خلیجی امداد

گذشتہ دنوں سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد ہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود ایک بھاری بھر کم وفد کے ساتھ پاکستان کے دورے پر تشریف لائے ، وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی کابینہ کے ساتھ ان کا نہایت پرتپاک استقبال کیا، شہزادہ سلمان نے پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے قریباً ۳ ارب ڈالر (یعنی۳ کھرب روپیہ ) بلامعاوضہ دے کر اپنی تاریخی سخاوت ،بھائی چارے ،اور پڑوس نوازی کا ثبوت دیا،جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مسلسل گرتے ہوئے پاکستانی روپے کوامریکن ڈالر کے مقابلے میں قدرے استحکام نصیب ہوا، اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان کئی ثقافتی ،اقتصادی ،تجارتی ، دفاعی ،اور سیاسی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ۔

کچھ دنوں بعد مملکت ِبحرین کے شاہ حمد بن عیسی بن خلیفہ نے بھی چالیس سال بعد یہاں کا دورہ کرکے پاکستان کو اعزاز بخشا، وزیراعظم نے ایرپورٹ پرجاکر انہیں خوش آمدید کہا، ان کے ساتھ بھی متعدد اتفاقیات پر جانبین سے دستخط ہوکر ملکِ عزیز کو اقتصادی بحرانوں کے اس دور میں سہارا دینے کی ایک مبارک پیش رفت ہوئی ۔

مذکورہ دونوں ممالک اور خلیج کے دیگر ملکوں نے ہمیشہ کے لئے دوست ریاستوں کی طرح ہرمشکل گھڑی میں پاکستان کی طرف امداد کا ہاتھ بڑھایاہے ،ان ملکوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانی مختلف شعبوں میں کام کرکے کھربوں روپے کا زرِ مبادلہ کماکریہاں بھیجتے ہیں ،ہزاروں پاکستانی طلبہ ان کی یونی ورسٹیز میں اعلی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں،ان عرب ممالک میں پاکستانیوں کو دوسروں پر ترجیح بھی دی جاتی ہے ،زیارتِ حرمین شریفین ،مقاماتِ مقدسہ اور عرب دنیا کے ترقی یافتہ شہروں اور نظاموں کو قریب سے دیکھنے کے بہترین مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں ، چوری چکاری ، بدتمیزی ، ہلٹربازی اور بدکرداری سیکھنے کے بجائے یہ لوگ عربوں کے عظیم اخلاق سے بھی بہرہ ور ہوسکتے ہیں ،عربی زبان اور دیگر علوم میں بھی یدِ طولی حاصل کرسکتے ہیں ،یہ اوربات ہے کہ کچھ لوگ یہاں اچھی صحبت ،صالح سوسائٹی ِاور عمدہ صفات سے مزین ہونے کے بجائے بری صحبت اور نابکار سرگرمیوں سے وابستہ ہوجاتے ہیں ،ایسے لوگ وہاں قانون کی زد میں آجاتے ہیں یااﷲ کے عذاب میں، پھرانہیں سزائیں ہوجاتی ہیں،یامؤاخذہ ہوجاتاہے،پولیس اورعدلیہ کوہمارے یہاں کی طرح رشوت وسفارش سے بھی قابونہیں کیا جاسکتا، اس پرہم چیخ اٹھتے ہیں،جبکہ اصل اسباب اور عوامل پر ذرہ سی نگاہ ڈالنے کی زحمت سے ہمارے کچھ لوگ بالکل قاصر رہتے ہیں،کچھ اپنی ذہنی اورفکری نا رسائی کی وجہ سے ان سے عناد رکھتے ہیں ۔

اِدھرہماری سرحدات پر ہرطرف سے آگ لگی ہوئی ہے ،ہماری طرف ہرکوئی دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے ڈرتاہے،ہمسایہ ملک ایران تک نے ہمارے ملک میں گھس کر فوجی کاروائی کرنے کی دھمکی دی ہے ، اب ان حالات میں خلیج تعاون کو نسل کے ممالک نے اپنی گوناگوں مشکلات ومسائل کے باوجود ہمیں سینے سے لگایا، ہمارے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھا،مغربی ملکوں کی وہ رقم جو کھلم کھلا ’’ڈو مور‘‘ کے لئے دی جاتی ہے ،وہاں ہماری قومی غیرت خراٹے لے رہی ہوتی ہے ،پریہاں تشکیک پیداکرنے اور برادر اسلامی ممالک کے ساتھ دوستی میں اغیار کے کہنے پررخنہ ڈالنے کے لئے ہماری میڈیاکیڑے نکالنے کی نامسعود حرکتیں شروع کردیتی ہے ، کچھ سیاست داں بھی حکومتِ پاکستان اور عرب ممالک کے خلاف ہاتھ دھوکر لگ جاتے ہیں ،ارے سوچو تو سہی، کیایہی بدلہ ہے احسان کا؟

ناداں کہتے ہیں ،شام فوج بھیجنے کے لئے یہ رقم دی گئی ہے،کیا ہماری فورسزشامی فوج،حزب اﷲ ،ایران وعراق ملیشیا اورروسی ماہرین ضرب وحرب سے دو دو ہاتھ کر نے کے لئے اتنی آسانی سے اقوامِ متحدہ کی چھتری کے بغیر جا سکتی ہیں،اور جب وہ چھتری فراہم ہو ،تو کیا ہماری حکومت کوکسی کی امداد کی ضرورت ہوگی،یا پھر یو این کے منشور کے مطابق اپنی ذمہ داری بہرحال پوری کرنی ہوگی؟

میڈیا کے ان دوستوں اور سیاست کے ان کھلاڑیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ سب سے بڑی خیانت زبان وقلم کی ہوتی ہے ،بندوق کی گولیوں سے تو چند افرادہی لقمۂ اجل بنتے ہیں ،لیکن ان دونوں ہتھیاروں کی وار سے پوری پوری قومیں تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں، حزب اختلاف کاکام ہوتا ہے، حکومت سے اختلاف کرنا ،نہ کہ ریاست سے اختلاف کرنا،حکومت اور ریاست میں فرق ہوتاہے، بین الاقوامی معاملات ہوں یا اندرونی رسہ کشیاں، اختلاف سیٹ اپ سے کیاجاسکتاہے ،سسٹم سے نہیں ، لیکن کیا کیجئے گا، کچھ عرصہ سے عالم اسلام کو بالعموم اور پاکستان کوبطور خاص مذہبی فرقہ واریت کی راہ پرڈالنے کی سازش کی جارہی ہے، امدادکے اس قصے میں یہی عامل کارفرما ہے ،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پہلے یہ بیماری ہمارے مذہبی طبقے میں اگر تھی ،تواب یہ ہماری سیاسی پارٹیوں،بیوروکریسی ،میڈیااور اسٹبلیشمنٹ میں رچ بس گئی ہے ،ہماری اگر یہی حالت ہوئی، تویوں ہم بین الاقوامیت کے اس دور میں بین الممالک جھگڑوں اور نزاعات میں اپنامثبت اور فعال کردار ادا کرنے کے تو لائق ہی نہیں ،ساتھ ہی اپنا بیڑہ بھی خود ہی غرق کردینگے ،الامان الحفیظ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877736 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More