بعض نام نہاد دانشورغالبؔ کے اس شعر کی اس کیفیت کے مالک
ہیں’’ بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ورنہ شہر میں غالب کی حقیقت کیا
ہے؟‘‘ ایسے افراد جو گنتی کے تو چند ہی ہیں مگر بڑے چنٹ ہیں۔جومملکتِ
اسلامیہ پاکستان کے بانی مبای حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے اسلامی
ارشادات کی ڈھٹائی کے ساتھ مخالفت و نفی کرتے ہوے تمام سچائی کی حدوں کو
عبورا کر جاتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو اس ضمن میں جھوٹے حوالوں کے بھی انبار
لگا دیئے ہیں جب کتابیں کھنگالی گئیں تو ایک آدھ ادھورے حوالے کے سوائے
تمام حوالے غلط سلط تھے۔جنکی تفصل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔یہ لوگ دانشور
بھی کہلاتے ہیں ، لے دے کر ان کے پاس 11 اگست 1947ء کی قائد اعظم کی تقریر
ہے جس پر ان کی جھوٹ کی عمارت تعمیر ہوتی اور منہدم ہو جاتی ہے۔ بعض دانشور
اس تقریر کوصلح حدیبہ کا پر تو بھی گردانتے ہیں۔ اس تقریر کی وضاحت میں
اپنے ایک آرٹیکل میں سید شریف الدین پیر زادہ کی فاؤنڈیشن آف پاکستان کے
حوالے سے تفصیل کے ساتھ بحث کر چکا ہوں۔یہ لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کی
واضح دلائل سے تو کھل کر مخالفت کر نہیں پاتے ہیں کونے کھدروں میں گھس کر
اپنے مصنوئی دلائل پیش کر نے کی کو شش کرتے ہیں وہ بھی غلط حوالوں سے!!!جن
کو قائد پر نظر رکھنے والا کوئی بھی طالب تسلیم کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہے۔
قائد اعظم پر سطحئی سا لٹریچر پڑھ کر یہ لوگ قائد اعظم اسٹیڈیز کے اپنے آپ
کو ماہر ثابت کرنے کی کوشش میں جس قدر ہوسکتا ہے آدھے سچ سے کام لیتے ہیں
اور اپنی غیر ما ہر انہ رائے کو ما ہر کی رائے ثابت کرتے ہیں!!!اﷲ ڈاکٹر
صفدر محمود کو زندگی دے وہ قائد پر ان کی ہر بکواس کا منہ توڑ مدلل جواب دے
کر انہیں ایسا لاجواب کرتے ہیں کہ پھر ان کی سانسیں جواب دے جاتی ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے سُرخیلوں نے یہ دعویٰ کب کیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح
ایک مولوی تھے؟قائد کے محبوں کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی اپنے
دفتر میں جناح کیپ اور شیروانی والی تصویر لگاتا ہے یا سوٹڈ بوٹڈ کلین شیو
قائد کی تصویر آویزاں کرتا ہے۔ا ن لوگوں کو یہ ہی پتہ نہیں ہے کہ محمد علی
جناح نے لندن کے لنکن اِن میں جب داخلہ لیا تھا تو میر ے آقا حضرت محمد ﷺ
کا نام دنیا کے بہترین قانوں دینے والوں میں سر فہرست عمارت کے گیٹ پر لکھا
ہوا د یکھاتھا ۔یہ میرے قائد کی سرکار محمدﷺسے نوجوانی کے ہیجانی دور میں
بھی محبت اور عقیدت ہی توتھی۔ جس کو ننگے معاشرے کے حامی قیامت تک نہیں
سمجھ سکیں گے۔ اول تو میرے قائدنے کسی تھیٹر میں کام کیا ہی نہیں یہ سب
سیکولر ذہنیت کے مصنفین کی اخترا کے سوائے کچھ نہیں ہے ۔اگر کیا بھی تھا
میرے سیکولر دوست کے منہ پر طمانچہ تو خود اسی کی تحریر میں لگ گیا جب ان
کے بقول جناح نے والد کی ناراضگی پر تھیٹر کی ملازمت چھوڑ دی!!!جناح اگر
