اسلام میں نشہ حرام ہے،کلمہ کے نام پر بنائے گئے ملک میں
منشیات کے عادی افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔کسی بھی شہر کے
چوک،چوراہے میں ،پارک میں چلے جائیں تو نشے کے عادی افراد ایک دو نہیں بلکہ
سینکڑوں کی تعداد میں نظر آئیں گے جو خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیوں کے
ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف اپنے گھر والوں کے لئے بھی پریشانی
کاباعث ہوتے ہیں۔یہی افراد نشہ نہ ملنے کی صورت میں چوری کی بھی ہلکی پھلکی
واردات کر لیتے ہیں تا کہ انکا نشہ پورا ہو۔پاکستان بھر میں 67لاکھ افراد
منشیات کا استعمال کرتے ہیں نشہ کے عادی افراد میں 78 فیصد مرد اور 22فیصد
تعداد خواتین کی ہے انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے والے 40فیصد افراد ایڈز کا
شکار ہو چکے ہیں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کیلئے حکومتی سطح پر
ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے پاکستان میں منشیات کے استعمال
کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے نے سال 2013ء کی سروے رپورٹ حکومت
پاکستان انسداد منشیات ڈویڑن ،امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے ادارے
برائے منشیات و جرائم کے اشتراک سے جاری کی جس کے مطابق ملک بھر میں 40لاکھ
افراد چرس،8لاکھ سے زائد ہیروئن ،4لاکھ سے زائد انجکشن، 16لاکھ دیگر اور 15
لاکھ افراد ادویات کے ذریعے نشہ کرتے ہیں یہ سروے 15 سے 64سال کی عمر کے
افراد میں سب سے زیادہ نشہ کرنے والے افراد کی عمریں 25سے 34 سال ہیں
خواتین زیادہ تر وہ نشہ آور اشیاء استعمال کرتی ہیں جو با آسانی میڈیکل
سٹورز پر دستیاب ہیں انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے والے 40 فیصد افراد ایڈز کا
شکار ہیں ان کے ذریعے ایڈز معاشرے کے دوسرے افراد میں تیزی سے منتقل ہو رہا
ہے نشہ کرنے والے افراد میں انجکشن کے ذریعے 2005ء میں 11فیصد 2008ء میں
21فیصد اور 2013ء میں 37فیصد افراد ایڈز کا شکار ہوئے فیصل آباد میں انجکشن
کے ذریعے نشہ کرنے والے 52فیصد ،ڈیرہ غازی خان میں 50فی صد،گجرات میں
46فیصد اور کراچی میں 42فیصد ایڈز کا شکار ہیں ۔ ملک بھر میں چار لاکھ سے
زائد افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں جبکہ صرف پنجاب میں یہ تعداد
260000ہے۔ ایک سال قبل حشیش صرف آزاد کشمیر میں استعمال ہوتی تھی لیکن ایک
سال کے اندر اندر یہ ملک بھر میں پھیل گئی ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے انکشا ف
کیا ہے کہ پاکستان میں ایڈز انجکشنوں کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں
کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے زیادہ سے زیادہ خصوصی
تھیراپی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی 180 ملین کی آبادی میں سے
چار لاکھ بیس ہزار افراد انجکشنوں کے ذریعے نشہ اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں۔
متعدد افراد ایک دوسرے کی ایچ آئی وی سے متاثرہ سرنجیں استعمال کرتے ہیں۔
پڑوسی ملک افغانستان میں ہیروئن کی آسانی سے دستیابی بھی پاکستانی شہروں کے
لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے اور اس صورتحال سے متاثر ہونے والے شہروں میں
خیبر پختونخوا کا صوبائی دارالحکومت پشاور بھی شامل ہے۔ پشاور میں بیس فیصد
IDUs میں ایچ آئی وی وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے اور یہ ایک خطرناک صورتحال
ہے۔ ملک بھر میں منشیات کے عادی افراد کیلئے محدود تعداد میں علاج کے مراکز
قائم ہیں ان مراکز میں صرف 1990 بیڈز ہیں جبکہ نشے کے مستقل عادی 42 لاکھ
افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہے 67لاکھ منشیات استعمال کرنے والے افراد میں
سے 20فیصد ایک سے زائد اقسام کا نشہ کرتے ہیں انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے
والے 73 فیصد افراد ایک ہی سرنج کا استعمال کرتے ہیں جس سے ایڈز اور دوسری
