چولستان کی پسماندگی میں حکومت کا کردار

پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے جہاں قانون سازی کے لئے وفاق میں دو ایوانی مقننہ ( قومی اسمبلی اور سینٹ) اور ہر صوبے میں ایک صوبائی اسمبلی ہے۔آزادی سے پہلے اور اس کے بعد ملک کے دیگر پارلیمانی اداروں کی طرح پنجاب اسمبلی نے بھی ایک طویل آئینی ارتقائی سفر طے کیا ہے ۔یہ سفر 1897 میں اس وقت شروع ہوا جب پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنرکی دس ارکان پر مشتمل مشاورتی کونسل وجود میں آئی ۔ یہ 1921 میں قانون ساز ادارے میں تبدیل ہوئی جس نے بعد میں 1937 میں قانون ساز ایوان کا درجہ حاصل کیا۔ پاکستان میں تمام صوبائی وقانون ساز ادارے ون یونٹ کی تشکیل (1955) تک کام کرتے رہے۔ جولائی 1970 میں ون یونٹ نظام ختم کر کے صوبوں کی حیثیت پھر سے بحال کر دی گئی اور 1973 کے آئین نے موجودہ اسمبلی کو’’پنجاب کی صوبائی اسمبلی‘‘ کی حیثیت دے دی۔لاہور کی شاہراہ قائد اعظم پہ واقع موجود اسمبلی کی عمارت رومن فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے ۔اس عمارت کا نقشہ جناب بیزل ایم سیلیون نے بنایا۔عمارت کی بنیاد17 نومبر 1935 میں رکھی گئی جو 1938 میں مکمل ہوئی۔ 1937 میں بننے والے قانون ساز ادارے کا چوتھا اجلاس یہاں 10نومبر 1938 میں ہوا۔ اسمبلی کی یہ عمارت 1947 سے لے کر اب تک صوبہ پنجاب اور ون یونٹ مغربی پاکستان (1955۔1970) کے ایوانوں کی بیٹھک رہی ہے ۔اسمبلی کے تین اہم فرائض میں قانون سازی، قومی سرمائے کا انتظام اور پالیسی سازی (حکمت عملی کی تشکیل) شامل ہیں۔

سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق کوئی بھی سماج یا ریاست اپنے جغرافیے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کو مسلسل کئی عشروں تک جانی و مالی تحفظ، صحت عامہ، تعلیم و تربیت اور معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے ، اپنے شہریوں کی جائز آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل نہ کرسکے تو وہ معاشرہ افرا تفری، معاشی بدحالی اور انتشار کا شکار ہوکر تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے ۔ طویل غربت و افلاس اور بے روزگاری شہریوں کے دلوں میں معاشرے کے خلاف عدم اطمینانیت کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں، عدم اطمینانیت ریاست کے خلاف باغیانہ خیالات کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہے اور پھر یہ خیالات متشدد ہوکر معاشرے کو خانہ جنگی اور خونی انقلاب کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔
چولستان صوبہ پنجاب کے 8اضلاع29قومی اسمبلی71صوبائی سمبلی کے حلقوں پر مشتمل ہے۔ڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے ، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا۔ ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ 1887 میں ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے کٹاوْ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس وقت یہ شہر موجودہ مقام سے 15 کلومیٹر مشرق میں واقع تھا۔اس کی آبادی 20لاکھ کے قریب ہے۔ ضلع ڈیرہ غازی خان میں عمومی طور پر اردو، پنجابی، سرائیکی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 11922 مربع کلومیٹر ہے ۔ضلع ڈیرہ غازی خان کی دو تحصیلیں ہیں ۔ ان میں ایک ڈیرہ غازی خان اور دوسری تونسہ شریف ہے جو کل 54 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ قبائلی ڈیرہ غازی خان یہ ایک قسم کا ممنوعہ علاقہ ہے ۔ ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ کے ہیں ۔ تاہم بلوچ ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ یعنی وساخ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے ، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے ، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے ، روحانی حوالے سے مغرب میں حضرت سخی سرور ، شمال میں خواجہ سلیمان تونسوی اور جنوب سے شاعر حسن و جمال خواجہ غلام فرید کا روحانی فیض جاری ہے ، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی ، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے ، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے ۔علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے ، لغاری ، کھوسہ، مزاری، میرانی ، گورچانی، کھیتران، بزدار اور قیصرانی یہاں کے تمندار ہیں ، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی جنہوں نے ان کو ’’وفاداری ‘‘کے صلے میں ہزاروں ایکڑ اراضی اور جاگیریں دی تھیں تا کہ اس’’ تعلق‘‘ کو طویل عرصے تک قائم رکھا جا سکے۔ انہوں نے قبائلی سرداروں کو اختیارات دئیے ۔ عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشستیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزاء مقام فورٹ منرو کے مقام پر ہوتی ہیں جو سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے ۔ انتظامیہ کے لئے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی جو انہی قبائلی سرداروں کی منتخب کردہ ہے ۔