سیکو لر اور اسلام سے برگشتہ ہوتے تو وہ ڈنشاء پٹٹ کی بیٹی جو پارسی تھی
اور میرے قائد سے عشق کا اُس پربھوت سوار تھا۔ اُس کو مسلمان نہ کرتے ۔جس
کے شاہد موجود ہیں کہ انہوں نے مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا مولانا نذیر
احمد صدیقی جو بمبئی کی جامع مسجد کے خطیب و امام تھے۔ جن کے روبرو ڈنشاء
کی بیٹی نے اسلام قبول کیاتھا۔ رتی کے مسلمان ہوجانے کے بعد محمد علی جناح
نے انہی عالمِ دین سے رتی کے ساتھ اپنا نکاح اسلامی طریقے پر پڑھوا کر اپنی
ازدواجی زندگی کے سفر کادوسری مرتبہ آغاز کیا تھا۔
بقول ڈاکٹرصفدر محمود کے کہ جناح کی ’’ جب ذہنی بلوغت ارتقائی منازل سے
گذری تو وہ مسلم قومیت کے موثر علمبرداربن کر ابھرے۔قائد اعظم سیاسی زندگی
کے آغاز میں مسلمانوں کے لئے مخصوص کوٹے کے خلاف تھے پھر وہ مسلمانوں کو
اقلیت کہتے تھے لیکن ذہنی وسیاسی ارتقاء کے نتیجے کے طور پر وہ اس منزل پر
پہنچ کر قائد اعظم بن گئے۔جب وہ اس حقیقت کے قائل ہوے کہ مسلمان اقلیت نہیں
بلکہ ایک قوم ہیں‘‘ یہ تو میرے قائدکا ہر قاری جانتا ہے کہ قائد اعظم محمد
علی جناح نے عید میلاد النبی کے جلسے سے کراچی بار میں 25جنوری 1948 ء کو
واضح کیا تھا کہ انہوں لنکن اِن میں داخلہ اس لئے لیا تھاکہ اس ادارے میں
دنیا کے عظیم قانون فراہم کرنے والوں میں محمد ﷺ کا نام بھی شاملی تھا۔․میرے
سیکولر دوست کو اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ لند ن سے لاء کی ڈگری لے
کر واپس آنے بعد بمبئی(موجودہ ممبئی)میں جس تقریب میں پہلی مرتبہ شرکت
فرمائی تھی وہ عید میلاد النبی کا ایک جلسہ تھا۔یہ بات ہر پاکستانی کے ذہن
میں رہنی چاہئے کہ میرا قائد نہ تو مولوی تھا نہ ہی صوفی اور نہ ہی مذہبی
عالم ایمان و یقین کے حوالے سے وہ پکے سچے مسلمان تھے۔سوٹ بوٹ کی طعنہ زنی
کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ان کا یہ لباس غیر اسلامی ہر گز نہ تھا
مگر اس حقیقت سے بھی کیا میرے سیکولر دوست انکار کریں گے کہ قیام پاکستان
سے کئی سالوں پہلے انہوں انگریزی لباس بڑی حد تک ترک کر دیا تھا ۔مگر بعض
سرکاری تقاریب میں وہ کبھی کبھی طوحاََانگریزی لباس بھی قیامِ پاکستان سے
قبل پہن لیا کرتے تھے۔پاکستان بننے کے بعد کبھی بھی میرے قائد نے شیروانی
کرتا شلوار اورجناح کیپ کے علاو ہ کوئی ایسا لباس زیب تن نہیں کیا جس کی
سیکولر زہنیت والے توقع رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک انہوں اسلام کو
پورے طور پر سمجھا نہیں تھا ۔تو وہ جیسا کہ سیکولر ذہن لکھتا ہے کہ ’’فروری
1935 ء میں قانون ساز اسمبلی میں مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کی بات کی کی
تھی‘‘ مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس سال کے بعد محمد علی جناح
نے پورا پورا اسلام میں داخل ہونے کا عہداُس وقت کر لیا تھا۔جب مولانا اشرف
علی تھانوی کی جانب سے 1936ء میں ایک پیشن گوئی میں یہ واضح کر دیا تھاکہ
یہ انگریزی لباس پہننے والا ہی ایک دن مسلمانوں کی کشتی کو پار لگائے
