سیاست بجا لیکن۔۔۔۔۔۔!

چند روز پہلے عدالتِ عظمی کی جانب سے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کامجرم قرار دئیے جانے کے فیصلے کے بعد سیاسی منظر نامے میں انتشار اور تلخی کا عنصر بے حد نمایاں نظر آنے لگا ہے ۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے اسے سیاسی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم کی اہلیت یا نا اہلیت کا فیصلہ اسپیکر کی صوابدید ہے نہ کہ سپریم کورٹ کی۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) سمیت تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کا نقطہِ نظریہ ہے کہ چونکہ آئین کے آرٹیکل 63(1)G کے تحت فیصلہ سنایا گیاہے اور وزیر اعظم سزا یافتہ شخص ہیں اسلئے قانونی اور اخلاقی طور پر وہ وزارت عظمیٰ کا جواز کھو چکے ہیں۔

ہمارے ہاں کی سیاست میں اخلاقیات جیسی متروک شے تو کیا ،آئین و قانون کی بالا دستی جیسے الفاظ بھی اپنی حیثیت کھوتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اس میں دو رائے نہیں کہ آئین اور آئینی اداروں کی سر بلندی اور قانون کی بالا دستی ہی قوموں کی ترقی کا باعث ہوا کرتی ہے اور ہمارے ہاں بھی ایک مہذب ریاست کی طرح تمام فیصلے اور ان پر عمل درآمد آئین و قانون کے مطابق ہی ہونا چاہئے۔ یہ معاملہ بلا شبہ تاریخی اور سیاسی اہمیت کا حامل ہے جس کے بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر بھی دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ مگر ان اثرات کے ساتھ ساتھ اس بحث سے بھی قطع نظر کہ حکومت کا موقف درست ہے یا اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ۔ ایک ہم سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ یا اس جیسے دیگر معاملات اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے کس قدر اہم ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیا واقعتا یہ معاملہ (اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود) اس قدر اہم ہے کہ اس پر اتنے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا جائے جیسا کہ اپوزیشن جماعتوں اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کیا جار ہا ہے یا اس فیصلے پر عمل کرنا یا نہ کرنا اس قدر زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کہ حکومتی نمائندوں اور خود گیلانی صاحب کی طرف سے اتنی بے کلی اور اس قدر جارحانہ روش کا مظاہرہ کیا جا رہاہے۔

اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ ہائے نظر سے ہٹ کر اصل صورت حال یہ ہے کہ عملی طور پر کوئی بھی عوام کی مشکلات کی جانب توجہ مبذول کرنے اور انکے مسائل کا حل تراشنے یا فقط تلاشنے ہی سے قاصر ہے ۔ پاکستانی عوام بے پناہ مشکلات و مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر ہفتے ادارہ شماریات کی رپورٹ دس سے پندرہ بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی نوید سناتی ہے۔ جن حکمرانوں کے باورچی خانوں کے اخراجات لاکھوں روپے ماہانہ ہوں انہیں تو ہر ہفتے دو چار روپے بڑھنے سے فرق نہ پڑتا ہو مگر دو وقت کی روٹی کے لئے سرگرداں کروڑوں غریب لوگوں پر کیا گزرتی ہوگی۔

مسائل لا تعداد ہیں۔بجلی کی صورتِ حال یہ ہے کہ اٹھارہ اٹھارہ، بیس بیس گھنٹے غائب۔ آئے روز بجلی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں اور عوام بجلی استعمال کئے بغیر بھاری بھر کم بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے مگر نہ تو ڈیم بنانے کے معاملے کو مل بیٹھ کر حل کیا جا سکا ہے اور نہ ہی توانائی کے متبادل ذرائع استعمال میں لانے کی زحمت کی گئی ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں خواہ کمی ہو یا اضافہ، ہمارے ہاں ہر دو صورتوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ CNG کی حالت یہ ہے کہ تین دن کی ہفتہ وار لوڈ شیڈنگ جو کہ موسم سرما میں گیس کے استعمال میں اضافے کو جواز بنا کر شروع کی گئی تھی ، تاحال جاری ہے اور عوام چند سو کی گیس کے لئے اپنے تمام کام دھندے چھوڑ کر کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔

