اس وقت پاکستان کئی بحرانوں سے گزررہاہے۔پاکستانی عوام
پریشان حال ہے۔امریکی میڈیانے ایک بارپھر پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کی
کوشش کی ہے۔سانحہ ایبٹ آباد کو الزامات اورافسانوی کہانی بنا کرپوری دنیا
میں پیش کیا ہے۔ سانحہ ایبٹ آبادکی رپورٹ ایک سستی شہرت حاصل کرنے والے
امریکی صحافی کارلوٹا گال CARLOTTA GALL نے تیارکی ہے۔ پاکستان کی طرف سے
نیویارک ٹائمز میں سانحہ اینٹ آباد ’’اسامہ بن لادن کی موت‘‘ کی رپورٹ کو
مسترد کیا گیا ۔ کہ پاکستان کی فوجی قیادت کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن
کی موجودگی کے بارے میں علم تھا۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتکاروں نے اس
الزام کو مسترد کرنے کے لئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ امریکی حکومت خود یہ
اعتراف کر چکی ہے کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ان سفارتی حلقوں نے
اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے طویل مضمون میں بعض
واقعاتی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ
ساری رپورٹ ایک افسانوی کہانی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
2 مئی 2011ء کو امریکی فوج نے ایک خفیہ آپریشن میں دنیا کے سب سے زیادہ
مطلوب شخص اور دہشت گرد اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملہ کی
اطلاع امریکی حکام نے خود صدر آصف زرداری اور پاک فوج کے سربراہ ریٹائرڈ
جنرل اشفاق پرویز کیانی کو دی تھی۔ فوری طور پر صدر زرداری نے اس خبر پر
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواباً امریکی حکام کو مبارکباد کا پیغام بھی دیا
تھا۔ تاہم جلد ہی یہ حقیقت سامنے آ گئی تھی کہ مملکت پاکستان کی سرحدوں کی
حفاظت کرنے والی فوج یا ائر فورس کو اس کارروائی کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔
دو امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کی سرحد میں کئی سو کلومیٹر اندر آ کر
آرمی اکیڈمی کے نواح میں ایک مکان پر حملہ کیا۔ وہاں مقیم لوگوں کو ہلاک
کیا۔ وہاں سے اہم دستاویز اور کمپیوٹر اٹھائے اور کسی رکاوٹ کے بغیر واپس
چلے گئے ۔حکومت پاکستان نے اس سانحہ کی تحقیق و تفتیش کے لئے سپریم کورٹ کے
ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کی نگرانی میں ایک 5 رکنی کمیشن مقرر کیا تھا۔ تاہم
اس کی رپورٹ کو جو دو سال کی مشقت کے بعد تیار کی گئی تھی، قومی راز بنا کر
سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔ اس سانحہ کے بارے میں حکومت پاکستان
نے نہ تو کوئی تفصیلات بتائی ہیں اور نہ ہی فوج یا سویلین شعبہ میں کسی شخص
نے اس حملہ کو ناکام بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ کسی بھی فوجی افسر یا
سرکاری عہدیدار کو اس پاداش میں کسی قسم کی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
البتہ پاکستانی حکام نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گرفتار کر کے اس پر غیر واضح
الزامات ضرور عائد کئے ہیں۔ امریکی احتجاج کے باوجود شکیل آفریدی کو دہشت
گردوں کی حمایت کے الزام میں طویل سزا دی گئی ہے اور اسے رہا کرنے سے مسلسل
انکار کیا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک جعلی ویکسی نیشن مہم کے
ذریعے اسامہ لادن کے ڈی این اے DNA سیمپل لینے اور یہ تصدیق کرنے میں
امریکی حکام کی مدد کی تھی کہ اسامہ بن لادن واقعی اس مکان میں مقیم تھا
جہاں بعد میں اسے قتل کیا گیا تھا۔ امریکی حکام ایک دوست ملک کے اندر اتنا
اہم آپریشن کرنے سے پہلے سو فیصد اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ وہ
درست ٹارگٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی غلطی حملہ کرنے والے
فوجی یونٹ اور امریکہ و پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے تباہ کن ثابت ہو
سکتی تھی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے یہ اہم خدمت سرانجام دی تھی۔اگرچہ یہ کہا
جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے غیر ملکی ایجنسی کے ساتھ تعاون کر کے
غداری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اسے سزا دینے کے لئے غیر قانونی اسلحہ اور
انتہا پسند گروہوں کی مدد جیسے الزامات گھڑے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے
قبائلی علاقوں کے انتظامی قوانین کے تحت ایک بیورو کریٹ کی عدالت نے سزا دی
تھی اور حال ہی میں ایک کمشنر کی عدالت نے اس کی سزا میں دس برس کی تخفیف
کر کے اسے 23 برس کر دیا تھا۔ یہ معاملہ نہ تو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا
گیا ہے اور نہ ہی ڈاکٹر آفریدی پر وطن سے غداری کا مقدمہ قائم ہؤا ہے ۔ اس
طرح یہ معاملہ بھی ایبٹ آباد سانحہ پر اخفائے راز کا پردہ ڈالنے کے عمل کا
ہی ایک حصہ ہے ۔
آخر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس معاملہ میں کیا چھپانا چاہتی ہے ۔ نیویارک
ٹائمز کی افغانستان اور پاکستان کے لئے بارہ برس تک نمائندہ رہنے والی
صحافی کارلوٹا گال CARLOTTA GALL نے اپنی رپورٹ بعنوان ’’ پاکستان بن لادن
کے بارے میں کیا جانتا تھا ‘‘، میں اسی سوال کا سراغ لگانے کی کوشش ہے اور
