طالبان سے مذاکرات پر قیاس آرائیاں

طالبان کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے حکمت عملی بالکل واضح ہے۔ وہ اپنے قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کے علاوہ قبائلی علاقوں پر مکمل تسلط چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی طرف سے ’’ جنگ ‘‘ کے دوران ہونے والے نقصان کا مالی معاوضہ ادا کرنے کی باتیں بھی کی گئی ہیں۔ ان کے برعکس حکومت کی پالیسی بالکل غیر واضح اور مبہم رہی ہے۔ وہ اب تک یہ واضح نہیں کر سکی کہ مذاکرات کے ذریعے حکومت کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’’رائٹرز ‘‘نے جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کے حوالے سے خبر دی تھی کہ طالبان کے سولہ قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے تاہم ان کا تعلق مسلح جنگجووں سے نہیں ہے۔ ابھی اس خبر کی گونج بھی ماند نہیں پڑی تھی کہ اسلام آباد میں سرکاری حلقوں کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ محسود قبیلہ سے تعلق رکھنے والے جن سولہ افراد کو رہا کیا گیا ہے وہ معمولی جرائم میں گرفتار تھے۔ ان میں کسی پر بھی دہشت گردی کا الزام نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی بڑے جرم میں ملوث تھے۔ اس کے باوجود سہ پہر تک وزیراعظم کو ایک بیان میں ان ’’ افواہوں ‘‘ کی تردید کرنا پڑی کہ حکومت نے طالبان کے کسی بھی رکن کو رہا کیاہے۔ تاہم رات گئے وزیر اعظم ہاؤس نے بھی اپنی یہ تردید واپس لے لی۔ اور وزارت داخلہ کے کے نئے بیان نے انیس غیر عسکری طالبان کی رہائی کی تصدیق کردی۔

اس سے قبل وزیراعظم ہاوس کے بیان میں اس حوالے سے پھیلنے والی سب خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے طالبان کے کسی قیدی کو نہ تو رہا کیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہاوس کے ترجمان نے اس قسم کی سب خبروں کو قیاس آرائیاں قرار دیا۔ اس دوران طالبان اور ان کے ترجمانوں کی طرف سے مکمل خاموشی رہی۔ طالبان کمیٹی کے رکن اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم خان طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کئی ہفتوں سے سرگرم رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مسلسل یہ مہم سازی کی ہے کہ حکومت کو طالبان قیدی رہا کرنے چاہئیں تا کہ مذاکرات میں طالبان کا اعتماد بحال ہو۔اس سے قبل قبائلی علاقے میں ٹل کے مقام پر سرکاری نمائندوں اور طالبان کی اصل قیادت کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے ، ان میں بھی اس مسئلہ کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ اگرچہ اس ملاقات کے بارے میں حکومت یا طالبان کی طرف سے براہ راست کوئی بات نہیں کی گئیی تھی لیکن ’’ باخبر‘‘ ذرائع مسلسل یہ خبریں دے رہے تھے کہ پہلی ملاقات میں طالبان کی طرف سے اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے پاکستانی شہریوں کی رہائی کی بات سامنے لائی گئی تھی۔ ان میں خاص طور سے بعض ہائی پروفائل لوگوں کا ذکر شامل تھا جنہیں مختلف علاقوں میں گزشتہ دو برس کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔ ان میں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، سابق اور مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادگان شامل تھے۔ البتہ طالبان نے یہ اعتراف کرنے کے باوجود کہ یہ معصوم لوگ ان کی قید میں ہیں، انہیں رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مذاکرات اور طالبان کی طرف سے دہشت گردی کے تسلسل کے بعد فروری کے آخر میں حکومت نے یہ الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر طالبان حملے بند نہیں کریں گے تو حکومت مذاکرات آگے نہیں بڑھائے گی۔ اس کے بعد طالبان نے یکم مارچ سے ایک ماہ کے لئے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ یہ مدت 31 مارچ کو ختم ہو گئی ہے۔ اس دوران دہشت گردی کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے سنگین واقعہ گزشتہ ماہ کے دوران اسلام آباد کچہری پر دہشت گردوں کا حملہ تھا۔ اس سانحہ میں متعدد دہشت گردوں نے ڈسٹرکٹ کورٹس میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ اس طرح انہوں نے گیارہ افراد کو ہلاک کیا۔ ان میں ایک ایڈیشنل سیشن جج بھی شامل تھے۔ خبروں کے مطابق انہیں خاص طور سے ٹارگٹ کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے لال مسجد کے مقدمہ میں انتہا پسند گروہوں کا مؤقف ماننے سے انکار کیا تھا۔

اس حملہ کی ذمہ داری طالبان کی طرف سے کسی نامعلوم گروہ احرار الہند پر ڈال دی گئی تھی۔ طالبان کا کہنا تھا کہ ان کا اس گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم بعض طالبان ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ گروپ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان قیادت سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انتہا پسندوں کے کون سے گروہ بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اس طرح ان چھوٹے گروہوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کا قلع قمع کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان کا مؤقف رہا ہے کہ طالبان کی بڑی اکثریت مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کی حامی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں رکاوٹیں صرف حکومت کی طرف سے ڈالی جاتی رہی تھیں۔ تاہم نواز شریف حکومت کی پیشرفت سے تحریک انصاف کے قائد بھی مطمئن تھے۔

قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کے انخلاء کے حوالے سے پاک فوج کی قیادت تحفظات رکھتی ہے۔ خبروں کے مطابق فوج یہ مطالبات ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ طالبان کے زیر حراست لوگوں میں اکثر دہشت گردی کی سنگین کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان پر سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے کے الزامات بھی ہیں۔ بعض لوگوں کو طویل المدت قید یا موت کی سزا بھی ہو چکی ہے۔ البتہ حکومت نے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کو مسلسل تعطل کا شکار کیا ہوا ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے طالبان کے مطالبات ماننے کی صورت میں مملکت کا بنیادی اختیار چیلنج ہو گا۔ ایک طرف خطرناک مجرم جیلوں سے رہا ہو جائیں گے تو دوسری طرف اپنی ہی سرزمین پر ریاست خود اپنے اختیار سے محروم ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں مطالبے مان کر حکومت کسی طرح بھی اپنے اختیار اور ملک کے اقتدار اعلیٰ کی بات کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ چند طالبان کی رہائی کے معاملہ پر وزیراعظم کے ترجمان کی طرف سے تردیدی بیان جاری کیا گیا ہے۔ تاہم بعد میں اسے واپس لے کر اس شبہ پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی عوام میں غیر یقینی کی کیفیت حکومت کے اختیار اور ارادوں کے بارے میں سنگین سوالات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اگر حکومت طالبان کے مطالبات مان رہی ہے تو اسے کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہئے اور عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں آنکھ مچولی کا کھیل حکومت کی ساکھ اور مقبولیت کے لئے جان لیوا ہو گا۔ اس کے علاوہ قانون اور ریاست پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179981 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.