بات تو بڑی تعمیری ہے کہ وزیر
اعلی پنجاب نے فورا چولستان کی کمپرسی کی فورا خبر گیری کی وہاں جا پہنچے
اور 2 ارب 37 کروڑ کا ایک پیکیج دے ڈالا۔
یہ سبق سکھایا تھر کے قحط نے،
فحط ایک دن ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں آتا یہ کئی مہینوں کی اور کئی
سالوں کی بے پروائی کج ادائی اور بے حسی سے آتا ہے۔ حیرت ہے جب مٹھی اور
اسکے گردنواح تھر پارکر کا علاقہ خشک سالی اور بد حالی کی لپیٹ میں آیا ہوا
تھا تو لیڈران کرام سٹیج سجا کر گھونگرو بجا کے اپنی ثقافت کو بچا رہے تھے،
ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ ثقافت سے زیادہ انسانیت کو بچانے کی صرورت ہے،
جتنے مہنگے اشتہار الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر نظروں کو لجھاتے رہے
اس سے کم پیسوں میں تھر پارکر کے متاثرہ علاقوں میں پانی کی سبلیں اور
کھانے پینے کی دلیلیں مہیا ہوسکتی تھی، اب جب مردہ اور نیم مردہ بچوں کی
تصویريں ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو حلق کے اندر کوئی نوالہ اترتا ہی نہیں، اور
اپنے جینے پر شرم آنے لگتی ہے، کیا مرجھا جانے والے گلاب واپس لوٹ آئيں گے
جو تباہی کئی مہینوں میں آئی کیا وہ ایک مہینے میں درست ہوسکتی ہے، اب بھی
پلاننگ کی ضرورت ہے، سارے کام الل ٹپ ہورہے ہیں۔ تنظیم کہیں نظر نہیں آتی۔
ہاں تنظیم اور تقسیم کا ہنر نظر آتا ہے-
ان میں ایک الخدمت فائونڈیشن بھی ہے جسکی کارگردگی پر ڈیزاسٹر ہر مصیبت ہر
وبال پر ہمیشہ بے مثال رہی ہے، الخدمت فائونڈیشن ویسے بھی صحت تعلیم صاف
پانی کی فراہمی یتمی جیلوں میں قیدیوں کی بہبود اور دیگر سماجی خدمات کے
حوالے سے اپنی ایک پہچان رکھتی ہے-
2005ء کے آفت زدہ زلزلے کے دوران ہم نے خود اس تنظیم کو بڑی جانفشانی لگن
اور سرعت کے ساتھ کام کرتے دیکھا تھا۔ اب تھر پارکر کی الم ناک صورتحال کو
دیکھتے ہوئے الخدمت سب سے پہلے وہاں پہنچی اور آج تک بلا تعصب رنگ و نسل و
مذہب قحط زدگان کی ہر قسم کی مدد کر رہے ہیں، انہوں نے مٹھی کے سامنے مرکزی
میڈیکل کیمپ بنا رکھا ہے جس میں روزانہ تین ڈاکٹر اور 5 پیرا میڈیکل اسٹاف
والے اب تک تین ہزار سے زاہد مریضوں کو دیکھ چکے ہیں، مفت ادویات کا انتظام
الگ ہے پکے پکائے کھانے کی ترسیل کے لیے ایک الخدمت کچن بھی بنا رکھا ہے جس
میں روزانہ 5 سو کے لگ بھگ افراد کا کھانا پکایا جاتا ہے اور ہر کونے میں
ترسیل کیا جاتا ہے۔ وہاں مویشی بھی آفت کا شکار ہیں انکے علاج کے لیے
ویٹرنری ڈاکٹر تعینات کئے ہیں، انکے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور سابق سٹی
ناظم نغمت اللہ خان نے بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ دورے تو ہمارے
اہل اقتدار نے بھی کیے ۔ چولستان کے ہمدردانہ دورے میں ہم نےایک صوبائی
وزیر کو دعوت خسروانہ اڑاتے دیکھا ہے، بھائی لوگوں یہ تصویریں کیوں بناتے
ہو کیوں دل جلاتے ہو۔ سارا قصور وزیر موصوف کا نہیں ہوتا محکمے کے عملے کا
ہوتا ہے جو انہيں غریبوں کے ٹوٹے ہوئے گھروندے نہیں دیکھاتے انکی دیسی
مرغیاں پکڑ کے کڑائی میں تل کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ خوشامدی لوگ آفت زدہ
گھروں کے ٹوٹے ہوئے گھڑے نہیں دیکھاتے ، متعفن ٹوبے نہیں دیکھاتے بلکہ
ٹھنڈے مشروبات کی بوتلیں اور منرل واٹر مہیا کرکے دیکھاتے ہیں کہ نہ دھرتی
پیاسی ہے اور نہ لوگ پیاسے ہیں، کیمرے والوں کو بھی معلوم ہونا چائیے کہ یہ
