تو بھی لٹ نہ جائے بہارو ں کے ساتھ

عام انتخابات کے ایام قریب تر ہو تے جارہے ہیں اور ایسا لگ رہاہے کہ ایک بار پھر ہندو ستان میں ایک نئے مہابھارت کا آغاز ہو نے والا ہے سیاسی مو قع پر ستی اور مفا د پرستی کی نئی نئی طر حیں سامنے آ رہی ہیں ،جو کل تک سیکو لرتصور کیے جاتے تھے یک لخت فرقہ پر ستو ں کی معیت کواپنانصب العین سمجھنے لگے حتی کہ جو زبان و قلم فرقہ پر ستو ں سے قلمی جہاد کو اپنا مشغلہ خیا ل کر تا تھا اب وہی فر قہ پر ستو ں کی قصیدہ خوانی اور مدح سرائی میں ر طب اللسان ہے اور یہ بھی کیسی سیا سی افتاد ہے کہ جو سر کبھی وحدہ لا شریک کے سامنے خم ہوتا تھا اب پتھروں کے ’تر اشیدہ صنم ‘کے آگے خم ہو رہا ہے الغر ض مفا د پرستی اور خو د پر ستی کا جو آل انڈیا مسابقہ چل رہا ہے بہت ہی حیران کن ہے کیو نکہ اس بدلتے ہو ئے سیاسی رجحانات سے سیکو لر زم او رجمہوریت کا خون ہو رہا ہے او رجو امیدیں سیکو لر کہے جانے والے افراد سے و ابستہ تھیں و ہ معدو م ہوتی جارہی ہیں کیو نکہ جب ایم جے اکبر جیسا بے باک اور نڈر فرد ہی فرقہ پر ستو ں کی رفاقت اختیا ر کرلے او رخو د ہی اپنی لکھی ہو ئی ’داستاں ہو شربا‘کو کا لعدم قراردے تو ا س صو رتحال میں سوائے ماتم کے او رکیا کیا جا سکتا ہے ،یہ نہ تو ہندو ستان کی تصویر ہے او رنہ ہی اس شخص کی بے غبا روبے داغ کردارجسے ایک متحد اور سیکولر فردکہا جائے بلکہ یہ وہ لو گ ہیں جو ا س سے قبل اپنی خو کو چھپا کر رکھے ہو ئے تھے اب مو قع آتے ہی اس کا بر ملا اظہا رکر دیا۔ ایم جے اکبر کے اس اقدام پر چند سوالات قائم ہو تے ہیں کہ آیا وہ ساری کو ششیں اور وہ تمام جدو جہد جو انھو ں نے ایک سچے ہندو ستانی ہو نے کی حیثیت سے فرقہ پر ستو ں کیخلاف کی تھیں ان کا محو رو مر کز کیا تھا ؟انھو ں نے اپنی ہی خود نو شت بے غبا رتاریخ کو مسخ کیا آخر ش اس کے پیچھے کو ن سے عناصر و محرکات کار فرما تھے ؟او رآخر کیا ہوا ایم جے اکبر کے ان قول و قرار او رعہد و پیمان کو جو انھوں نے کبھی ایک مخلص ہو نے کے باعث کہا تھا کہ فرقہ پر ستی ملک کیلئے ایک ناسور ہے او ر پھر ان کو کس کی نظر لگ گئی کہ کل وہی مو دی ان کی نظر میں مو ذی تھا اور وہی بی جے پی قابل نفرت تھی لیکن آج ان کیلئے یہ قابل نفرت چیزیں محبو ب بن گئی ہیں او رپھر ستم یہ روا کیا کہ انھو ں نے گجرات کے قتل عام کو بھی فرا مو ش کر دیا کہ جہاں بقول مو صوف کے کہ چنگیز ،ہٹلر ،ہلاکو اور تاتار یو ں کی یادیں تازہ ہو گئیں او رانھو ں نے یہ بھی کیا کہ خون خون گجرات کو بھو ل گئے کہ جہاں صرف او رصرف خو ن ہی خون تھا ،بے گو رکفن لاشیں تھیں اور فرقہ پر ستو ں کے اہانت آمیز قہقہے فضامیں گو نج رہے تھے !!جواب اس ذیل میں ہز ارو ں ہو ں او را سکی لا کھو ں و جو ہات بیان کی جائے تاہم راقم کے نزدیک ا س کا ایک ہی نقطہ جو اب ہے وہ یہ کہ انھو ں نے جو بھی کچھ کیا تھا ایک سچے ہندو ستانی ہو نے کی علامت تھا او رجو کچھ انھو ں نے آج کیا ہے وہ ایک غیر سیکو لر او ر فرقہ پر ستو ں کے حامی و مددگارہو نے کی بد ترین مثال ہے نیز منافقت کی تازہ کریہہ المنظر ایک تصویر، جگر مرادآبادی کا یہ شعر ان ہی طالع زبو ں کے متلو ن مزاج احوال پر تازیانہ ہے ؂
