صحافیوں کا’’یوم مطالبات ‘‘

صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تو مانا گیا مگر اس شعبے سے وابستہ افراد خطرات میں گھرتے جا رہے ہیں ۔کبھی کسی ادارے پر حملہ ہو جاتا ہے تو کبھی لاشیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔صحافی وہ طبقہ ہیں جو معاشرے میں ہر ہونے والی اچھائی و برائی کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں ۔دن ہو یا رات،سردی ہو یا گرمی،امن ہو یا جنگ،موسم خواہ کیسا بھی ہو،حالات کیسے بھی ہوں،گرجتی گولیوں،پھٹتے بارود ،لاٹھی چار ج میں بھی صحافیوں کو کام کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہیں کئی مواقع پر صحافی زخمی بھی ہوئے ۔ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بھی بنے مگر صحافی آج بھی زندہ ہیں اور اپنے اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔مشرف کی آمریت کے دوران جب ٹی وی چینلز کو بند کیا تھا تو میں اس وقت کرچی میں تھا ۔صحافیوں کی ملک گیر تحریک شروع ہوئی تھی ۔کراچی میں جہاں ایمرجنسی کے خلاف پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی،مسلم لیگ(ن) سمیت دیگر جماعتیں احتجاج کر رہی تھیں وہیں صحافی بھی میدان میں تھے ۔پولیس نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کیا تو تھانوں میں جگہ کم پڑ گئی تھی ۔ایکدن ٹی وی چینلز کی بندش کے خلاف کراچی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک مارچ تھا اور وہاں پر دھرنا تھا۔پریس کلب کے اطراف میں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی تمام راستے بند کر دیئے گئے تھے۔صحافی اﷲ کا نام لے کر نکلے تو پولیس نے بڑی بے دردی سے صحافیوں پر لاٹھی چارج کیااور کراچی پریس کلب کے سابق صدر نجیب احمد (مرحوم) اﷲ ان کی مغفرت کرے،سمیت پانچ سینئر صحافیوں کو گرفتا ر کیا لیا۔جس پر کراچی پریس کلب میں صحافتی قیادت کا ہنگامی اجلاس ہوا جس کی صدارت سینئر و بزرگ صحافی منہاج برنا نے کی ۔اجلا س میں طے پایا کہ اگر پولیس گرفتار صحافیوں کو رہا نہیں کرتی تو صحافی بھی’’جیل بھرو تحریک‘‘ شروع کریں ۔انتظامیہ سے مذاکرات کئے گئے مگر پولیس نہ مانی ۔پھر ہوا اس طرح کہ کراچی کے تمام صحافی جو پریس کلب احتجاج میں نہیں پہنچے تھے انہیں بھی ایمرجنسی کالز کرکے بلایا گیا ۔گرفتاریوں کا آغاز ہوا،پولیس پریشان ہوئی،مختلف تھانوں سے گاڑیان منگوائی گئیں،صحافی خود ’’زندہ ہے ،صحافی زندہ ہے،ہتھکڑیاں لگوا کے بھی،جیلوں میں جا کے بھی صحافی زندہ ہے ،نعرے لگاتے ہوئے گاڑیوں میں سوار ہونا شروع ہو گئے ۔ملک کی تاریخ میں اسوقت سب سے زیادہ120کے لگ بھگ صحافیوں نے گرفتاریاں دیں ۔پھر اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ باقی دوست کل گرفتاریاں دیں گے اور دوسرے دن ملک گیر جیل بھرو تحریک شروع کی جائے گی۔راقم جس پولیس کی گاڑی میں سوار ہوا اس میں کراچی یونین آف جرنلسٹ کے اسوقت کے جنرل سیکرٹری جاوید چوہدری،سینئر صحافی ادریس بختیارسمیت مختلف اداروں کے25لوگ تھے ،ایک تھانے سے دوسرے تھانے ،دوسرے سے تیسرے تھانے،کہیں جگہ ہی نہیں تھی کیونکہ تھانے تو سیاسی کارکنان سے بھرے پڑے تھے ،ہماری منزل ڈاکس پولیس سٹیشن ٹھہری،ادھر میڈیا پر جب صحافیوں کی گرفتاریوں کی خبر یں چلنا شروع ہوئیں توسیاسی جماعتوں کے رہنما و کارکنان تھانوں میں پہنچنا شروع ہو گئے ۔خیر 6گھنٹے تک تھانوں میں رہنے کے بعد نگران حکومت کے وزیر اطلاعات نثار میمن کی مداخلت پر مذاکرات کے بعد صحافیوں کو رہائی ملی۔جب تھانے میں تھے تو اسوقت پیپلز پارٹی کے رہنما بھی آئے اور بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔مشرف کی ایمر جنسی کے بعد روٹی ،کپڑا اور مکان کے نام پر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی مگر صحافیوں کے مسائل حل نہیں ہو سکے،صرف اور صرف وعدے کئے گئے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد مسلم لیگ(ن) کی حکومت آ گئی ۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل خورشید عباسی کی کال پر 20مارچ کو ملک بھر میں یوم مطالبات منایا گیا۔اسلام آباد میں قومی اسمبلی ،لاہور میں پنجاب اسمبلی،پشاور میں خیبر پختونخواہ اسمبلی،کراچی میں سندھ اسمبلی،کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے سامنے پر امن دھرنے دیئے گئے۔ جن میں بڑی تعداد میں صحافی برادری نے شرکت کی۔