1925 میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم بعدازاں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ بعد میں اس شہر کو منفرد اور نقشے کے مطابق آباد کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ ہر گھر کے لئے پانچ مرلے کا رقبہ مختص تھا اور ہر بلاک 112 مرلے پر مشتمل تھا۔ڈیرہ غازی خان کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے ، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کرتی ہے ، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے ، علاقے میں موجود یورینیم کے استعمال سے پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے ، روڑہ بجری ، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ لغازی ٹریکٹر پلانٹ فیٹ ٹریکٹر اور ڈی جی سیمنٹ اس علاقے کی پہچان ہیں ، اندرون ملک سفر کے لئے ریل ، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
مشہور پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان یہیں واقع ہے ۔ اس علاقے میں ارکان پارلیمنٹ کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔171این اے سردار محمد امجد فاروق خان کھوسہ۔ 172این اے حافظ عبدالکریم۔ 173این اے سردار اویس احمد خان لغاری‘‘ ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی243احمد علی خان دریشک۔پی پی242جاوید اختر۔پی پی241خواجہ محمد نظام المحمود۔پی پی246محمود قادر خان۔پی پی245سردار محمد جمال خان لغاری۔پی پی240شیمونہ بادشاہ قیصرانی۔پی پی244 سید عبدالعلیم‘‘ ہیں-