گا۔اور پھر اپنے شاگردوں اور قرابت دارعلماء کو جناح کی اسلامی تربیت پر
لگا دیا تھا۔ علمائے کرام سے ملاقات کے بعد انہوں نے کبھی خلافِ اسلام کے
کوئی بات نہ کی۔ بلکہ 1935 ء کے بعد کی قائد کی پوری زندگی کھنگال کے
سیکولر ٹولہ دیکھ لے انہوں نے بارہا اسلام کو مکمل ضابطہِ حیات قرار دیا
اور مرتے دم تک اس اصول پر کا بند بھی رہے۔مگر میں نا مانوں کا تو’’ ذ ہنی‘‘
کے سوائے کوئی علاج ہے ہی نہیں۔ جسٹس منیر جیسا آمریت کا پروردہ جھوٹا شخص
جب جناح پر سیکولر ہونے کا الزام لگاتا ہے تو عطا ترک کے حوالے سے قائد
اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش میں اپنا وقت برباد کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ایک انٹرویو میں جب قائد سے سوال کیا گیا کہ ترکی کی حکو مت تو ایک مادی
ریاست اور حکومت ہے آپ کی کیا رائے ہے؟ تو جناح نے جوباََ کہا تھا کہ’’ ترک
حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں
لاگو نہیں ہوتی ہے۔اسلامی حکومت کے تصور کا بنیادی امتیاز یہ ہے کہ اطاعت
اور وفاداری کا مرجع اﷲ کی ذات ہے۔جس کی تعمیل کا مرکز قرآنِ حکیم کے
احکامات اور اصول ہیں‘‘۔ 10،جون 1938 کوبمبئی میں میمن چیمبر آف کامرس سے
خطاب کے دوران قائد اعظم محمدعلی جناح کہتے ہیں کہ’’ مسلمانوں کے لئے
پروگرام تلاش کرنیکی ضرورت نہیں ہے ان کے پاس تیرہ سو سال سے مکمل پروگرام
موجود ہے (اور وہ یہ بات آزادی کے بعد تک کئی مرتبہ دہرا چکے تھے)کہ قرآنی
تعلیمات ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہیں جس کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے
کر سکتے ہیں‘‘ ۔میرے ملک کے سرکای دانشور لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں
مذہبی علماء کی اکثریت مسلم لیگ اور پاکستان کے خلاف تھی‘‘ کوئی انہیں
سنجھائے کہ ہم بتائیں؟اُن لوگوں میں آپ کے خاندان کے احراری بھی شامل تھے
کیا یہ بات آپ کے محترم والڈ صاحب نے آپ کو نہیں بتائی تھی ؟آپ کو پتہ ہے
قائد اعظم کے گرد جید علما و مشائخ ِ عظام کی ایک پوری ٹیم موجود تھی
مسلمانوں کا سوادِ اعظم ان کی حمایت کرہا تھا۔جس مسلم عوام کے علاوہ مولانا
اشرف علی تھانوی اور ان کے خانوادے کے جید علماء، شاگرد اور پیر صاحب جماعت
علی شاہ علی پوری اور ان کے مریدین کی بہت بڑی تعداد نے مسلم لیگ کا ساتھ
دیا ،پیر صاحب مانکی شریف امین الحسنات اور ان کے مریدین کا جمِ غفیر، پیر
صاحب زکوڑی شریف جیسی مذہبی اور روحانی شخصیت اور ان کے مریدین کی کھلی
حمایت میرے قائد کو حاصل تھی، اسی طرح خواجہ قمر الدین سیالوی اور ان کے
شاگردوں نے بھی قائد اعظم اور مسلم لیگ کی زبردست حمایت کی تھی۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا حسین احمد مدنی نے تحریکِ پا کستان کے دورا ن
قائد اعظم اور مسلم لیگ کی کھل کر مخالفت کی تھی مگر قیام پاکستان کے بعد
اُن کا یہ رویہ یکسر تبدیل ہو گیا تھا۔بقول ڈاکٹر صفدر محمود کے( قیامِ
پاکستان کے بعد)جب ان سے سوال کیا گیا کہ حضرت پاکستان کے بارے میں آپ کا