چندرا پیٹ تو ہر ایک کے ساتھ لگا ہے۔ وہ وزیر ہو یا فقیر فقیر ہاتھ پھیلا
کر مانگ لیتا ہے، وزیر پروٹوکول پھیلا کے مانگ لیتا ہے، مانگنے والا گدا ہے
صدقہ مانگے یا خراج،
ہر جگہ خیمے لگے ہوئے ہیں ان پر لکھا ہے کہ قحط زدگان کی مدد کیجئے اللہ کا
شکر ہے کہ ملک مخیر حضرات و خواتین سے بھرا ہوا ہے، ہر کوئی اپنی بساط کے
مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہا ہے۔ تھر پارکر کے دل گرفتہ لوگوں کی دلجوئی
کررہے ہیں، ملک ریاض جیسے لوگ بھی خزانے لٹا رہے ہیں، اللہ پاک کلام پاک
میں فرماتے ہیں کہ مجھے قرض حسنہ دو ،،،، ایسے موقعوں پر وہ اپنے بندوں کا
ظرف آزماتا ہے-
پاکستان کے اندر دو خوبصورت اور مشہور ترین صحرا ہیں۔ تھر پارکر اور
چولستان دونوں کی خوبصورتی دیدنی ہے مگر دونوں کی بد قسمتی میں مماثلت ہیں،
تعجب ہے اتنی جمہوری حکومیتں آئیں اتنے پیکیج پہلے بھی دیئے گئے مگر وہاں
نہ ہریالی نظر آئی نہ خوشحالی،،،،، انکے کچے گھروندوں کے اندر آٹھ دس چار
پائیاں اور نو دس مٹی کے گھڑے رکھے ہوتے ہیں۔ یہی انکا سرمایا حیات ہے، جب
کبھی ابر رحمت برستا ہے تو وہ گھڑے پانی سے بھر کر اندر رکھ لیتے ہیں، اور
باقی پانی گھر کے باہر بنائے گئے ٹوبوں میں بھر لیتے ہیں، پیاس لگتی ہے تو
بارش کے اس پانی میں پھٹکڑی ڈال کر اسے فلٹر کرکے پی لیتے ہیں، سبحان اللہ
ان جانگلیوں کو کیا معلوم کہ فلٹریشن کیسے کہتے ہیں، انکا صحرائی جہاز اونٹ
ہے یہ لوگ اسی پر سفر کرتے ہیں اور انکے مال مویشی صبر اور رضا کی کھال
اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں سردیوں کی یخ بستہ کہر آلود راتوں میں اور گرمیوں کی
دوزخ زدہ آگ برساتی دوپہروں میں اس چرخ نیلی فام کے تلےکھڑے رہتے ہیں،
برسات ہو تو انکے لیے چھپر نہیں ہے، یوں لگتا ہے کہ یہ لوہے کے بنے ہوئے
مویشی ہیں بھئی جہاں انسانوں کو انسان نہ سمجھا جائے وہاں مویشیوں کو مویشی
کیوں سمجھا جائے گا کیونکہ وہ تو بے زبان ہے زیادہ سے زیادہ دم ہلاتے ہیں
مگر دودھ دیتے رہتے ہیں۔ بے دم ہوجائیں تو انکا گوشت کام آتا ہے۔
اس چولستان کی معصوم زمین کو باہر سے آنے والوں نے خوب لوٹا تھر پارکر کو
اجاڑ کر رکھ دیا اور اب قحط نے انکے دروازے پر ڈیرے ڈال لیے، وزیر اعلی نے
جلدی نوٹس لیا ہے اور جو پیکیچ دیا ہے دو تین ارب روپے اس سے کئی نسلیں
سنور سکتی ہے، مگر جس محکمے کو اس خزانے کی کنجی سونپی گئی ہیں اس محکمے
میں بہت سے ہاتھ اوپر سے لے کر نیچے تک ہوتے ہیں وہ ہاتھ بیچارے قحط زدہ
لوگوں سے بھی زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں ، کاغذوں میں کچھ اور دیکھایا جاتا
ہے حاجتوں میں کچھ اور دیکھایا جاتا ہے اوپر والی سطح سے چلتا ہوہ ایک ہزار
کا نوٹ نیچے غریب کی ہتھیلی پر آتے آتے ایک روپے کا چڑا مڑا نوٹ بن جاتا ہے۔
شاباشی تو افسران کے حصے میں آتی ہے اور وحشت غریب کا مقدر بن جاتی ہے، اس
میں شک نہیں کہ ہر حکومت اپنے دور اقتدار میں غریبوں کے لیے اچھے کام کرنا
چاہتی ہے، اور بڑی خوشی سے رقم اور پیکیج پیش کرتی ہے مگر اسکے نتائج کی
ذمہ دار ہوتی ہے کہ نہیں چیک اور بیلنس رکھتی ہے یا نہیں، ورنہ چولستانیوں
کی قسمت اب تک بدل چکی ہوتی-
اگر پیکیج کی تقسیم تعمیل اور تشکیل ہمیشہ ملک حاجت مندوں کے ہاتھ میں ہوگی
تو بھلا وہ اہل اقتدار کو مرغن دعوتیں کھلانے کے سوا کیا کرے گا، لاکھ آپ
کہتے رہیں۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر،
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر، |