ہماری سیاست میں نہ تو اخلاقی
اقدار کی پاسداری کا رواج رہا ہے ، نہ ہی نظریاتی وابستگیوں کا۔ سیاسی
جماعتوں کا طرز عمل ہو یا سیاست دانوں کا انفرادی کردار ، کسی بھی نظریے سے
مبرا محض ذاتی مفادات کا مرہون منت دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتنی عجیب اور سطحی
سوچ ہے کہ جب تک آپ کے ذاتی مفادات کسی سے وابستہ ہیں تو آپ اس کی شان میں
زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں اور جب آپ کے مفادات کو ٹھیس پہنچے تو
مخالفت اور گالم گلوچ پر اتر آئیں۔چند روز قبل جاوید ہاشمی کو ایک جلسہ
نماعید ملن پارٹی میں اپنے سابق قائدین کے متعلق انتہائی عامیانہ الفاظ
استعمال کرتے سنا تو اچنبھا ہوا اور یوں لگا کہ ان کی بردباری اور نرم
مزاجی سونامی کی نذر ہو چکی۔
سیاسی جماعتیں یا وابستگیاں تبدیل کرنا کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی
اقدام ہر گز نہیں اور نہ ہی اسے غیر اخلاقی گرداننا چاہیئے، مگر فقط تب تک
جب تک یہ تبدیلی کسی اصول یا نظریے کی بنیاد پر کی جائے نہ کہ ذاتی مفادات
اور اختیارات کے حصول کے لئے ۔ یہ وہ جاوید ہاشمی ہیں جو اپنی خود نوشت میں
میاں نواز شریف کو ’’ فخر پاکستان‘‘ قرار دے چکے ہیں اور اب مسلم لیگ (ن)
اور شریف برادران پر کرپشن کے الزامات کی بوچھار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے
نہیں جانے دیتے اور اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنے سال وہ
وزارتوں اور پارٹی عہدوں یعنی اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے اس کرپشن کو نظر
انداز کرتے رہے۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے فقط ایک روز قبل میاں نواز شریف
کے ہمراہ دورہ سندھ میں ایک جلسہ کے دوران ہاشمی صاحب نے فرمایا کہ ’’ اگر
پاکستان کو کوئی لیڈر بچا سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہیں ‘‘ اور اگلے ہی روز
وہ اپنے سابقہ قائدین اور پارٹی کے بارے میں تمام بڑے ٹی وی چینلز کو انٹر
ویو دیتے ہوئے زہر اگلتے رہے۔ یاد رہے کہ اسی کرپٹ قیادت اور پارٹی کی طرف
سے دئیے جانے والی لگژی گاڑی تا حال ہاشمی صاحب کے زیر استعمال ہے۔کیا یہ
اصولی سیاست ہے؟
ایسے بہت سے سیاستدان ہمیں تقریباّّ ہر جماعت میں نظر آتے ہیں جو اپنے ذاتی
مفادات کے اسیر ہیں ۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کو سب سے زیادہ تنقید کا
نشانہ اس لئے بنایا جاتا ہے کہ عمران خان کرپشن سے پاک صاف ستھرے فرشتے
لانے کے داعی رہے ہیں ۔ مگر بعد میں بقول خان صاحب فرشتوں کی عدم دستیابی
کے باعث انہیں ایسی بھرتیاں کرنا پڑیں جو ان کے نظریاتی اصولوں کے انتہائی
برعکس ہیں۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے فاروڈ بلاک کے ساتھی ہوں یا جنرل پرویز مشرف کے
ساتھیوں، وزیروں اور مشیروں کی پارٹی میں شمولیت ۔۔۔ مسلم لیگ (ن) بھی ایسی
سیاست سے مبرا نہیں۔ ماروی میمن جو الیکٹرانک میڈیا پر مشرف کے نظریات کا
پرچار اور ان کی پالیسیوں کا دفاع کرنے میں بے حد سر گرم رہیں، آج مسلم لیگ
(ن) کی صفـ اول کی لیڈر بنی بیٹھی ہیں۔ بغیر دعوت تحریک انصاف کے جلسے میں
شرکت کرنے والی ماروی میمن اگر عمران خان کی طرف سے مطلوبہ پارٹی عہدہ عطا
نہ ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر مسلم لیگ (ن) میں شامل نہ ہوتیں تو آج
بہت شد و مد سے سونامی کی حمایت کر رہی ہوتیں ۔ ماروی میمن ہوں، امیر مقام
، طارق عظیم یا مشرف کے دیگر قریبی ساتھی (ن) لیگ انہیں گلے کا ہار بنائے
بیٹھی ہے۔ پارٹی کے اپنے کارکنان اور رہنما نجی گفتگو میں ان بھرتیوں سے
خاصے نالاں نظر آتے ہیں ۔ انہی وجوہات کی وجہ سے پارٹی کے کچھ داخلی
اختلافات بھی میڈیا کی زینت بنے۔
پاکستان پیپلز پارٹی تو خیر کھلے عام "مفاہمت" کو اپنا نظریہ سیاست قرار
دیتی ہے اور ق لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی سے اتحاد کر کے ملک کے"