ضلع راجن پور کے مشہور شہروں میں راجن پور اور جام پور شامل ہیں۔اس کی آبادی 18لاکھ کے قریب ہے۔ ضلع راجن پور میں عمومی طور پر اردو، پنجابی، سرائیکی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 12319 مربع کلومیٹر ہے ۔تحصیل راجن پورکا صدر مقام راجن پور ہے ۔ اس میں 16 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل جامپور تحصیل کا صدر مقام جامپور ہے ۔ اس میں 19 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل روجھان کا صدر مقام روجھان ہے ۔ اس میں 8 یونین کونسلیں ہیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد کی مشہور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالرشید (مرحوم) غازی اور عبدالعزیز غازی کے والد محترم جو اس مسجد کے پہلے خطیب تھے وہ بھی راجن پور کے رہنے والے تھے۔ رکان قومی اسمبلی’’174این اے سردار محمد جعفر خان لغاری۔ 175این اے ڈاکٹر حفیظ ور رحمان خان‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی 247 سردارعلی رضا خان دریشک۔پی پی 250 سردار عاطف حسین خان مزاری۔پی پی 249 سردار نصراﷲ خان دریشک۔پی پی 248سردار شیر علی گورچانی‘‘ ہیں
ڈی جی خان ڈویژن کا ایک اہم ضلع مظفر گڑھ بھی ہے جس میں مظفر گڑھ اور کوٹ ادو شامل ہیں۔ اس کی آبادی 30لاکھ نفوس کے قریب ہے۔ ضلع مظفر گڑھ میں عمومی طور پرسرائیکی، پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 8249 مربع کلومیٹر ہے ۔تحصیل علی پورکا صدر مقام علی پور شہر ہے ۔ اس میں 30 یونین کونسلیں ہیں۔ تحصیل جتوئی کا صدر مقام جتوئی شہر ہے ۔ اس میں 16 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل کوٹ ادوکا صدر مقام کوٹ ادو شہر ہے ۔ اس میں 28 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل مظفر گڑھ کا صدر مقام مظفر گڑھ شہر ہے ۔ اس میں 35 یونین کونسلیں ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی’’176این اے ملک سلطان محمود ہنجرا۔ 177این اے غلام ربّانی۔ 178این اے جمشید احمد دستی ۔این اے 179 مخدومزدہ باسط بخاری ۔این اے 180سردار اسحق حسین ‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی 261 عامرطلال گوپنگ۔پی پی 257احمد کریم قسور لنگڑیال۔پی پی 253غلام مرتضی رحیم کھر۔پی پی 254 حماد نواز ٹیپو۔پی پی 251 ملک احمد یار ہنجر۔پی پی 255 میاں علمدار عباس قریشی۔پی پی ۔ 256 محمد عمران قریشی۔پی پی ۔ 252 محمدذیشان گرمانی۔پی پی 259سردار خان محمد خان جتوئی۔پی پی 258 سید ہارون احمد سلطان بخاری۔پی پی 260 سید محمد سبطین رضا‘‘ ہیں
ضلع رحیم یار خان بہاول پور ڈویژن کا ایک اہم ضلع ہے ۔ اس کا مرکزی شہر رحیم یار خان ہے ۔ مشہور شہروں میں رحیم یار خان اور صادق آباد شامل ہیں۔ آبادی 40لاکھ افراد کے قریب ہے۔ ضلع رحیم یار خان میں عمومی طور پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 11880 مربع کلومیٹر ہے ۔تحصیل خانپور کا صدر مقام خانپور ہے ۔تحصیل لیاقت پورکا صدر مقام لیاقت پور ہے ۔تحصیل رحیم یار خان کا صدر مقام رحیم یار خان ہے ۔تحصیل صادق آبادکا صدر مقام صادق آباد ہے ۔ اس میں 29 یونین کونسلیں ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی’’192 این اے خواجہ غلام رسول۔ 193این اے شیخ فیاض الدین۔ 194این اے مخدوم خسرو بختیار۔ 195این اے مخدوم سید مصطفی محمود۔ 196این اے میاں امتیاز احمد۔ 197این اے محمد ارشاد خان لغاری‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی 296 چوھدری محمد شفیق۔پی پی 293چوھدری محمد عمر جعفر۔پی پی 294محمودالحسن۔پی پی 291 مخدوم ہاشم جوان بخت۔پی پی 292 مخدوم سید علی اکبر محمود۔پی پی 285 مخدوم سید محمد مسعود عالم۔پی پی 295مخدوم سید مرتضی محمود۔پی پی 287 میاں محمد اسلام اسلم۔پی پی 290محمد اعجاز شفیع۔پی پی 286قاضی احمد سعید۔پی پی 297 رئیس ابراہیم خالد احمد۔پی پی 289رئیس محمد محبوب احمد۔پی پی 288 سردار محمد نواز خان ‘‘شامل ہیں۔

ضلع لیہ بھی اس علاقے کا ایک اہم ضلع ہے ۔ اس کا مرکزی شہر لیہ ہے ۔ آبادی 15لاکھ افراد کے قریب ہے۔ ضلع لیہ میں عمومی طور پر اردو، پنجابی، سرائیکی، ھریانوی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 6291 مربع کلومیٹر ہے ۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 143 میٹر (469.16 فٹ) ہے ۔ لیہ کا زیادہ تر حصہ صحرائی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے ۔ تاہم اس کی شرح خواندگی جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع سے زیادہ ہے ۔ لیہ ایک بڑی تعداد میں پیشہ ور اور ہنر مند لوگ پیدا کر رہا ہے ۔محمد بن قاسم نے ہندو راجا داہر کو شکست دے کر یہاں اسلامی حکومت کی نیو اٹھائی۔ پھر یہاں کئی مسلمان اور غیر مسلم حکمران راج کرتے رہے ۔ مغلیہ دور میں بلوچ قبیلے یہاں آباد ہو گئے اور آہستہ آہستہ پورے علاقے پر حکمران ہو گئے ۔ احمد شاہ ابدالی نے انہیں اپنا مطیع بنایا۔ بعد میں رنجیت سنگھ نے انکو شکست دے کر اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کے بعد یہاں پنجے گاڑے اور قیام پاکستان تک یہاں حکمرانی کرتے رہے ۔ضلع لیہ کی پانچ تحصیلیں ہیں ، جن میں لیہ ،چوبارہ ، کروڑ پکا، چوک اعظم اور فتح پور شامل ہیں ۔