کیا خیال ہے؟ تو جواب میں مولانا فرماتے ہیں کہ’’ مسجد جب تک نہ بنے اختلاف
کیا جاسکتا ہے۔لیکن جب بن گئی تو مسجدہے‘‘(بحوالہ حضرت مولانا سید حسین
احمد مدنی واقعات و کراما ت، مراد آباد، صفحہ 136 )گویا پاکستان اپنے قیام
کے بعد اُن کے نزدیک مسجد کی طرح معتبر ٹہرا تھا۔ ان سیکولر اسلام مخالف
لوگوں کو یہ بھی کوئی بتا دے کہ قائد اعظم مذہبی لوگوں پر کتنا بھروسہ کرتے
تھے۔پاکستان کے پہلے یومِ آزادی پر پاکستان کے دالحکومت کراچی میں پرچم
کشائی کا وقت آیا تویہ کام خود کرنے کے بجائے یہ خدمت کسی سیکولر سے نہیں
لی گئی اور نہ خود کیا بلکہ مولانا شبیر احمد عثمانی سے یہ خدمت لی گھی لی
گئی اور مشرقی پاکستان کے دالحکومت ڈھاکہ میں یہ خدمت مولانا ظفر احمد
عثمانی کے حصے میں آئی تھی۔ یہ تھا میرے قائدکا احترام علماء اور اسلام کے
رکھولوں کے لئے!!!
قائد اعظم اسوہِ رسوؒ ل ﷺ پر عمل پیرا رہتے ہوے اقلیتوں سے نفرت نہیں کرتے
تھے ۔یہی وجہ تھی کہ 17 اگست کو انہوں نے کراچی کے چرچ کا دورہ کیا تھا
تاکہ عیسائی اقلیت کو احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔اور پھر اگلے
دن 18 اگت کو نماز عید مسلمانوں کے بڑے اجتماع کے ساتھ کراچی کے( بند روڈ)
موجودہ ایم اے جناح روڈپر واقع عید گاہ کے مقام پر ادا کی۔ اس اجتماع کی
نماز عید مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ صفدر محمود لکھتے ہیں کہ
’’قیامِ پاکستان کے بعد قائد اعظم ایک سال زندہ رہے جن میں سے تین چار ماہ
علالت لے گئی ،اس کے باوجود قائد اعظم نے 14 ،بارکہا کہ پاکستان کے آئین کی
بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی‘‘ 25 ،جنوری 1948 ء میں کراچی بار
ایسوسیایشن سے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ’’یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں
شریعت نافذ نہیں ہوگی یہ شرارتی عناصر کا پروپیگنڈہ ہے․․․ناصرف مسلمانوں
بلکہ غیر مسلموں کو بھی خوفذدہ ہونے کی ضرورت نہیں‘‘ میر ے قائد کا سلام پر
فخرکا اندازہ فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام اپنی نشریاتی تقریر سے
لگایا جا سکتا ہے۔جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ دنیا کے نقشے پر’’ پاکستان
پہلی اسلامی ریاست ہوگی ‘‘ اسی طرح جولائی 1948میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان
کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوے فرمایا تھا کہ ’’مغرب کے معاشی نظام کے
بجائے پاکستان میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر معاشی نظام وضع کیا جائے گا‘‘۔
قائد اعظم کا تصورِ پاکستان متعصب مذہبی مملکت کا نہ تھا بلکہ وہ پاکستان
کو ایک اسلامی ،جمہوری فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے تھے جہاں ملائی طبقاتی
کشمکش نہ ہوبلکہ اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہو۔(کیوں نہ ہو اقبال اس حوالے
سے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’دین ِ ملا فساد فی سبی الاﷲ‘‘ )بلکہ اسلام کے
