افغانستان میں قیام امن کے لئے صدراتی انتخاب سے زیادہ ضروری امریکی فوج کا انخلاء

ان دنوں ایشا کے مشرقی ممالک میں انتخابات کا موسم بہار آیا ہوا ہے آج بروز ہفتہ کو افغانستان میں صدارتی انتخاب ہوے جارہا ہے 7 مئ 2014 سے ہندوستان میں عام انتخابات کا آغاز ہوگا. ابھی دوماہ قبل بنگلہ دیش میں الیکشن ہواہے جبکہ 9 ماہ قبل جولائی 2013 میں پاکستان میں الیکشن ہواتھا گویا ماضی کا وہ متحدہ ہندوستان جو آج چار ملکوں میں تقسیم ہو چکا ہے ایک ساتھ انتخابی موسم سے گذررہاہے اور انتخاب میں ایک متحدہ وفت پر جمع ہے .آئیے آج بات کرتے افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخاب کی
افغان کےصورتحال پر پوری دنیا کی توجہ مبذول ہے۔ کیوں کہ افغانستان کی سرکاری مشینری اور ۔ افغان حکومت کو نیٹو فورس نے تباہی کے آخری دہانے پر پنہچا دیا ہے۔ نیٹو فورس افگانستان میں موجود سرکاری اہلکاروں کاتعاون کم اور طالبان کے خلاف لڑائی اور معصوم عوام کا قتل زیادہ کرتی ہے. افغانستان میں طالبان کے خلاف استعمال ہونے ولا جدید اسلحہ بھی دراصل نیٹو فورس کے لئے آتا ہے ۔ اگر یہ اسلحہ اور فورس نہ ہوتی تو شاید اتنے طویل عرصہ تک کابل میں موجودہ نظام نہ چل پاتا۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ 2014ء کے آخر میں امریکی انخلاء کے بعد ہی وہاں امن وسلامتی کی بحالی ہوسکتی ہے اس سے قبل ناممکن اور بے جا خیال ہے۔افغانستان کے موجودہ صدر حامد کرزئی بھی زمینی حقائق بھانپ چکے ہیں انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ ایک ڈذامہ تھا اس فرضی الزام کی آڑ میں افغان کو تباہ وبرباد کرنا تھا اس لئے اب وہ خود کو امریکہ مخالف کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں۔ اس سلسل میں انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایسے بیانات بھی دیئے ہیں جو اس سے قبل ان کے حوالے سے سوچے بھی نہیں جاسکتے تھے۔ انہوں نے خود کو افغان عوام کا سچا ہمدرد ظاہر کیا اور عوام پر امریکی ڈرون کی بھی مخالفت کی۔ اسی طرح ایک موقع پر انہوں نے امریکی قیادت سے ملاقات سے بھی انکا رکردیا۔

اس ساری صورتحال کی وجہ یہ بھی ہے کہ طویل جنگ کے باوجود امریکہ نہ تو افگان طالبان کے امیر کو ہلاک یا گرفتار کرسکا اور نہ ہی افغانستان سے ان کا اثر و رسوخ ختم کرسکا تاہم۔صدر حامد کرزئی کی اب یہ امریکی بیزاری کسی کام کی نہیں رہ گئ ہے افغانستان کو جتنا تباہ ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اب وہاں مزید کچھ رہ نہیں گیا ہے اور نہ ہی وہاں کی طالبان اورعوام کزرئی کو معاف کرسکتی ہے ویسے بھی ان کی حکومت صرف کابل شہر میں محدود تھی بقیہ پورے افغانستان پر عملاََ طالبان کی ہی حکومت ہے. اس لئے کرزئی کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ امریکہ یا کسی یورپین آقا کے یہاں اپنی پنا گاہ تلاش کرلیں ورنہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ان کی خیر نہیں ہے.

بات ہوری تھی الیکشن کی آج برور ہفتہ 5 اپریل 2014 کو افغانستان میں صدارتی انتخابات منعقد ہورہا ہے طالبان کو الیکشن میں شرکت کی دعوت دی گئ تھی لیکن طالبان نے انتخابی مہم میں حصہ لینے سے انکار کردیا طالبان کو الیکشن میں شریک کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ باضابطہ طور پر قومی دھارے میں شامل ہوجائیں اور اپنے نظریات سے قطع نظر امریکی احکامات کی بجاآوری کریں، موجودہ انتخاب میں آٹھ امیدوار میدان سیاست میں سرگرم ہیں جبکہ موجودہ صدر حامد کرزئی ان میں شامل نہیں ہیں کیوں کہ آئینی طور پر وہ اس منصب کے لئے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔طالبان کی دھمکیوں کے پیش نظر سیکیورٹی کے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سابق وزیر خزانہ اشرف غنی اور سابق وزیر خارجہ زمے رسول میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

خدا کرے امن وسلامتی کے ساتھ الیکشن پایہ تکمیل کو پہنچ جا ئے کسی طر کا کوئ نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے جہاں تک بات ہے امن وسلا متی کی بحالی کی تو ناٹو فواج کے رہتے ہوئے تقریبا یہ ناممن ہے صدارتی انتخاب سے چہرے بدل جائیں گے لیکن پالیسی وہی رہےگی. امریکی آقاؤں کی اطاعت ان کی اولین مرضی ہوگی. امریکی فوج کا انخلا وہ کسی بھی صورت میں نہیں چاہیں گے اور اس کو طالبان اور عوام کسی بھی حال میں پسند نہیں کرے گی نتیجہ بد امنی کی شکل میں رونما ہوگا اس لئے امریکہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ خطے کی سلامتی اور اپنے وعدہ کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے ناٹو افواج کی واپسی شروع کردے.

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 164331 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More