لیہ سے ممبر قومی اسمبلی’’181این اے صاحبزادہ فیض الحسن۔ 182این ا ے سید محمد ثقلین شاہ بخاری‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی 262عبدالمجیدخان نیازی۔پی پی 266چوھدری اشفاق احمد۔پی پی 265 مہر اعجاز احمد اچھلانہ۔پی پی 264 سردار قیصر عباس خان۔پی پی 263 سردار شہاب الدین خان‘‘ہیں
بہاولپور ایک ریاست تھی جس نے پاکستان سے الحاق کیا اور اسے صوبے کا درجہ دے دیا گیا ۔ اس ریاست کی ون یونٹ کے وقت حثیت ختم کر دی گئی ۔ جب ون یونٹ ختم کر کے صوبوں کو بحال کیا گیا تو اسے بھی پنجاب میں شامل کر لیا گیا۔ بہاولپور کے ساتھ کی گئی زیادتی کیخلاف آج تک لوگوں کا احتجاج جاری ہے۔ ریاست تین اضلاع پر مشتمل تھی جو آج بھی قائم ہیں ۔ ریاست بہاولپور کی پہلے ریاستی حثیت ختم کی گئی ، پھر صوبائی حثیت ختم کرکے اسے ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے تین اضلاع، بہاولپور، بہاول نگر اور رحیم یار خان ہیں ۔ اس کی پانچ تحصیلیں ہیں۔ ضلع بہاولپور کے مشہور شہروں میں احمد پور شرقیہ، حاصل پور اور بہاولپور شامل ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی’’183این اے مخدوم سید علی حسن گیلانی۔ 184این اے میاں نجیب الدین اویسی۔ 185این اے محمد بالغ الرحمان۔ 186این اے میاں ریاض حسین پیرزادہ۔ 187این اے چوہدری طارق بشیر چیمہ‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی275 چوھدری خالد محمود ججہ۔پی پی267 مخدوم سید افتخار الحسن گیلانی۔پی پی272 ملک محمد اقبال چنڑ۔پی پی270 میاں محمد شعیب اویسی۔پی پی276
محمد افضل۔پی پی274محمد افضل گل۔پی پی273 محمد کاظم علی پیرزادہ۔پی پی268قاضی عدنان فرید۔پی پی269سردار خالد محمود واراں۔پی پی271 سید وسیم اختر‘‘بہاولپور ڈویژن کا تیسرا ضلع بہاولنگر ہے ۔ اس کے مشہور شہروں میں بہاولنگر، چشتیاں اور ہارون آباد شامل ہیں۔ممبر قومی اسمبلی’’188این اے سید محمد اصغر۔ 189این اے عالم داد لالیکا۔ 190این اے طاہر بشیر چیمہ۔ 191این اے محمد عجازالحق‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی282چوھدری زاھد اکرم۔پی پی283غلام مرتضی۔پی پی281احسان الحق باجوہ۔پی پی277 میاں فدا حسین وٹو ۔پی پی280 میاں ممتاز احمد مہروی۔پی پی284 محمد نعیم انور۔پی پی279 رانا عبدالرؤف۔پی پی278شوکت علی لالیکا‘‘ آبادی 25لاکھ افراد کے قریب ہے۔ ضلع بہاولنگر میں عمومی طور پر اردو، پنجابی، سرائیکی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 8878 مربع کلومیٹر ہے ۔تحصیل بہاولنگر کا صدر مقام بہاولنگر ہے ۔ اس میں 31 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل چشتیاں کا صدر مقام بہاولنگر ہے ۔ اس میں 29 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل منچن آباد کا صدر مقام منچن آباد ہے ۔ اس میں 20 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل فورٹ عباس کا صدر مقام فورٹ عباس ہے ۔ اس میں 16 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل ہارون آباد کا صدر مقام ہارون آباد ہے ۔ اس میں 22 یونین کونسلیں ہیں۔

ضلع لودھراں پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے ۔ اس کا مرکزی شہر لودھراں ہے ۔ مشہور شہروں میں لودھراں اور کہروڑپکا شامل ہیں۔ اس کی آبادی 18لاکھ افراد کے قریب ہے۔ ضلع لودھراں میں عمومی طور پر اردو، پنجابی،میواتی سرائیکی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 2778 مربع کلومیٹر ہے ۔تحصیل دنیا پورکا صدر مقام دنیا پور ہے ۔ اس میں 22 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل کہروڑ پکاکا صدر مقام کہروڑ پکا ہے ۔ اس میں 23 یونین کونسلیں ہیں۔تحصیل لودھراں کا صدر مقام لودھراں ہے ۔ اس میں 28 یونین کونسلیں ہیں۔ممبر قومی اسمبلی’’154این اے محمد صدیق خان بلوچ ۔ 155این اے عبدالرحمان خان کانجو‘‘ممبرصوبائی اسمبلی’’پی پی 211 احمد خان بلوچ۔پی پی 209ملک سجاد حسین جوئیہ۔پی پی 207 محمد عامر اقبال شاہ۔پی پی 210محمد زبیر خان۔پی پی 208 پیرزادہ محمد جہانگیر سلطان‘‘ ہیں۔

کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ پنجاب کی حکومت جب سرائیکستان کے اندر تھل سے ایک نہر نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے اور تھل کی ترقی کے نام پر یہاں جدید چکوک بنانے کا سلسلہ قائم کیا جاتا ہے تو یہاں کے مقامی باشندے تھل کو بچانے کے لیے اور یہاں پر سنٹرل پنجاب سے آبادکاری کی مخالفت کرتے ہوئے تحریک چلاتے ہیں تو ان کو ترقی کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے ۔جبکہ اس عمل سے ماحولیات کی جو تباہی ہوئی اور تھل کے علاقوں میں کماد کاشت کرنے اور شوگر ملز لگنے سے زمین کی جو تباہی ہوئی اس کے بارے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نے کوئی ترود نہیں کیا۔ترقی کا مطلب ماحولیاتی تباہی ہوگیا اور ڈویلپمنٹ کا ایک مطلب مقامی اکثریتی آبادی کو کٹ ٹو سائز کرنا بھی ہوگیا۔

حال ہی میں وفاقی اور صوبائی حکومت چولستان کی 21000 ہزار ایکٹر اراضی چینی سولر کمپنیوں کو دینے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔اس اقدام سے چولستان میں مقامی کسانوں کو کتنی چراگاہوں سے محروم ہونا پڑے گا اور اس چولستان کی ماحولیات پر اس کا کیا اثر ہوگا ایسی کوئی بھی سٹڈی پنجاب حکومت نے نہیں کرائی۔پھر قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں متبادل انرجی بورڑ کے چیئرمین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سولر انرجی سے پیدا ہونے والی بجلی کا خرچہ تھرمل بجلی یونٹ سے زیادہ ہوگا۔اور یہ بجلی نیشنل گرڈ اسٹیشن میں شامل ہوگی اور اس کی رائلٹی چولستانیوں کو نہیں ملے گی۔جن کی زمینوں کو 20 ڈالر فی ایکٹر لیز پر دے دیا گیا ہے ۔ اور جب یہ بجلی پیدا ہوگی تو اس کو خریدنے کے لیے جو رقم درکار ہوگی وہ بھی اس خطے کے عوام سے وصول کی جائے گی جس طرح اور لوگ اس کی قیمت ادا کریں گے ۔

سرائیکستان کی زرعی اور کمرشل اراضی کو پہلے انگریز سامراج نے برطانیہ سے کپاس کی تلاش میں آنے والے ماہرین کو دی جیسے رابرٹ ولیم تھا جس کی رابرٹ ولیم سیڈ کارپوریشن کو ہزاروں ایکڑ زمین خانیوال اور رحیم یار خان میں دی گئی تھی۔اور انگریز سامراج نے سرائیکستان میں گنجی بار اور ستلج ویلی میں کینالز نکالنے کے بعد کالونیز میں لاکھوں ایکڑ رقبہ مشرقی پنجاب اور سنٹرل پنجاب کے لوگوں کے حوالے کردیا۔جبکہ فوجی ،سرکاری ملازمین کو بھی یہ رقبے الاٹ کئے گئے ۔اور اس دور کی زمین کی بندر بانٹ سے اوکاڑا،ساہیوال ،پاکپتن،وہاڑی تا خانیوال کے علاقے مقامی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کا سبب بنے ۔اور اس عمل نے ریاست بہاول پور کے اندر بھی ڈیموگرافک تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