سچے اصولوں پر چل کر مملکتی امور نمٹائے جائیں گے‘‘(․․․․․ قائد اعظم محمد
علی جناح نے7 فروری 1948 ء کوسینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی میں ااپنے خطاب میں
فر مایا تھا کہ’’مذہب کو سیاست میں شامل نہیں کرنا چاہئے ،مذہب کا معاملہ
اﷲ اور انسان کے مابین ہے‘‘ )․․․․․․ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی اور قائد اعظم کے ما بین خط و کتابت کا سلسلہ 1936ء سے1943ء تک
مسلسل جاری رہا اسی سال مولانا صاحب کو دہلی اجلاس میں خطاب کی دعوت بھی دی
گئی مگر وہ اپنی علالت کے باعث شریک نہ ہوے ۔اسی سال ان کے انتقال پر
باقاعدہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کا ایک تعزیتی اجلاس بلا کر مولانا اشرف علی
تھانوی کی خدمات کو نا صرف خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ ان کے انتقال پرتعزیت
کا بھی اظہار کیا گیا۔ستمبر 1944 گاندھی سے اپنی خط و کتابت کے دوران انہوں
قرآن، پاک کے حوالوں سے گاندھی کو بتایا تھا کہ’’قرآنِ مجید مسلمانوں کا
ضابطہ حیات ہے ۔اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوجداری، فوجی، تعزیری، معاشی
سیاسی غرض یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے احکامات موجود ہیں۔مارچ 1946ء
میں شیلانگ کے مقام پر خواتین سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ
’’آئیے اپنی کتابِ مقدس قرآنِ حکیم اور حدیثِ نبوی اور عظیم اسلامی رویات
کی طرف رجوع کریں جس میں ہماری رہنمائی کے لئے ہر چیز موجود ہے۔ہم خلوص نیت
سے اس کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآنِ پاک کا ا تباؑ ع کریں․․․ ہر
مسلمان کے پاس قرآنِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی
خود کر سکے۔ کیونکہ قرآنِ پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے
پر محیط ہے پیغام ِ عید8 ستمبر 1945 ‘‘(خورشید یوسفی،قائد اعظم کی تقاریر
جلد سوم صفحہ 2053 ) 13نومبر 1939 ء کو آل انڈیا ریڈیو پر مسلمانانِ ہند سے
خطاب میں میرے قائد نے فرمایا کہ’’قرآن کے مطابق انسان (زمین پر) اﷲ کا
خلیفہ ہے۔قرآن نے ہم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ قرآن کریم کی پیروی کریں
اور لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں جیسا اﷲ اپنے بندوں کے ساتھ کرتا ہے ۔
شریف الدین پیرزادہ جو کئی سال قائد اعظم کے سیکریٹری رہے انہوں نے اپنے
ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ’’قائد اعظم کے پاس قرآنِ حکیم کے
چند نُسخے موجود تھے ․․․ بہترین نسخہ احتراماََ جزدان میں ان کے بیڈ روم
میں اُنچی جگہ پر رکھا رہتا تھا۔میں نے انہیں محمد مار ماڈیوک پکتھال کے
قرآنِ حکیم کا انگریزی ترجمہ پڑھتے دیکھا ‘‘ (محمد حنیف’’ قائد اعظم اور
قرآن فہمی،،صفحہ 72 )جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قائد اعظم کو جب بھی
موقع ملتا تھا وہ مطالعہِ قرآن فرماتے ۔تاکہ جس دین کے نظام کو وہ پاکستان
