اب بولتے کیوں نہیں؟

جب سے حکومتی اور طالبانی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈلا ہے میں نے اس پہ لکھنا بند کیا کیا ،میرے دوستوں کو گویا کھیل ہاتھ آ گیا۔ روز فون کر کے ،ای میلز بھیج کے چٹکیاں کاٹتے ہیں کہ اب بولو ناں،بولتے کیوں نہیں۔شاعر کہتا ہے کہ
میں تو اس بات پہ چپ تھا کہ تماشہ نہ بنے
وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان سے گلہ کچھ بھی نہیں

ہمارے ہاں دو طبقات ہیں ایک وہ جو طالبان کے حامی ہیں اور ایسے کہ ان پہ طالبان کا گمان گذرتا ہے۔دوسرا گروہ وہ ہے جو طالبان کو واجب القتل سمجھتا ہے اور ان سے کسی رعائت یا مذاکرات کا قائل نہیں۔میں ان دونوں طبقات سے متفق نہیں۔ میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں شروع دن ہی سے طالبان کی قبائلی شریعت کے بزور شمشیر نفاذ کے خلاف رہا ہوں۔ میں اس میں کتنا حق بجانب تھا اس کا فیصلہ کچھ تو وقت کر چکا کچھ تھوڑے دنوں میں کر دے گا۔میں نہیں سمجھتا کہ نہتے معصوم اور عملی طور پہ اس جنگ سے غیر متعلق لوگوں کو مسجدوں بازاروں اور گلی کوچوں میں شہید کرنا کسی بھی طور جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔میں اولیاء اﷲ کی محنت اور عظمت کا قائل ہوں اور ان کے مزاروں کی بے حرمتی بھی میرے لئے ہمیشہ صدمے کا باعث رہی ہے۔ریاست پاکستان میرے ایمان کا حصہ ہے اور جو اس کے اداروں کی تباہی کے درپئے ہو مجھے وہ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔وہ کوئی فوجی ہو،سیاست دان ہو یا طالبان ۔میرا ایمان ہے کہ یہ ملک اﷲ کریم کے نظام ہی کے لئے بنا ہے اور جلد یا بدیر یہیں سے اسلام کی نشاط ثانیہ کا آغاز ہو گا۔

دوسری طرف وہ لوگ جو طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا نعرہ لگاتے ہیں ان میں بھی دو گروہ ہیں۔ایک مسلکی منافرت کی بنیاد پہ چاہتا ہے کہ حکومت یہ کام کر گذرے تا کہ گلیاں ہو جانڑ سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔دوسرا گروہ البتہ زیادہ خطرناک ہے جو امریکہ بھارت اسرائیل اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے ایماء پہ یہ کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ میں جس طرح اور جتنا طالبان کا مخالف ہوں اس سے زیادہ اس گروہ کا مخالف ہوں کہ یہ ہماری ہی گود میں بیٹھ کے ہماری داڑھی نوچ رہے ہیں۔طالبان اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ابھی تک امہ نے ان کے غیر مسلم ہونے کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔وہ بہرحال پاکستانی بھی ہیں۔ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کی بات کرتے ہیں تو مسلمانوں کے ایک گروہ کو کیوں برداشت نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ جہاں میں نے یہ لکھا کہ طالبان اگر ایک پاکستانی کو شہید کریں تو اس کے بدلے میں ان کے دس مارے جائیں وہیں باوجود انتہائی مخالفت کے میں نے یہ بھی عرض کیا کہ اتمام حجت ضروری ہے۔ وہ لوگ جو دشمن کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں ان سے کوئی رو رعائت نہیں بنتی لیکن جو اپنی کم فہمی لا علمی اور جہالت کی بنیاد پہ اسلام کو خلوص دل کے ساتھ بزور شمشیر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ان سے مکالمہ کیا جانا چاہیئے۔ممکن ہے کہ اﷲ کریم کسی کو ہدایت نصیب فرمائے۔

نقارہ خدا کے انہی کالموں میں میں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پہ لانے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائے۔ طالبان کے لب و لہجہ سے اس وقت یہی محسوس ہوتا تھاکہ وہی شاید زمین پہ اﷲ کے خلیفہ ہے اور باقی سب پنجابی والے خلیفے لیکن چار دن کی ائر سٹرائیک نے ان کا دماغ ٹھکانے لگا دیا اور ان کی طرف سے بھی مذاکرات کی حمایت میں بیان آ گیا۔ جب یہ سلسلہ چلا تو میں نے ہی سب سے پہلے عرض کیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ فوج کا بھی ایک نمائندہ شامل ہو۔فوج نے خود بھی مذاکرات میں شمولیت سے انکار کیا اور نومولود سیاسی نابغے بھی یہ بنیادی بات نہ سمجھ سکے کہ فوج ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ طالبان کی کس بات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اور کون سی بات نا قابل عمل ہے۔سیاستدانوں میں سے اکثر تو یہ بھی نہیں جانتے لیکن وزیرستان بلوچستان کے شروع میں ہے یا کے پی کے آخر میں۔گھر بیٹھ کے منصوبے بنانا اور بیان دینا اور بات،تپش اسی جگہ کو محسوس ہوتی ہے جہاں آگ جلتی ہے۔اب معاملات تقریباََ اسی سمت رواں ہیں جس کی طرف میں مہینوں لکھتا رہا۔ طالبانی اور حکومتی کمیٹیاں مل رہی ہیں۔جگہ کا تعین ہو گیا ہے۔مطالبات کی فہرستیں بھی بن گئی ہیں۔ فرسز کا نمائندہ بھی شامل ہو گیا ہے اس لئے میں بھی چپ ہو گیا ہوں۔ انتہائی خلوص ست صبح و مساء یہ دعا مانگتا ہوں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ملک میں امن آئے۔معیشت کا پہیہ چلے اور مخلوق خدا کی زندگی آسان ہو۔خلق کی آسودگی اﷲ کی نعمت اور رحمت ہوتی ہے ۔

میں چاہتا تو نہیں تھا کہ میں کوئی پیش گوئی کروں لیکن دوستوں کی فرمائش پہ کہے دیتا ہوں کہ مجھے ان مذاکرات سے کسی بڑے بریک تھرو کی امید نہیں۔ مجھے نہ تو طالبان کے معاملے میں کوئی شک ہے اور نہ حکومت کے خلوص پہ کوئی شبہ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ جن اسی وقت تک قابو میں رہتا ہے جب تک وہ بوتل کے اندر ہو۔یہ جن ہم نے اپ ی ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پہ خود اپنے ہاتھوں باہر نکالا تھا۔اب اسے دوبارہ بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے کام ڈھونڈنا ضروری ہے۔جس دن آقا کے پاس کام ختم اس دن آقا کا کام بھی تمام۔ اس جن کے لئے ہمارے پاس کام ہے لیکن اس جن کو وہ کام دینے کا مطلب ہے ایک دیو کے منہ میں ہاتھ ڈالنا۔اس کام کی شاید ہم میں ہمت نہیں اور مستقبل قریب میں نظر بھی نہیں آتی۔ہاں ڈالر پچاس روپے پہ آجائے تو شایدہم میں سے کوئی یہ ہمت بھی کر لے۔برائی ختم کرنے سے کام نہیں چلتا۔اسے ختم کرنا مقصود ہو تو اس کی جڑوں پہ وار کرنا پڑتا ہے۔عربوں کے اربوں سے ہم کلہاڑی تو شاید خرید لیں لیکن اس کا دستہ۔۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں یہ بہت بعد کی باتیں ہیں اور کالم میں بس اتنی ہی گنجائش ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269122 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More