پھر پاکستان بننے کے بعد سرائیکستان کے اندر جو زرعی رقبے اور کمرشل اراضی سکھ اور ہندؤ چھوڑ کر گئے ان میں سے اکثر رقبے اور شہری متروکہ املاک پاکستان کی سول اور ملٹری افسر شاہی اور سیاست دانوں کی ٹولی کے قبضے میں آگئیں اور اس وقت اس کا سب سے زیادہ فائدہ پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجر افسر شاہی اور سیاسی کلاس کو ہوا۔اور اس میں سنٹرل پنجاب کی پنجابی اشرافیہ نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ ایک مربوط طریقے سے سرائیکستان کی زرعی اراضی پر پاکستان کے بیوروکریٹس،ضلعی افسران،سیاست دان اور جرنیلوں اور دیگر فوجی افسروں کے قبضے جاری رہے ۔جبکہ پاکستان کی ریاست نے متحدہ عرب امارات ،سعودی شیوخ کو بھی بڑے پیمانے پر شکار گاہوں کی مد میں اراضی کی الاٹمنٹ جاری رکھی جبکہ اب پنجاب حکومت لائیو سٹاک اور سیڈ و پیسٹی سائیڈز غیرملکی کمپنیوں کو اس خطے کی قیمتی زرعی اراضی الاٹ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کررہی ہے ۔پاکستان میں جمہوریت سرائیکستان کے خطے کے وسائل کی لوٹ مار کے عمل کو آسان بنانے کے سوا کوئی اور کام نہیں کررہی ہے ۔سرائیکستان کے باشندے جوکہ بیوروکریٹس،جرنیل،ججز،سرمایہ داروں کی جانب سے سرائیکیستان کی زمینوں کو غصب کرنے سے پہلے ہی ستم رسیدہ تھے اب کارپوریٹ یلغار کا سامنا کررہے ہیں۔ان کی زمینوں کو چینی، ترک، کورین، بھارتی، سعودی،متحدہ عرب امارات،امریکی ،جرمن ا ور تو اور لاطینی امریکہ کی انرجی ،فوڈ،سیڈ سیکٹر میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یہاں کی زمینوں اور لائیو سٹاک پر قبضے کے خطرے کا سامنا ہے ۔یہاں کی آبادی پہلے ہی غذائی قلت اور یہاں بچے ،بوڑھے ،مرد جوان اور عورتیں پہلے ہی دودھ کی کمی سے پیدا ہونے والی کیلشیئم کی کمی سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔اور لائیو سٹاک،فوڈ،سیڈ اور بیوریچز میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس خطے میں یلغار یہاں دودھ،انڈے ،گوشت،سبزیاں،دالیں،یہآں تک کے پانی کو بھی ان کی استعداد سے باہر کریں گی۔جبکہ یہاں کے باشندے اپنی زمینوں سے بتدریج محروم ہوتے چلیں چائیں گے ۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آر سی پی) کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سرائیکی وسبب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر وڈیرہ،جاگیردار،چوہدری حکومت کرتاہے اور منتخب نمائندہ نے ریاست کے تمام اداروں کویرغمال بنارکھاہے۔چولستان کی زمینوں پر ایسے لوگوں کو مالک بنادیاگیاہے جن کی نسل نے کبھی بھی یہ دھرتی نہ دیکھی تھی آج وہ تمام ریاستی وسائل استعمال کرکے بڑے جاگیردارکاروپ بن گیاہے۔دریا کے کٹاؤ سے جن لوگوں کی زمینیں دریا بردہوچکی ہے ان کاکوئی پرسان حال نہیں۔شہری علاقوں میں قائم اداروں میں وسائل کو لوٹا جارہاہے۔صفائی،سٹریٹ لائٹ درخت صاف راستے ناپید کردیئے گئے ہیں۔ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی نہیں اگرہے تووہ مریضوں کا علاج کرنے کی بجائے انہیں بڑے ہسپتالوں میں ریفرکردیتے ہیں۔نہروں پرموجودقدیم درخت کو کاٹ کاٹ کرچرائے جارہے ہیں۔

مبصرین ،ماہرین اورصحافیوں کا کہنا ہے کہ چولستان کے حوالے سے درجنوں رپورٹ منظرعام پرآنے کے بعد بھی حکومت خاموش ہے۔ حقیقت سے پردا اٹھانے والوں تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ حکومت کی اس خاموشی سے پاکستانی عوام سمیت پوری دنیا میں ہزاروں سوال پیداہورہیے ہیں۔ہرپریس کانفرنس میں حکومتی نمائندے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جہاں وڈیرہ،جاگیردار،چوہدریوں کی حکومت ہووہاں صحافتی فریض سرانجام دینا آسان کام نہیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179667 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.