لاہور میں ہونے والے دھرنے میں پنجاب کے پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات رانا ارشد،تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر میاں اسلم اقبال،مسلم لیگ(ق) پنجاب کی رہنما سیمل کامران نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ یوم مطالبات کے سلسلہ میں دوپہر بارہ بجے سے سہ پہر چار بجے تک پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ میں لاہور پریس کلب،پنجاب یونین آف جرنلسٹ،پاکستان ایسوسی ایشن آف فوٹو جرنلسٹ،آل پاکستان سائبر نیوز سوسائٹی،اپڈیٹس گروپ آف پاکستان،گوجرانوالہ یونین آف جرنلسٹ،فیصل آباد یونین آف جرنلسٹ کے اراکین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔احتجاجی دھرنے سے لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری،پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے صدر وسیم فاروق شاہد،آل پاکستان سائبر نیوز سوسائٹی کے میڈیا کو آرڈینیٹر ممتازحیدر،پاکستان ایسوسی ایشن آف فوٹو جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری محمد رمضان،اپڈیٹس گروپ آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری محمد شاہد محمود ،رائے حسنین طاہر ،عارف حمید بھٹی ، نواز طاہر،ارشد ورک، رانا شہزاد، نعیم خان، رانا نسیم، علی مجتبی، ماجد ملہی،فیصل آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر شمس الاسلام ناز، گوجرانوالہ یونین آف جرنلسٹس کے صدر یاسر جٹ جنرل سیکرٹری مبشر بٹ،و دیگر نے خطاب اور مطالبات میں صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے پانچ نکاتی مطالبات رکھتے ہوئے وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان گذارشات پر عمل درآمد کیلئے پارلیمنٹ میں موثر قانون سازی کریں۔ ان مطالبات میں شہید، زخمی یا معذور میڈیا ورکرز کیلئے فوری معاوضے کی ادائیگی ، میڈیا ورکرز کی لازمی انشورنس، میڈیا ہاوسز اور پریس کلبوں کی موثر سیکورٹی،شہید ہونیوالے میڈیا ورکرز کے مقدمات کی سماعت کیلئے خصوصی ٹربیونلز کے قیام اور ساتویں ویج ایوارڈ پر مکمل عملدرآمد کے ساتھ سا تھ آٹھویں ویج ایوارڈ کیلئے بورڈ کی فوری تشکیل اور چیئرمین آئی ٹی این ای کی فوری تقرری کیلئے فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔پنجاب کے پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات رانا ارشد نے احتجاجی دھرنے میں اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ صحافیوں کے تمام مطالبات پورے کئے جائیں گے۔وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پرامن و جمہوری معاشرے اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے صحافیوں کی قربانیوں و جدوجہد کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہوئے صحافیوں کی فلاح و بہبود فنڈ کے لئے 2 کروڑ روپے جبکہ ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کے لئے وزیراطلاعات عبدالرحیم زیارتوال، تحفظ کیلئے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی قیادت میں دو الگ الگ کمیٹیوں اور ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی کے دوران جاں بحق ہونے والے صحافیوں کے ورثاء کو معاوضوں کی ادائیگی کے لئے قانون میں ترمیم کرنے کا اعلان کردیا۔وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر وزیر اطلاعات نے صحافیوں کے تمام مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے ۔وفاقی حکومت نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے پانچوں مطالبات منظور کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام شہداء کے ورثاء کو 10لاکھ اور زخمیوں کو3لاکھ روپے کی مالی امداد اور میڈیا ہاؤسز اور پریس کلبوں کو سیکورٹی فراہم کی جائے گی جبکہ میڈیا ورکرز کی انشورنس کے لئے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں سیل قائم کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی کمیٹی سی پی جے کی سربراہ کیٹی مارٹن ہالبروک سے ملاقات کے دوران وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف نے صحافیوں کی حفاظت کیلئے کمشن بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ صحافیوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائیگا۔ یہ کمشن صحافیوں کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات تجویز کریگا جن پر حکومت مکمل عملدرآمد کریگی، اس کمشن میں ممتاز صحافی، حکومتی عہدیدار اور اہم شخصیات شامل ہونگیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صحافیوں کے مطالبات کی منظوری خوش آئند قدم ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ ان مطالبات پر فوری عمل کرے ۔یہ نہ ہو کہ انتخابات کے دوران عوام کے ساتھ کئے گئے ’’وعدوں ‘‘ کی طرح یہ بھی ایک وعدہ ہی نہ بن جائے ۔

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197227 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.