مفادات‘‘ کا تحفظ کیے ہوئے ہیں ۔ بھٹو صاحب کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم
کرنے والے بابر اعوان طویل عرصے تک پارٹی میں راج کرتے رہے۔ مشرف کے سر گرم
ترجمان فواد چوہدری ہوں ،مشرف کابینہ کی وزیر حنا ربانی کھر یا ڈاکٹر حفیظ
شیخ یا دیگر۔۔پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایسے سیاستدانوں سے بھری ہوئی ہے ۔
ماضی میں عمران خان کو معمولی کپتان کہنے والے اور آج ان کی کپتانی میں
سیاسی اننگ کھیلنے کو بے تاب شیخ رشید، کچھ عرصے پہلے تک صدر آصف علی
زرداری کی سر پرستی حا صل کرنے کے خواہاں تھے ، مگر آج انہیں باسٹرڈ کہتے
بھی نہیں چوکتے۔ ایم کیو ایم متعدد بار پی پی پی کی قیادت سے ناراض ہو جاتی
ہے اور پھر وسیع تر "مفادات" کی بنا پر مان جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحٰمان
کبھی حکومت کے ساتھ کھٹرے نظرآتے ہیں تو کبھی اپوزیشن کے۔ سیاسی جماعتوں
میں داخلی طور پر بھی عہدوں، وزارتوں اور اختیارات کی لڑائی چلتی رہتی ہے۔
جس کو وزارتوں اور عہدوں سے رام کر لیا جائے تو ٹھیک ورنہ پارٹی قیادت کے
خلاف بیان بازی اور مخالفت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے
ہاں اصولی سیاست کو ڈھونڈنا بے حد مشکل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا پر محاسبہ کی صورت میں ایسے سیاستدان خود میڈیا
پرسنزکے صحافتی ادارے بدلنے کا حوالہ دیتے ہیں ۔ حالانکہ میڈیا کے افراد
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے نہیں ہوتے جو اپنی
وفاداریاں تبدیل کریں تو بے وفائی کے مرتکب ٹھہریں ۔یوں بھی اپنے صحافتی
اصولوں اور نظریات کو ترک نہ کرتے ہوئے کسی بھی صحافی کا اپنا ادارہ تبدیل
کرنا کسی طور پر غیر اخلاقی نہیں ۔ جبکہ بار بار اپنی رائے کو تبدیل کرنے
والے صحافیوں کوصحافتی حلقوں میں بھی نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
۔ دوسری دلیل قائد اعظم محمد علی جناح کی دی جاتی ہے جو پہلے کانگریس میں
تھے ۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی سیاستدان کا خود کا قائد اعظم سے مقابلہ کرنا
ہی مضحکہ خیز ہے۔ دوسری بات یہ کہ قائد اعظم نے اپنا سیاسی نظریہ تبدیل
نہیں کیا تھا بلکہ اس سیاسی نظریے کی وجہ سے ہی پارٹی کو خیر باد کہا ۔ وہ
کانگریس میں بھی مسلمانوں کے حامی رہے اور مسلم لیگ میں بھی۔
سیاست دان خود بھی ایسے سیاستدانوں کا محاسبہ کرنے میں سنجیدہ نہیں ۔ اگر
آئینی ترمیم کے ذریعے PCOکے تحت حلف اٹھانے والے جج کو عہدے سے نااہل قرار
دینے کے حوالے سے قانون سازی کی جا سکتی ہے تو کیا سیاستدانوں کو اور نہیں
تو کم از کم فوجی آمروں کی حکومت کے تحت وزارتیں لینے پر سیاست سے نااہل
قرار دینے کے لئے کیوں نہیں ؟میڈیا پر بھی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
ایسے سیاست دانوں کو بار بار پروگراموں میں بلا کر ان کی تشہیر بند کی
جائے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بھی فرض کہ ان کا مکمل با ئیکاٹ ممکن نہ
بھی ہو تو کم از کم انہیں اپنی جماعت کی اولین صفوں میں جگہ مت دیں ۔ دوسرے
طرف اس جماعت کے کارکنان اور رہنماؤں کو بھی ایسی بھرتیوں پر مزاحمت دکھانی
چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوام الناس پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ
عوام کے ووٹوں کی طاقت ہی ہے جس سے ایسے سیاستدان اقتدار کے ایوانوں میں
براجمان رہتے ہیں۔ یہ عوم ہی ہیں جنہوں نے شیخ رشید اور اعجاز الحق جیسے
مقبول سیاستدانوں کو ان کی بے وفائی کی سزا دیتے ہوئے بد ترین شکست سے
دوچار کیا اور پارلیمانی سیاست سے باہر لا پھینکا۔ عوام کا فرض ہے کہ
سیاستدانوں کے ماضی اور قول و فعل پر نظر رکھیں اور برادریوں اور قبیلوں سے
ماورٰی، سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال کریں ۔ |