میں نافذ کرانا چاہتے تھے اُس دین کی آگاہی میں کہیں کسر باقی نہ رہ
جائے۔کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ وہ شخص جو انگلستان کا تعلیم بافتہ بیرسٹر
ہو اسلام کے بنیادی اصولوں پر ااتنی گہری نگاہ رکھنے کوکشش کرتا تھا۔ کہ
سیکولر ذہنیت تو جناح کے اس کردار سے شل ہو کر رہ جاتی ہے۔قائد اعظم کو جب
بھی موقع ملتا وہ باقاعدہ قرآن پاک سے رہنمائی اور فہم و فراست کے موتی
چننے میں مصروف رہتے تھے ۔ جس کی وجہ سے قرآنِ پاک کا ایک ایک موضوع انہیں
ذہن نشین ہوچکا تھا اس حوالے سے ڈاکٹر صفدر محمود نے قائد اعظم کی قرآن
فہمی پر اپنے مضمون بعنواں’’قائد اعظم کی قرآن فہمی‘‘ میں ایک پر مغز اور
سیر حاصل بحث کر کے ایسے لوگوں کی ہمیشہ کے لئے زبانوں پر تالے ڈالدیئے ہیں
۔ مگرڈھیٹ پھر بھی اُلٹا سیدھا ضرور بولیں گے۔جو قائد اعظم کو اسلام سے
برگشتہ ظاہر کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں!!!․مولوی
محمد علی جناح کا رائٹر لکھتا ہے کہ ’’قائد اعظم میرے آئیڈیل ہیں‘‘؟کیا اس
سے بڑا کو ئی اور جھوٹ تمہارے پاس نہیں تھا؟؟؟وہ لکھتے ہیں کہ کالم نگار کو
اس بات سے دکھ پہنچا ہے کہ انہوں نے قالین کے نیچے دبے واقعات سامنے کر
دیئے ہیں؟کونسے واقعات وہ جو قائد اعظم پر اتہام طرازی کے سوائے کچھ نہیں
ہیں؟موصوف مزید ’’ نئی بات رقمطراز ہیں‘‘کہ میں ایک نفسیاتی بیماری کا شکار
ہوں۔ َتو میرے محترم اس میں جھوٹ بھی کیا ہے؟ آپ کا اعترف سر آنکھوں پر ۔ایک
مقام پروہ لکھتے ہیں کہ مجھے مشورہ دیا گیا ہے کے اختلافی کالموں کا جواب
دینے کے بجائے معذرت کرلوں آگے خود ہی لکھتے ہیں کہ ’’میں ٹہرا جاہل‘‘ ہمیں
معلوم نہیں اگر موصوف کہتے ہیں تو صحیح کہتے ہونگے !!!لے دے کر لوگوں کے
پاس جماعتِ اسلامی کا ہی حوا لہ رہ گیا ہے۔موصوف لکھتے ہیں کہ ’’جماعت
اسلامی میں مولانا مودودی نے اختلاف کیا ‘‘تو میرے محترم بتائیں گے اُن کے
ساتھ اُس وقت کتنا بڑا جمِ غفیر تھا؟مذہبی لوگوں میں جمیعت علماءِ ہندصرف
مولانا حسین احمد مدنی کا ہی نام نہ تھا۔جمیعت ِ ہندکے جید علماء کا ایک
بہت بڑا حصہ جمعت علماء اسلام کے نام سے کام کر رہا تھا، وہ تمام کے تمام
علماء کرام قائد اعظم کی پشت پر کھڑے تھے۔ کیا اس بات سے کوئی انکار کر
سکتا ہے؟موصوف مزید رقمطراز ہیں کہ ان علماء کے’’بغل بچے آج ہمارے درمیان
موجود ہیں ․․․ہمارے ساتھ ضیافتیں بھی اڑاتے ہیں‘‘تو کیا اُ بغل بچوں میں آپ
شامل نہیں ہیں؟ آپ مفتہ کھانے سے کیون معذرت نہیں کر لیتے ؟جبکہ میر اطلاع
کے مطابق جمیعتِ احرارِ ہند میں آپ کے خانودے کے لوگ بھی شامل تھے ؟کہ آپ
کی نظر میں یہ تمام اینٹی پاکستان لوبی کے لوگ ہیں․․․اپنے بارے میں بھی
وضاحت کیجئے۔آپ تو اس بات کو بھی جھٹلانے کی کوشش کرتے دکھائی دیئے کہ ’’
قائد نے اپنی بیٹی سے ساری عمر بات نہ کی تھی کیونکہ اس نے پارسی سے شادی
کر لی تھی موصوف کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں وہ خود ہی سوچیں کہ
وہ کیا قائد کا قد بڑھا رہے ہیں؟ ‘‘ یہ بات مسٹر آپ کے بھی سوچنے کی ہے!!!
