لسی پئیں یا چینی ڈال کر کھائیں ‘ دہی کھانے سے طبیعت میں
تازگی محسوس ہوتی ہے۔دہی ایک ایسی غذا ہے جو مختلف پکوانوں کے ساتھ بھی مزہ
دیتی ہے اور اپنی خالص حیثیت میں بھی لاثانی ہے‘ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا
کہ دودھ کو دہی کی صورت میں آنے کے لئے کتنا سفر کرنا پڑا؟
دہی جسے عربی میں ”لبن“ فارسی میں ”ماست“ اور انگریزی میں یوگرٹ (yogurt)
کہتے ہیں صدیوں سے انسانی خوراک کا حصہ ّ ہے۔ زمانہ آفرینش سے انسان گائے‘
بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کرتا آرہا ہے۔
ابتدائی میں انسان مویشیوں کے دودھ کوجانوروں کی کھالوں یا کھر ُدرے مٹی کے
برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت انہیں استعمال میں کیا جاسکے۔
شروع شروع میں دودھ کو جانوروں سے حاصل کرنے کے بعد اسی طرح کچی حالت میں
رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس
طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی ‘اسی لئے اس
مسئلے کا حل ڈھونڈا جانے لگا۔کہا جاتا ہے کہ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع
علاقوں میں سفر کرنے والے خانہ بدوش قبیلے دودھ کی شکل میں اپنی رسد کو
بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی
پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔یہ تھیلے ایام سفر میں مسلسل ہلتے رہتے ‘اس پر
سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی ‘نتیجتاً دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس
شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی
حصے ّ میں چھپے ہوئے جراثیموں نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی ہے۔
ابتداءمیں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں
کہ خانہ بدوش اسے زہریلا سمجھتے تھے ‘پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات
سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضر صحت نہیں بلکہ ایک معجزاتی غذا ہے۔ جب
اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ بھی دریافت کیا گیا۔ دودھ کو
جمانے کے لئے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا‘ یہ تجربہ کامیاب رہا
اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ کھٹا ّ اور خمیر کیا ہوا
دودھ تازہ دودھ سے بہت زیادہ فائدے مند ہے‘ یہ نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی
حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔
بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل
تجربوں اور تجزیئے کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی بھی ہے کیوں کہ
وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔
فرانس میں اسے ”حیات جاوداں“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1700ءمیں فرانس کا کنگ
فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔
بیماری کی وجہ سے بادشاہ سو ُکھ کر کانٹا ہوگیا ۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی کہ
وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لئے مشرق بعید سے ایک
معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ
فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔
فرانس کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی
چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے
بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔
1908ءکے نوبل انعام یافتہ ایلی میٹ ٹنگوف وہ پہلا ماہر تھے ‘جنہوں نے برسوں
کی تحقیق کے بعد اس کے خواص پر تحقیق کی اور بتایا کہ یہی وہ غذا ہے جو
انسان کو طویل عمرگزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔دہی میں ایک خاص قسم کے
جرثومے پروبائیوٹکس (probiotics)پائے جاتے ہیں۔ یہ جرثومے ایک خاص درجہ
حرارت پر رکھے جانے والے دودھ کے اندر بڑی تیزی سے پیدا ہوکر بڑھتے چلے
جاتے اور دودھ کو نصف ٹھوس حالت میں لے آتے ہیں جسے دہی کہا جاتا ہے۔ تو
جناب یہ تو تھی دہی کے سفر کی کہانی ۔ اگلے شماروں میں ہم آپ کو دہی کے
استعمال کے فوائد سے آگاہی فراہم کرنے کی سعی کریں گے۔ |