بیماریاں ایک دوسرے کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ منشیات اور کیمیکل کی روک تھام
کیلئے فوری طورپر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے جبکہ حکومت ادویات کی خرید و
فروخت کوبھی موثر نظام کے تحت لائے ڈاکٹروں ،پالیسی بنانے والوں، والدین،
نوجوانوں اور اساتذہ کو اس حوالے سے آگاہی دی جانی چاہیے۔ پاکستان میں
منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی بڑی وجہ افغانستان میں منشیات کی کاشت اور
بھارت میں کیمیکل کی پیداوار ہے پاکستان کو افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ
کیلئے راستے کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور یہاں سے منشیات د نیا بھر کو
سمگل ہوتی ہیں پاکستان کی سرحدوں پر بہتر کنٹرول کے ذریعے بھی پاکستان کو
منشیات سے بچا سکتا ہے ۔ حکومت پاکستان اگر ٹھوس منصوبہ بندی اور اقدامات
کرے تو منشیات کے عادی افراد میں کمی لائی جاسکتی ہے عالمی برادری کے تعاون
کے بغیر بھی پاکستان سے منشیات کا خاتمہ ناممکن ہے۔ پاکستان میں منشیات کا
بڑھتا ہوا استعمال ایک بڑا خطرہ ہے مسئلے کے حل کیلئے بڑے پیمانے پر
اقدامات کرنا ہوں گے بین الاقوامی برادری کے تعاون سے منشیات کی سمگلنگ،نشہ
کے عادی افراد کے علا ج و معالجے کے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کو
منشیات سے پاک کرکے اپنی آئندہ نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہو گا۔ ڈبلیو
ایچ او اور امدادی اداروں کا خیال تھا کہ پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس ان
افراد کی وجہ سے پھیل رہا ہے، جو متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں کام
کرتے ہیں اور چھٹیاں گزارنے یا اپنے بال بچوں سے ملنے پاکستان آتے ہیں۔حال
ہی میں ڈبلیو ایچ او کے ایک جائزے نے ثابت کیا کہ پاکستان میں ایڈز
انجکشنوں کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اور اس
صورتحال کے تدارک کے لیے زیادہ سے زیادہ خصوصی تھیراپی مراکز قائم کرنے کی
ضرورت ہے‘‘۔ پاکستان میں آج کل ART کہلانے والے اس طرح کے 13 مراکز قائم
ہیں، جن میں اب تک پانچ ہزار افراد کا علاج کیا جا چکا ہے۔اس جائزے کے
مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی تقریباً چار ملین افراد بھنگ یا گانجا
استعمال کرتے ہیں۔ نشے کے عادی افراد میں سے صرف ایک فیصد افیون اور ہیروئن
استعمال کرتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد کا تعلق افغانستان سے ملحقہ
پاکستانی علاقوں سے ہے۔
دنیا بھر میں 100میں سے50اموات منشیات کی وجہ سے ہورہی ہیں ایک سگریٹ انسان
کی زندگی کے 11منٹ ایک گھنٹے میں اور اس کی عمر کے 10سال جو وہ جی سکتا تھا
کم کردیتا ہے ۔ نسوار، پان، گٹکا وغیرہ تمام کا انسانی زندگی پر یکساں
اثرات پڑتے ہیں1982ء میں اسلامک کانفرنس کے تحت منعقدہ سیمینار میں14ممالک
کے علماء کرام نے تمباکو نوشی کو حرام قرار دیا اور پاکستان میں اسلامی
نظریاتی کونسل نے26مئی 2000ء میں فتویٰ دیا تمام علماء متفق ہیں مگر انسداد
تمباکو نوشی پر ساری انسانیت متفق ہے پینے والے ہوں یا نہ پینے والے کوئی
انسان بھی اس عادت کی تعریف نہیں کرتا ۔ سانس، اعصاب، خون ،معدہ کی سنگین
بیماریوں کی بنیادی وجہ تمباکو نوشی ہے یہ موت ہے اور اس کے خلاف ہر قیمت
پر تحریک چلانا ضروری ہے تاکہ لوگوں میں شعور وآگاہی ہو اس وقت سالانہ
2کروڑ لوگ اس سے زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں اور پاکستان میں70لاکھ افراد
تمباکونوشی کے عادی ہیں جو پورے نظام کیلئے نقصان دہ ہے نشہ اسلام میں حرام
ہونے کی وجہ سے اس سے جان کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے مال کا اسراف بھی
حرام ہے اور نشہ خود بھی حرام ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ نشہ کے عادی افراد کے
لئے ضلعی سطح پر ایسے مراکز بنائے جہاں انکی اس عادت سے چھٹکارے کے لئے
علاج ہو سکے۔
|