جو قوم جنازہ اٹھا نے پر متفق ہے وہ متحد ہو کر ووٹ کیوں نہیں ڈال سکتی ؟

اسلام میں اتحاد و اتفاق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ہر مسلمان مردکو اپنے دوسرے مسلمان کو دینی بھا ئی کہا ہے اور ہر مسلمان عورت دوسرے مسلمان عورت کی دینی بہن ہے ۔ جس اتحاد و اتفاق پر ہمارا دین ہے آج ہم اسی اتحاد و اتفاق کو نظر اندازکررہے ہیں جس کی وجہ سے امّت مسلمہ کئی طرح کے مسائل میں الجھی ہو ئی ہے ۔ آج اگر مسلمانوں نے اتحاد کا مظاہر ہ کیا ہوتا تو اس ملک میں مسلمانوں کو حکومتوں کی بھیک لینے کے لئے آنسوں نہ بہانا ہوتا اور نہ ہی ہم مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر مانی جاتی ۔ جب کبھی کسی مسلمان کو جنازہ نکلتا ہے تو دوسرا مسلمان اس جنازے کوکاندھا دینے کے لئے اپنے آپ کو تیا ر کرلیتا ہے اور اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میت کس کی ہے ، وہ کس مسلک کا ہے یا کس مکتب کا ہے بس اسکے سامنے جو جنازہ جارہاہے وہ ایک مسلمان کا ہے ،اس وجہ سے وہ بلاکسی عذر کے اس جنازے میں شامل ہو جاتاہے اور کم ازکم چالیس قدم اسکے ساتھ چل پڑھتاہے ۔ جو مظاہر ہ ہم جنازہ اٹھا نے میں کر تے ہیں اگر وہی اتحاد کا مظاہر ہ ہمارے عصری و فروعی مسائل کو حل کر نے کے لئے بھی کر تے ہیں تو اس سے یقینا مسلمانوں کا بھلا ہو گا۔ اب انتخابات کا موسم ہے اس موسم میں کچھ کمیو نل لوگ سیکولر بن جا تے ہیں اور کچھ سیکولر سیاستدان ووٹ بینک کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے کمیو نل بن جاتے ہیں اور ہم مسلمانوں میں سے کچھ لوگ انکی باتوں میں آکر بہک جاتے ہیں اور کچھ مسلمان اپنے مفادات کی خاطر دوسرے مسلمانوں کو بہکا دیتے ہیں ۔ ہم اس مضمو ن میں کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ دینے کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس بات کو دوبارہ آپ لوگوں کے سامنے لانا چاہتے ہیں جو ماضی میں بھی ہمارے جذبات ، احساسات اور اعتماد کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی ہمیں گمراہ کر نے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ سال 2014کے انتخابات ہندوستانی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتے ہیں کیو نکہ ان انتخابات میں ایک طرف وہ پارٹی ہے جس نے ہمیں آزادی کے بعد سے سیکولرزم کے نام پر گمراہ کر تے ہوئے ہمیں ووٹ بینک بنا کر ہمارا سماجی و مذہبی استحصال کیا تو دوسری طرف ایسی پارٹی ہے جس نے اس ملک میں مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھا اور مسلمانوں کا یہاں سے خاتمہ کرنے کی کوششوں کو جاری رکھی ہے اور یہ وہی پارٹی ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کرنے میں اہم رول اداکیاہے اور اسی پارٹی کے وزیراعظم کے امیدوار سال 2002میں گجرات میں مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہو لی کھیلی تھی ۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کسے اپنا ووٹ دیں گے اور کس حکومت کو اپنی قیادت کے لئے منتخب کرینگے ۔ اس دفعہ کے انتخابات کے پوری طرح سے مسلمانوں کے ووٹوں پر منحصر ہیں اگر ہم نے اپنے ووٹوں کو تبرک کے طورپر تمام پارٹیوں میں تقسیم کردیا تو اس سے ہمارا مستقبل بھی بکھر جائیگا ۔ پہلے ہمارے درمیان سیاسی شعور کم تھا اس وقت ہم نے کئی صحیح فیصلے لئے تھے لیکن جب آج ہم نے اپنے آپ کو سیاست کے ماہرین میں شمار کرلیا تو ہمارے کئی ایسے فیصلے رہے جس کی وجہ سے بہت بڑے نقصانات اٹھا نے پڑے ہیں جو ماضی میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں اور حال سے بھی گذر رہے ہیں ۔ حالانکہ ہم مسلمانوں کو کچھ سیاسی فیصلہ بھی لینے تھے لیکن انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد یہ ممکن نہیں ہو پایا اور اتنے کم وقت میں ہندوستان بھر میں یہ فیصلہ لینا بھی ناممکن ہے کہ وہ سب کے سب کسی ایک نمائندے یا پارٹی کے حق میں متحد ہوجائیں لہذا صرف یہ درخواست کی جارہی ہے کہ کم از کم کسی فرقہ پرست پارٹی کا ساتھ نہ دیں اور ایسی پارٹی سے بھی گریز کریں جو آنے والے کل میں حکومت سازی کے موقع پر فرقہ پرست طاقتو ں کے ساتھ جا ملے لہذا الگ الگ ریاستوں میں کسی ایک سیکولر سیاسی پارٹی کا انتخاب کرکے اس کے ساتھ کھڑے ہوں تو زیادہ بہتر ہے اور صرف یہ ہی ذہن میں نہ رکھیں کہ بی جے پی کو ہرانے کیلئے کسی بھی ایسے امیدوار کو ووٹ دے دینا ہے جو بی جے پی کو ہرا سکے اس لئے کہ ٓاپ تو اس ذہن کے ساتھ بی جے پی کے خلاف ہرا سکنے والے امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں کہ آپ فرقہ پرست طاقتوں کے مقابلے کسی سیکولر امیدوار کو جتاناچاہتے ہیں پر کل اس کی پارٹی کا فیصلہ کیا ہوگا اس کا آپ کو علم نہیں ہے لہذا ایسی کسی بھی پارٹی کا امیدوار جس کا ماضی بی جے پی سے قربت کا رہا ہو صرف اس بنا پر اسے کامیاب بنا دینا کہ یہ بی جے پی کے امیدوار کو شکست دے سکتا ہے بے معنی ہوجائے گا اگر وہ پارٹی بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی میں شامل ہوگئی تو اس سے بری بات اور کچھ ہو ہی نہیں سکتی ۔ لہذا آپ کو طے یہ کرنا ہے کہ کس ریاست میں کون سی پارٹی ایسی ہے جس نے نہ ماضی میں بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا ہو اور نہ مستقبل میں اس سے یہ امید کی جاسکتی ہو۔ جب آپ کو ئی نیا گھر خریدتے ہیں تو اسکے لئے سوچ وچار کرتے ہیں ، جب آپ کی بہن یا بیٹی کی شادی کرتے ہیں تو اسکے لئے لڑکے عادت و اطوار کی تفتیش کرتے ہیں ، جب کسی کو قرضہ دیتے ہیں تو سامنے والے پر پہلے بھر وسہ کرتے ہیں یا پھر اس سے ضمانت لیتے ہیں لیکن جب بات ووٹ دینے کی آتی ہے تو ہم کیوں کر لاپرواہی اختیار کریں ۔ ہمارا ایک ووٹ ہمارے مستقبل کے پانچ سالوں کو بہت بڑا فیصلہ ہے اور اس ایک ووٹ کو سب مل کر متحدہ فیصلے کے بعد دیں گے تویقینا اس سے بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔ملک کے موجودہ حالات کا جائز ہ لیں۔ آسام میں خون ریزی ہو ئی ، مظفر نگر میں آج بھی ہمارے ہزاروں مسلمان بھا ئی کیمپوں میں مقیم ہیں ۔ گجرات فسادات کے خونیوں کو آج بھی سزا نہیں مل سکی اور جن حکمرانوں نے مسلمانوں کو سماجی حق دینے کا اعلان کیا تھا انہوں نے مسلمانوں کے حق میں شاید ہی کبھی ایوانوں میں آواز بلند کی ہو ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آنے والے حکمران بھی ہماری چھا تی پر بیٹھ کر راج کریں ۔ اگر ایسا نہیں چاہتے ہیں تو ہمیں باہمی مشورے لینے ہونگے اور ہمارے سیاسی لیڈران کو الگ رکھتے ہوئے عام لوگوں ، دانشوروں اور ملّی قائدین کو سامنے رکھتے ہوئے مشورہ کرنا ہوگا کہ کو ن ہمارا اگلا نمائندہ ہو اور کس پارٹی کو مسلمان اپنا ووٹ دیں ۔ ملک بھر کے دانشوران اور مذہبی رہنماؤں نے بس یہی کہا ہے کہ ہمارا ووٹ نہ بی جے پی کو جائے اور نہ اس پارٹی کو جو ماضی یا مستقبل میں بی جے پی سے ہاتھ ملا ئی ہو ۔ ہم اپنے ووٹ کو دینے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کریں کہ نہ مسلمان کو خون سستاہے نہ ہی مسلمان کا ووٹ سستاہے ۔ نہ مسلمان کے ضمیر کو کوئی خرید سکتاہے اور نہ ہی مسلمان کے ووٹ کو خرید سکتاہے اور میر ے نظریہ سے جو مسلمان بے ضمیر ہیں ، جو مفاد پرست ہیں اور چند روپیوں و چند مفادات کی خاطر قوم کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہوسکتے۔ اگر ہمیں اپنے وجود کو ثابت کر نا ہے تو بس یہی ایک وقت ہے ۔ ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے اورہم ہی اپنے مستقبل کے معمار بن سکتے ہیں ۔ ہماری ایک چھوٹی سی بھول ہمارے مستقبل کو تباہ کرسکتی ہے اور آنے والی نسلیں ہم سے یہ سوال کرسکتی ہے کہ کیا ہمارے وجود سے بڑھ کر آپ نے اپنے مفادات کو ترجیح دی تھی ۔ اُس وقت اس سوال کا جواب خاموشی کے بغیر اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ کہنا ہمارا کام ہے اورکر نا پوری قوم کو ہے ۔ اگر ہماری باتوں میں کچھ سچائی ہے تو اسے مان لیں ورنہ اپنے مستقبل کو تاریک بنالیں ۔

MUddasir Ahmed
About the Author: MUddasir Ahmed Read More Articles by MUddasir Ahmed: 269 Articles with 197789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.