پارلیمانی انتخابات کو ہندوستان
میں جمہوریت کا عمومی تہوارتصورکیاجاتاہے لیکن انتخابی سرگرمیوں اورسیاسی
جماعتوں کے رخ نارواجمہوری مزاج اوررویے کو یکسرمستردکرتے جارہے ہیں۔یوں تو
سبھی سیاسی جماعتیں فتح وکامرانی کے لیے اپنے اصول ونظریات سے بھی انحراف
کرنے میں نہیں ہچکچاتیں لیکن اگربی جے پی کی بات کی جائے تواس کے نئے
سربراہ نریندرمودی کے باربارترقی کوانتخابی ایجنڈابنائے جانے کے وعدے کے
باوجودوہ مستقل نہ صرف نفرت کی فضاسازی کی روش پرگامزن ہے بلکہ فرقہ واریت
کی سنامی برپاکرنے پر بھی آمادہ ہے۔
فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے ہی بی جے پی نے اپنے’ مہاتما‘ لال کرشن
اڈوانی کو نظرانداز کرکے نریندرمودی جیسے شخص کو قیادت کی باگ ڈوردے دی جن
کی شبیہ نے بین الاقوامی سطح پر اس ملک کوشرمسارکیا،کئی معتبرایجنسیاں
جنہیں دھتکارچکی ہیں اورصحافت وسماج سے وابستہ دانشوروں نے بھی جن کے تعلق
سے ہزاروں صفحات سیاہ کیے ہیں،ایسے شخص کو بی جے پی اورآرایس ایس نے سوچ
سمجھ کر ہی میدان سیاست کی نکیل سونپی ہے۔بی جے پی کا نریندرمودی کو
وارانسی جیسی ’پاون دھرتی ‘سے انتخابی میدان میں اتارنا اس بات کا صاف
پیغام ہے کہ پارٹی مذہبی بنیادوں پر عوام کاایک بارپھر استحصال کرناچاہتی
ہے یا ایسی فرقہ وارانہ صف بندی کے لیے کوشاں ہے جواسے اقتدارکی کرسی تک
پہنچاسکے۔
نریندرمودی نے پہلے گجرات کی ترقی کاڈھول پیٹ کرخود کو وزیراعظم کے عہدے
کاامیدوارثابت کیا ،پھر ’گجرات ماڈل ‘کی تشہیرکی اورہرجگہ جگہ یہ کہتے رہے
کہ وہ اس ملک کوترقی کے ایجنڈے سے روشناس کرانا چاہتے ہیں اوریہ بھی کہ وہ
گجرات فسادات کوبھول کرنئے ہندوستان کی تعمیرکرناچاہتے ہیں لیکن وہ رہ رہ
کر فرقہ واریت کا انجکشن بھی لگاتے رہے۔انہو ں نے رام مندرکو توسردبستہ میں
رکھ دیا لیکن ہندوتوکی راہ پر پوری طرح گامزن ہوگئے۔ہندوتوکے حصول کے لیے
فرقہ واریت کی ہواخیزی کوضروری سمجھ کرہی انہوں نے گنگاکے گھاٹ پر اشنان
کرنے کافیصلہ کیااورسیدھے بنارس میں گنگاکی سیڑھیوں پر جابیٹھے۔یہی نہیں
انہو ں نے ’’ہر ہرمودی ،گھرگھر مودی‘ کے نعرے کوعام کرکے خودکو مذہبی عقیدت
سے جوڑنے کی کوشش کی جس پر ایک شنکراچاریہ نے بھی شدیداعتراض ظاہرکیا۔اسی
طرح بی جے پی نے مسلمانوں سے دوستی کا پرفریب نعرہ بھی دیالیکن اترپردیش
جہا ں سب سے زیادہ کثیرمسلم رائے دہندگان کے پارلیمانی حلقے ہیں ،وہاں کسی
ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا۔اس کا صاف مطلب ہے کہ چاہے ترقی کی بات
ہویا مسلمانوں سے قربت کی ، جملہ راگ محض ایک ڈھکوسلہ تھے، وہ تواصلاً
ہندوتوکی بالادستی کے لیے کام کررہے ہیں۔اب دیکھنایہ ہے کہ ان کا بنارس
کارڈ کتنا اثردکھاتاہے اوررام مندرکوبھلاکرگنگاجل کے پیغام کووہ کہا ں تک
پہنچا پاتے ہیں۔ |