لو ٹ بہاریں نہ چمن کی بہت
تو بھی نہ لٹ جائے بہارو ں کیساتھ

یہ بھی ستم بالائے ستم ہے کہ جب سے مو دی کے بنارس سے الیکشن لڑنے کا اعلان ہو ا ہے بھگو اپر ست ذہنیت او راس بھگو ائیت پر کامل یقین رکھنے والے افراد اور ہندو ستانی جمہو ریت کو ایک شی محض خیال کرنے والو ں نے جہاں اپنا ایمان بدل ڈالا وہیں کلمہ کفرو ارتداد فضا میں بلند کرنے لگے ،اس کی ماہیت و حقیقت بھی بدل ڈالی اور ہر ہر مو دی کا نعرہ فضا میں بلند کرنے لگے جب کہ یہ خود ان کا اپنا ایمان و ایقان ہے کہ ہر ہر کا نعرہ ’مہا دیو‘ کے لیے لگتا ہے ا سکا تقاضا تو یہ تھا کہ و ہ مو دی کے عشق کے ساتھ ساتھ ’دیر‘ میں ایستادہ معبو دو ں کی لاج رکھتے اور مو دی کی ’جے کا ر‘کے بجائے ان معبو دو ں کی جے کار لگاتے مگر اف!یہ نادانی او ربددماغی کہ اپنو ں کے ہاتھو ں ان بتان بے نوااپنی جگ ہنسائی قرار دے رہے ہیں۔ مو دی کی جے کار تو او ردو سرے طریقے سے بھی لگائی جاسکتی ہے تاہم ضرورت کو نسی آن پڑی کہ مو دی کا کلمہ بلند کر نے لگے بھگو اپر ست افراد کے اس رسواکن عمل سے جمہو ریت ہی نالاں نہیں ہے بلکہ ان کے خداؤں کو بھی غیض و غضب آ چکا ہے یعنی ان کے لیے’ کال کا چکر ویو‘آکھڑا ہو گیا ہے جو پل جھپکتے ہی آن و احد میں ہر چیز کو زیر و زبر کردیا جائے گا ،آرایس ایس کے ہاتھو ں میں بی جے پی کی قسمت قید ہے ا سکی یہ شاطرانہ چالیں ہیں کہ مو دی کو بنار س سے الیکشن لڑنے کاحکم صادر کیا کیو نکہ بنارس مذہبی رو سے بڑی اہمیت کاحامل شہر ہے او رہندو برادری کے نزدیک اس کی تقدیس و تحریم مسلم ہے اسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو ئے مو دی کیلئے بنارس کا انتخاب کیا ہے گو یا اس طرح آر ایس ایس اپنے مقاصد میں کامیاب ہے کہ مذہب کے نام پر جہاں تک ہو سکے ووٹ کو بڑھایا جائے نیز بھگو ا پر ست افراد اس خو ش فہمی میں ہیں کہ ان کی جو کشتی دریائے گنگا کے منجدھار میں ہے ا سکو مو دی بنارس کی گنگا سے بحفاظت ساحل تک لے آئیں گے اسی فکر و خیال کا تھو ڑا سا شمہ یہ بھی ہے کہ مو دی کے تعشق و تعبد میں آرایس ایس کے کارندو ں نے ’ہر ہر مو دی ‘کا نعرہ بلند کیا تا کہ ان کا جو خواب ہے و ہ شرمندہ تعبیر ہو جائے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ خواب شرمندہ تعبیر ہو تا ہے یا پھر خواب دیکھنے والے خوا ب کو ہی تر س جائیں گے ۔بی جے پی کے کر ایے کے ٹٹو ؤں نے شاید اپنے مذہبی تقدیس و حرمت کو بھلا دیا کہ یہاں غیر کی ’جے کار‘ لگانا حرام ہے مگر یہ ان کی ہذیان گوئی اور فرقہ پرستی کی بد ترین مثال ہے کہ مو دی کے نام کا ’کلمہ ‘اور ’نعرہ‘بلند کرنے لگے ۔دوار کا پیٹھ کے شنکر اچاریہ سو روپانند کا اعتر اض بالکل بجا ہے ،سو روپانند نے بر ملا اس غلطی او رگناہ پر متنبہ کیا کہ نعرہ تو’ ہر ہر مہا دیو ‘کا لگتا ہے اب کیا ’مہادیو ‘کی جگہ مو د ی کی مو رتی لگے گی ؟