ازل سے ہی اس دنیا میں خیرو شر ،اچھا
ئی برائی،نیکی بدی ،سدھار ، بگاڑ،انسانیت و حیوانیت،تحفظ و درندگی،دوستی و
دشمنی،انصاف و ظلم ،عدل و زیادتی اندھیرے اجالے اسی طرح سیکولرزم اور
کمیونلزم ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں اور انسان ان میں سے کسی ایک کا حامی ،خوگر
،مداح اور علم بر دار رہا ہے۔ان لوگوں کو خوش نصیب کہا گیا جو اول الذکر
باتو ں کے حامل رہے اور جنھوں نے ثانی الذکر باتوں کو اختیارکیا انھوں نے
انسانیت کی راہ میں کانٹے بچھا ئے ہیں۔سیکولر زم ہر اس ملک،نظام اور
جہانبانی کی اولین ضرورت رہی ہیں جہاں انسانیت آباد ہو ،اس کا مذہب کوئی ہو
یا نظر یہ حیات کچھ بھی،وہاں چاہے کسی کی عبادت ہوتی ہو اور کسی کے نام پر
لوگ جیتے مرتے ہوں ۔اس کے بر خلاف کمیونلزم انسانیت کے حق میں زہر قاتل
ثابت ہواہے ۔اس نے انسان کوانسان کو لڑا یا اور اقدار کو پامال کیا ،روایتوں
کوفنا کیا اور دستوروں میں آگ لگائی۔زندگی کے معنا جدا بیان کیے اور شدت
پسندی کو فروغ دیا۔
ہندوستان میں کانگریس نے سیکولرزم کا بیڑا اٹھا یا تھا۔ایک عرصے تک وہ اسے
لے کر بھی چلی تھی ،انصاف پسند عوام ہند نے اس حسن اختیار پر اس کا استقبال
بھی کیا اور آزادی کے بعد ملک کی کمان اس کے ہاتھوں میں دیدی اور حیدرآباد
اسٹیٹ و ریاست جوناگڑھ پرکیے گئے قیامت خیز پولیس ایکشن پر بھی اس کا ساتھ
دیا۔ مگر رفتہ رفتہ کانگریس ’سیکولرزم کا چولا‘پہنے کمیونلزم سے قربیت
بڑھانے لگی ، ہندو مہاسبھا اور جدید دور کی آر ایس ایس نے اس میں اپنے
زہریلے جراثیم پیوست کردیے جن کا اسے بر وقت احساس نہ ہو سکا تاہم کچھ
اندیشہ تو ہوا مگر اس نے اس کا نام ’حب الوطنی‘رکھ دیا۔’کیا ہم وطن کی آبرو
کی خاطر اس ملک میں باہر سے آنے والوں بالخصو ص مسلمانوں کو پریشان نہیں کر
سکتے۔‘آر ایس ایس کے ذریعے داخل کیے گئے جراثیم کا رد عمل شروع ہوا۔مگر اب
تک مسلمانوں کو اس کا احساس نہ ہو سکا کہ کانگریس ان کے گلے سے لگ کر کس
طرح گلا ریتنے کی تیاری کررہی ہے۔1971میں سقوط ڈھاکہ اور اندراگاندھی کے شر
رانگیز بیا ن نے حساس لوگوں کے کان کھڑے کردیے ،انھوں نے آواز بلند کی مگر
انھیں اپنوں کی ہی مخالفت کا سامنا کر نا پڑا اور وہ اقلیت میں ہونے کے سبب
خاموش ہو گئے۔ملک امرجنسی کے چنگل میں پھنسا دیا گیا اور حکم امتناعی کے
نفاذ کے بعد ایسے لوگوں کو چن چن کر نذر زنداں کیا گیا جنھیں کانگریس کی
’اصلیت‘کا انداز ہ ہو گیا تھا ۔نیز ان میں سے جو کچھ زیادہ ہی حساس تھے
انھیں جلادوں کے حوالے کردیا گیا۔ بر بریت کا یہ عالم دیکھ کر پورا ملک کا