ملک وقوم کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ کی خاطر اگر حکومت اور اپوزیشن آئینی ترامیم جیسا پیچیدہ معاملہ باہمی رضامندی سے طے کر سکتی ہے تو ڈیم بنانے ، بجلی، گیس پٹرول اور مہنگائی جیسے معاملات پر اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی بجائے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی جا سکتی۔
صحت کے شعبہ پر نظر ڈالی جائے تو حالات بے حد مخدوش نظر آتے ہیں۔ صحت کے بارے میں حکومت کی ترجیح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سالانہ بجٹ میں قومی آمدنی کا ایک فی صد سے بھی کم صحت کے لئے مختص کیا جاتا رہا ہے ۔ ادویات کی قیمتیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ دور دراز علاقوں کے غریب عوام بر وقت علاج کی سہولتیں میسر نہ ہونے پر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں مگر کوئی پر سانِ حال نہیں۔ وفاق کی طرف سے صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل کیے جانے کے بعد بھی صورتِ حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور معاملات جوں کے توں ہیں۔ پنجاب حکومت کی صحت کے شعبہ میں سنجیدگی کا عالم ملاحظہ ہو کہ اس کا با قاعدہ وزیر ہی نہیں۔ اگر وفاق میں ڈاک خانہ کا الگ سے وزیر ہو سکتا ہے تو پنجاب میں صحت کا وزیر کیوں نہیں۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد پاکستان تشریف لائے تو ان سے ملائشیا کی ترقی کا راز پوچھا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے اپنا تعلیمی بجٹ 25 فیصد تک بڑھا دیا تھا اور یہی وہاں کی ترقی کا باعث بنا۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ تعلیم پر قومی آمدنی کا 2 فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے یعنی بین الاقوامی معیار سے بھی تین فیصد کم۔ 60 فیصد سرکاری سکول ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں اور 40 فیصد پانی سے محروم۔ اقوامِ متحدہ کے دنیا بھر میں قائم انڈیکس آف ایجوکیشن کے 173 ممالک میں پاکستان 166 ویں نمبر پر ہے ۔ ہم ہر بار تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے لئے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا مطالبہ کرتے ہیں مگر حکومت کے فلاحی بجٹ (جو حکمران اپنے پروٹوکولز،غیر ملکی دوروں اور اپنی ذاتی فلاح پر خرچ کرتے ہیں) کو کم کرنے کی بات کبھی نہیں کی جاتی۔ فلاحی بجٹ کی کٹوتی کر کے بھی اسے تعلیمی بجٹ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے ۔

امن و امان قائم رکھنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے مگر بلوچستان وغیرہ کی صورتحال تو ایک طرف، لیاری کی تازہ ترین صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔ لوگ بے یارو مدد گار، بھوکے پیاسے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں اور وزیرِ داخلہ اور وزیر اعلیٰ سندھ اور غالباً گورنر بھی ملک سے باہر ہیں۔ پنجاب کا تھانہ کلچرہی لیا جائے تو وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے تمام تر دعووں کے ساتھ اسے تبدیل کرنے اور عوام کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ساری دنیا میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کو آسان بنانے کے لئے سہولیات دی جاتی ہیں اور ہماری حج پالیسی 2012 میں حج اخراجات میں 1 لاکھ روپے کا مزید اضافہ کر دیا گیا ہے ۔

ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک بھارت دنیا کی دسویں بڑی معیشت کہلاتا ہے ۔ 2001 تک پاکستان کی فی کس آمدنی بھارت کے مقابلہ میں زیادہ تھی۔ آج بھارت کی فی کس آمدنی پاکستان سے کہیں بہتر ہے ۔ لندن کے سینیٹر برائے اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ کے مطابق 2020 تک بھارت دنیا کی 5 ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ پچھلے چار برسوں میں پاکستان کی معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو 2.9 فیصد رہی۔ جبکہ بنگلہ دیش کی 6 فیصد اور ویتنام کی 6.2 فیصد ۔ یعنی اب ہم ویت نام اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پچھلے 5 برسوں میں ہماری 40% ٹیکسٹائل صنعت اور تقریباً دو لاکھ پاور لومز بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہیں، جس سے ہمارے لاکھوں خاندان بے روزگار ہو چکے ہیں ۔

مگر ان تمام عوامی مسائل سے قطع نظر ہمارے حکمران اور سیاست دان توہین ِ عدالت ، میمو گیٹ اور مہران بینک جیسے معاملات کو Do or Die بنائے ہوئے ہیں۔ یہ چند معاملات کچھ لوگوں کے لئے تو ضرور اہم ہو سکتے ہیں مگر اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ اب بھی روٹی، کپڑا، مکان ، بجلی، پٹرول، تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاست دان ان عوامی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کو مزید کسی سیاسی جادوگری سے مسحور کرنے کی کوشش نہ کریں۔ سیاسی تماشے لگتے رہے اور لگتے رہیں گے۔کبھی آئینی بحثیں، کبھی قانونی موشگافیاں۔ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں گی مگر کیا کبھی ہمارے ہاں ایسا سیاسی موسم بھی آئے گا جب یہ قول درست ثابت ہو کہ جمہوریت عوام سے، عوام کی اور عوام کے لئے ہوتی ہے ۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.