں
تبادلہ کرایا تھا اس وقت بے نظیر وزیر اعظم تھیں اور انھوں نے سول اسپتال
میں دورہ کرکے اپنے مغوی ذخمیوں کی عیادت کی تھی ۔سننے میں آیا تھا پی پی
پی کے ان مغویان کے اوپر شدید تشدد کیا گیا تھا بعض کے نازک اعضا کوبھی
کاٹا گیا تھا ۔اس کے بعد سے کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا تھا پھر پچھلے
سابقہ دور میں ہمیں عبدالقادر پٹیل کی وہ دھواں دھار پریس کانفرنس بھی یاد
ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حکومت کے دور میں ہمارے ساٹھ سے
زائد کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے اور انھوں نے واضح طور پر اپنی
اتحادی جماعت متحدہ پر الزام لگایا تھا ۔پھر صوبہ سندھ کے ایک سابق وزیر
داخلہ نے جو اس وقت کے صدر جناب آصف زرداری کے دوست بھی تھے ایک پریس
کانفرنس میں اپنے سر پر قرآن رکھ کر الطاف حسین پر بڑے رکیک الزامات لگائے
تھے اور وہ تمام ثبوت لے کر لندن تک گئے تھے دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج
اور مخاصمتی فاصلوں کی یہ چند مثالیں ہیں جو دیگ کے چاول کی مانند پیش کی
گئیں ہیں ورنہ یہ داستان تو بہت طویل اور دلخراش ہے ۔اب جو دونوں جماعتوں
کا پھر سے سنگم ہو رہا ہے اس کی پشت پر کیا مجبوریاں اور مفادات ہیں اس پر
تو ہمارے سیاسی دانشور حضرات ہی صحیح تجزیہ دے سکیں گے ۔پچھلے دور میں تو
بات کسی حد تک سمجھ میں آتی تھی کہ پی پی پی کو مرکز میں اپنے اقتدار کو
قائم رکھنے کے لیے متحدہ کے ووٹوں کی ضرورت تھی ۔اس لیے وہ ان کی
نازبرداریاں اٹھا رہے تھے ۔لیکن اب کیا وجوہات ہیں جو متحدہ کو پھر سے گلے
لگایا جارہا ہے ۔میرے خیال میں پی پی پی نے نواز شریف کو اب ٹف ٹائم دینے
کا ارادہ کر لیا ہے ،دوسری وجہ یہ لگتی ہے کہ سندھ حکومت اسکاٹ لینڈ کے کسی
متوقع فیصلے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے مضمرات سے خائف نظر آتی ہے
اس لیے وہ چاہتی ہے کہ متحدہ کو حکومت میں شامل کرلیا جائے تاکہ آنے والے
حالات میں اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے اسی لیے 19 مارچ کے اخبار جنگ میں
معروف صحافی انصار عباسی کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ حکومت سندھ ان
162دہشتگردوں کے سروں کی قیمت رکھنے سے ہچکچا رہی ہے جن کی فہرست خفیہ
ایجنسیوں نے وفاقی وزارت داخلہ کو دی تھی اور اس وزارت نے سندھ حکومت کو یہ
فہرست دی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس میں اکثریت متحدہ کے لوگوں کی
ہے یہ بھی خبر ہے کہ ان دہشتگردوں کو آبی راستوں سے ملک سے باہر بھیجا
جارہا ہے یہ مفاہمت شاید اسی لیے ہو رہی ہے ۔بہر حال مرکزی حکومت کی طرف سے
ہونے والے آپریشن کو صوبائی حکومت کوآپریشن (تعاون) میں بدل رہی ہے۔ |