کیا بھگو ان کی مو رتی کی جگہ مو دی کی مو رتی کی پو جا کی جائے گی ؟در اصل سو روپا نند نے یہ اعتر اض اس وقت کیا ہے جب ان کو اس خطر ہ کی بو محسوس ہو نے لگی کہ جب مو دی کے تعشق و تعبد کی یہ صو رتحا ل ہے اور اس کی اسی قدر تعظیم کی جارہی ہے نیز ا س کے نام کی جے کار لگا ئی جارہی ہے تو پھر ’دیر ‘میں ایستادہ خداؤں کا کیا ہو گا؟سو رو پانند کا یہ اعتر اض حق بحانب ہے اسی طرح و شو ناتھ مندر کے مہنت نے بھی اپنا فتو ی جاری کیا کہ کاشی کا کو ئی بھی شخص اپنی زبان سے’ ہر ہر مو دی ‘کا تلفظ نہیں کر یگا ۔بی جے پی اور قاتل صد ہزار کی بھی اس ذیل میں صفائی آچکی ہے نیز ساتھ ساتھ یہ اپیل بھی کی ہے کہ کو ئی ’ہر ہر مو دی ‘کا نعر ہ نہ لگائے لیکن یہ خیال کر نے کی بات ہے کہ کیا اس اپیل کاکو ئی بھی مثبت اثر دیکھنے کو ملے گا یا پھر گھر گھر مو دی کو پہو نچانے کی ناکام سی کو شش ہو تی رہے گی ؟اس ذیل میں بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ مو دی کے نام کا اثر کافی حد تک مؤثر ہو رہا ہے یہ سچ ہے مگر ا س کا اثر صر ف فرقہ پر ست افراد تک ہی محدو د سمجھنا چاہیے جو اس بات کاکامل یقین رکھتے ہیں اور ان کے دل میں یہ خو اہش کر و ٹیں بدل رہی ہے کہ اس دفعہ مو دی کو وزارت عظمی کی کر سی دلاکر ہی دم لیں گے یہ ممکن ہے کہ ا ن کے یقین و عزم اپنے شباب پر ہو ں او ران کی شدید خو اہش ہو کہ مو دی کو وزیر اعظم کی کر سی تفویض کرکے ہی دم لیں گے مگر یہ یاد رکھنا ہو گا کہ کیا ایسا ہو ا ہے کہ تمام انسانی خو اہشات پو ری ہوگئی ہو ں؟یہ ان کی خود فرامو شی ہی کہہ لیں کہ گذشتہ لو ک سبھا انتخابات میں اڈوانی ممکنہ وزیر اعظم خیال کئے جاتے تھے مگر آج تک حسر ت بیداد ہی رہی اسی تمنائے ناتمام میں پیری سر پہ جواں ہو گئی مگر حسر ت اپنی جگہ حسر ت ہی رہی کیو نکہ مو صوف کی شبیہ بڑی حد تک غبار آلو داور فرقہ پر ستی کے زہر میں لت پت تھی ،عوام کی ایک بڑی جماعت نے ا سکو مستر د کر دیا اب مو دی او ر اس کے ہم نوائے بے نوا یہ خیال کر یں کہ مو دی جمہو ریت کے معیار و میزان کے مو افق کس مقام پر ہے ؟کل اڈوانی کا خواب چکنا چو ر ہواتھا آج مودی اسی خواب کو بن رہا ہے کیا یہ امید لگانا درست ہے کہ مو دی کاخوا ب خواب نیم باز ثابت نہ ہو گا؟

ہند و ستان کی درست او رراست تعریف اگر کسی بھی فردسے معلو م کی جائے تو مختلف اقسام کی تعریفات سامنے آئیں گی ان تمام تعریفات کاکیف و کم او رلب لباب یہ ہو گا کہ ہند وستان کی اصل جامع و مانع تعریف وہی ہے جو مو دی اپنی شعلہ بار احمقانہ تقاریر میں کیا کر تے ہیں آخر اس حماقت اور طو طا چشمی کی کو ئی حد ہے یا نہیں با لفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ و ہی تعریف درست اور حق ہے جو مود ی اپنی تقریر میں کیا کر تاہے تو پھر ان تعریفات کاکیا ہو گا کہ جن کی تخلیق کروڑوں مجاہدین آزادی نے اپنی لہو سے کیا تھا اور پھر ان نعرہا ئے عقل و ہو ش کا کیا حشر ہو گا کہ جن نعرو ں کو آپسی محبت و اخوت اور ملک کی سا لمیت کیلئے سنگ میل تصور کیا گیا تھا ؟؟