قائداعظم محمد علی جناح ایک سچے مسلمان تھے وہ اپنی مرتد بیٹی سے کیونکر
تعلقات استورا رکھ سکتے تھے؟آپ کا فرمانا ہے کہ’’ رتی جناح نے ساری عمر خود
کو رتی جناح لکھا․․․ وہ اپنا نام مریم نہیں لکھتی تھیں‘‘تو یہ کونسی انوکھی
بات ہے وہ تو ماں کے طلاق لے لینے کے بعد سے ہی پارسی رہی تھی اور ایک
پارسی سے جب اس کی ماں قائد اعظم کے مشورے کے بغیر شادی کردی اور وہ خود
بھی قائد سے علیحیدگی کے بعد پاری مذہب ہی اختیار کر چکی تھی تو وہ کیسے
اپنا مریم نام لکھتی؟وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’یہ درست ہے کہ قائد اپنی
بیٹی دینا سے ناراض رہے․․․قائدنے اپنی جائداد سے انہیں عاق نہیں کیا بلکہ
ان کے حصے میں دو لاکھ روپے آئے ‘‘ انہیں شائد پیرزادہ ہونے کے باوجود یہ
علم ہی نہیں ہے کہ اسلام کی رو سے ترکے میں اولادکا حق ہوتا ہے اگر میرے
قائد نے دو لاکھ روپے دینا کو وصیعت کئے تو وہ عین اسلام کی روح کے مطابق
تھا۔و ہ مزید رقم طراز ہیں کہ ’’ان کا اڑھنا بچھونا سب اس بات کی گواہی
دیتے ہیں کہ وہ ماڈرن لبرل مسلمان تھے‘‘ماڈران کا لفظ تو چلو ہم مان لیتے
ہیں جناح ہونگے مگر آزاد خیال ہر گز نہ تھے۔ اگر آزاد خیال یاسیکولر ہوتے
تو وہ کانگرس کو کبھی نہ چھوڑتے۔کیونکہ کانگرس تو لبرلزم کی ہی حامی جماعت
تھی۔ان کا یہ بھی لکھنا ہے کہ ’’بانیِ پاکستان جنھوں نے ساری عمر ہی ایسے
گذاری (لوگ)انہیں مذہبی رہنما بنانے پر تلے ہیں‘‘یہ کس نے کہا کہ قائد اعظم
مذہبی رہنما تھے مسٹر اپنی غلط فہمی دور کرلیں وہ مذہب سے تو بے پناہ عقیدت
رکھتے تھے مگر مذہبی رہنما ہر گز نہ تھے۔
موصوف کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ تحقیق میں اصل حوالے دیئے جاتے ہیں
مکھی پر مکھی نہیں بٹھائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے تقریباَاسی فیصد سے
زیادہ حولے غلطیوں پر مبنی ہیں َ ۔ انہوں اصل ماخذ تک پہنچنے کی کوشش ہی
نہیں کی ہے بس دوسروں کے دیئے گئے بے بنیاد حوالوں پر اکتفا کرتے ہوے پوری
عمارت کھڑی کر دی اور سمجھ بیٹھے کہ انہوں نے امبر پر تھیکڑی لگا دی ہے۔
|