بعض تکلیف دہ انکشافات کئے ہیں۔ یہ رپورٹ مس گال کی کتاب ’’ غلط دشمن
افغانستان میں امریکہ 2001-2014 ، The Wrong Enemy---- American in
Afghanistan سے لی گئی معلومات پر مشتمل ہے ۔ اصل کتاب چنددنوں بعد شائع ہو
گی۔ تب ان معاملات پر مزید معلومات بھی سامنے آ سکتی ہیں۔اس کتاب کے
اقتباسات پر مبنی جو تفصیلی رپورٹ نیویارک ٹائمز نے بدھ کو شائع کی ہے اس
میں صرف اسامہ بن لادن کے حوالے سے انکشافات نہیں کئے گئے ۔ اگرچہ اس رپورٹ
میں پہلی بار یہ الزام لگایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد
شجاع پاشا کو ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم
تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی ٹیلی
فون کالز ریکارڈ کی تھیں جن سے یہ معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ
مصنفہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے القاعدہ کے تعاون سے
پیپلز پارٹی کی لیڈر بے نظیر بھٹو کو قتل کروایا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے
کہ 2007ء میں لال مسجد کے سانحہ میں آئی ایس آئی نے لال مسجد سے بغاوت کرنے
والے گروہ کا ساتھ دیا تھا۔
رپورٹ میں مشرف حکومت کے ایک وزیر کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ آئی ایس آئی
کے رول پر کابینہ میں بڑی لے دے ہوئی تھی مگر خفیہ ایجنسی کا نمائندہ
خاموشی سے یہ ساری تنقید سنتا رہا ہے ۔ مس گال نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس
آئی کو نہ صرف یہ کہ اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں علم تھا
بلکہ آئی ایس آئی میں اسامہ کے لئے ایک خصوصی ڈیسک بنایا گیا تھا۔ اس شعبہ
کے انچارج کا کام صرف اسامہ بن لادن کے معاملات کو دیکھنا تھا اور یہ افسر
اپنے کسی سینئر کو جوابدہ نہیں تھا۔اس رپورٹ میں کارلوٹا گال نے ذاتی تجربہ
کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ افغان طالبان کے لیڈر کوئٹہ کی پشتون
آبادیوں میں مقیم تھے اور وہاں پر ان کی زیر نگرانی مدرسے چلائے جاتے تھے ۔
افغانستان میں خود کش حملے کرنے والوں کو انہی مدرسوں میں تیار کیا جاتا
تھا اور وہیں سے ایسے خود کش بمبار بننے والے نوجوان بھرتی بھی ہوئے تھے ۔
یہ لوگ بعد میں افغانستان میں دہشت گردی کے لئے بھیجے جاتے تھے ۔ رپورٹ کے
مطابق آئی ایس آئی، طالبان قیادت کی ان پناہ گاہوں اور مدرسوں کی حفاظت
کرتی تھی اور کسی صحافی کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
اس رپورٹ میں پاکستانی فوج کے کردار اور آئی ایس آئی کے رول کے بارے میں
کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس لئے صرف اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایک پریس
ریلیز کے ذریعے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دینا کافی نہیں ہو سکتا۔ مئی
2011ء میں اسامہ کی ہلاکت کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر کے صحافی اس سوال کا
جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا دہشت گرد ایک طویل عرصہ تک
ایک ایسے ملک میں کیوں کر مقیم رہا جو بظاہر امریکہ کا حلیف ہے اور دہشت
گردی کے خلاف برسر پیکار بھی ہے ۔اس جدوجہد میں مختلف صحافیوں نے اس پیچیدہ
اور مشکل معاملہ کے مختلف حصوں کو ملا کر مختلف نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی
ہے ۔ مس گال نے پہلی بار یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسامہ کو پاکستان میں فوج
کی اعلیٰ قیادت کی سرپرستی اور تحفظ حاصل تھا۔ اس سنگین الزام کو محض غلط
قرار دے کر لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں کروایا جا سکتا۔نہ ہی سرکاری
وظیفہ خوار صحافیوں کے ذریعے امریکی صحافیوں پر دشنام طرازی کے ذریعے یہ
معاملہ دبایا جا سکتا ہے ۔ صحافیوں کا کام معلومات پہنچانا ہوتا ہے اور وہ
یہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بعض معلومات غلط بھی ہو سکتی ہیں
اور بعض نتائج غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے
نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ جن معاملات پر اس رپورٹ میں ’’ غلط ‘‘ معلومات
فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان کے بارے میں حکومت پاکستان اور اس کے ذیلی
ادارے درست اور سچی معلومات ثبوت کے ساتھ فراہم کر دیں۔ پاکستان کے عوام
بھی یہ ساری معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستانی حکام کی یہ بات مان
لی جائے کہ کارلوٹا گال کی معلومات غلط ہیں تو انہیں اس بات کا جواب بھی
دینا ہو گا کہ سچ کیا ہے ۔ آخر پاکستان اور دنیا بھر کے عوام کو حقائق کون
بتائے گا۔اس حوالے سے یہ دلیل کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان
اسامہ کو چھپانے میں ملوث نہیں، کافی قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہاں یہ نوٹ
کرنا ضروری ہے کہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کو مسترد کرنے کے
لئے امریکہ کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اس لئے بہتر ہو گا
پاکستانی حکام جو حقائق چھپاتے رہے ہیں اب انہیں منظر عام پر لایا جائے ۔
|