لیکن اگر میں کہو ں کہ بد قسمتی اور حر ماں نصیبی آزادی کی بیش بہا دو لت کے ساتھ ساتھ ہمیں دی گئی تو بے جانہ ہو گاکیو نکہ آزادی ایک بڑی نعمت ہے اگر کسی نااہل کو آزادی کی نعمت مل جائے تو یہ خوش بختی کے بجائے بد بختی کی واضح اور بد ترین مثال ہو جاتی ہے اور ا س ملک کی جو صو رتحال دن بدن ہو تی جارہی ہے اس سے مزید واضح ہو رہا ہے کہ بد بختی قریب تر ہو گئی ہے کیا یہ بدبختی نہیں کہ مذہبی نعر و ں کیساتھ سیا سی عفریت بید ا رہو چکا ہے اور سیکولر نام نہاد افراد مو قع کی تلاش میں ہیں ملک کے غیر مستحکم حالات سے دلچسپی کم ہے یا بالکل سرے سے غائب ہے ،آرایس ایس یا پھر بی جے پی یا اس کی ذیلی جماعتیں ہندو ستان کے مفادکی بات تو کر تی ہیں مگر خداجانے ان کی نظراور مطمح فکر میں کو ن ساہندو ستان ہے کیا وہ ہندو ستان جس کی بنیاد آزاد ی کی عین صبح میں رکھی گئی تھی یا پھر وہ ہند وستان جس کا خو نچکاں نقشہ ان کے دل و دماغ میں کروٹیں لے رہا ہے لیکن یہ بھی ستم ہی کہہ لیں کہ یہ فرقہ پرست جماعت بھی بھارت سے اپنے نام نہاد عشق و محبت کا اظہا رکر تی ہے اف !یہ بھی کیسا عشق ہے جس کا نہ تو کو ئی اپنازندہ کر دار ہے او ر نہ ہی کو ئی پایندہ معیار !!!مو دی کے نام کی جے کار نہ تو ان کے دیو مالائی عقائد کی رو سے درست ہے او رنہ ہی سیا سی رو سے کیو نکہ ووٹ کی تحصیل مذہب کے ’مقدس ‘نام پر نہ ہونی چاہئے بلکہ جمہوریت اور سیکو لرزم کی بنیاد پر ہونی چاہئے کیو نکہ بھارت ایک جمہو ری ملک ہے اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہندو تو اور دیگر مذہبی جنون بھارت کو غارت کر دینے والے عناصرہیں جب کہ بھارت کے اجزائے تر کیبی میں سیکو لر زم او ربقائے باہمی اول درجہ میں آتی ہیں اور اس کی خشت او ل صرف اور صرف سیکو لر زم ہی ہے لیکن افسوس سیاست کو مذہب کے رنگ میں رنگ کر جہاں سیا ست کو آلو دہ کر دیا گیا ہے وہیں مذہبی تقدیس و تحریم کی دھجیاں بھی بکھیر دیں اگر حقیقت پسندانہ سیا ست میں مذہب کی شمو لیت ہو تو یہ نیک فال ہے مگر ماتم تو یہ ہے کہ مذہب کے نام پر استحصال ،فریب کاری اور عیاری ہے اس سے اندازہ لگائیے کہ ’ہر ہر مودی ‘ او ر’گھر گھر مو دی ‘ ایک طرف جہاں مکروہ سیاسی پا لیسیو ں کا غماز ہے تو وہیں مذہبی حرمت کی پامالی کی صاف وجہ بھی کیو نکہ بزعم خویش یہ نعرہ ان کے خداؤں کیلئے و قف ہے اوران کے گھر گھر میں ان ہی کے خداؤں کی صبح و شام رو نمائی ہو تی ہے ۔ہندو تو نے تو اپنی تمام تر قو تو ں کامظاہر ہ کر چکی ہے حتی کہ اپنا کلمہ بھی بد ل ڈالا ہے ،اب سیکو لر افراد کی باری ہے کہ وہ بھی ان نعرہائے خو ش آئند سے جواب دیں جو ملک کی سا لمیت ،اخوت و مروت پر مبنی ہو ں تاکہ بھارت کی وہ دل نشیں تصویر پامال نہ ہو جس کی رونمائی صبح آزادی کے اول وقت میں ہو ئی تھی اور جس صبح میں آزادی کی اذان ہندو ستان کے شرق و غرب میں گو نجی تھی ۔
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50651 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More