ایک آواز اور ایک آہنگ ہوکر کانگریس پر ٹوٹ پڑا اور اس کا عبرت ناک حشر کر
کے ہی دم لیا ۔اب ملک کا اکثر طبقہ کانگریس کی اصلیت سے واقف ہو چکا تھا
مگر مسلمانوں کی مت ماری گئی جو اس وقت بھی کانگریس کو اپنا مسیحا اور نجات
دہند ہ تصور کرتے تھے۔بالآخر1992 میں ایودھیا کی بابری مسجد کانگریس کے
ہاتھوں مسمارکر دی گئی۔بابری مسجد ایکشن کمیٹی،بابری مسجد بچاؤ کمیٹی ،جیسی
کمیٹیوں نے وزیر اعظم راجیو گاندھی اور نرسمہاراؤ کو یقین دلا یا کہ مسلمان
ان کے اقدام کی مخالفت نہیں کر یں گے۔ایک نے شیلا نیاس کر کے بند مسجد کا
تالا کھولا اور دوسرے نے وہاں رام مندر کی اجازت دے دی ۔یہ سب کچھ مسلمانوں
کی آنکھوں کے سامنے ہوا ۔ان کے ایمان اور ان کی غیرت نے اس کا معاینہ کیا
مگر پھر بھی وہ کانگریس کی اصلیت سے لاعلم رہے یا آنکھوں پر اطاعت کی پٹیاں
باندھ لیں ۔1999میں نہ جانے کیسے فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار
آگیا ۔مسلمانوں کا اس کا بہت صدمہ ہوا ۔ان کی محبوب پارٹی جو تقریباً 50برس
سے اس ملک کی باگ ڈورسنبھالے آرہی تھی ،وہ اقتدار سے بے دخل کردی گئی ۔مسلمانوں
نے این ڈی اے کے زیراقتدار ان پانچ برسو ں کواس طرح گذارا جیسے کسی کوکوئی
کڑوی چیز پینے کو دیدی جائے۔2003میں عام انتخابات میں کانگرس بنام یوپی اے
،بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اس کا ملک بالخصوص مسلمانوں میں ملک بھر میں
تاریخ ساز جشن منایا ۔کانگریس نے نئی صدی میں نئے ستم ایجاد کیے ،آر ایس
ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں جو این ڈی اے کے عہد میں اپنی کمین گاہوں سے
باہر آگئیں تھیں انھوں ملک بھر میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کردیا اور
کانگریس نے ان کی پاداش میں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے مسلم نوجوانوں پر
شکنجہ کسنا شروع کردیا۔انھیں دہشت گرد،آتنک وادی کہہ کر بدنام کیا اور ان
کے وقار کو ٹھیس پہنچائی،جس سے وہ معاشرے اور سماج میں کسی کو منہ دکھانے
کے قابل نہ رہے ۔ بعض اس صدمے کی تاب نہ لاکردم ہی توڑ دیا۔003 سے لے کر
2009کا پوراعرصہ ایسا رہا کہ بم مسجدمیں پھٹیں یا مندر میں یا عام گذرگاہوں
و مقامات پر مگر قصور وار مسلمان اور ان کے نونہال ہی بنتے ،ان پر ہی دوران
نماز و عبادت گولیاں چلتیں اور انھیں ہی عقوبت خانوں میں ڈالا جاتا۔ اسی
دوران کانگریس کے زیر کمان دہلی پولیس اور اس کے اشارے پر ریاستی پولیسوں
نے انڈین مجاہدین،حزب المجاہدین،لشکر طیبہ،یاسین بھٹکل،ایس آئی ایم آئی نام
کی تنظیمیں گھڑ کر مسلمانوں کووطن دشمن اور ملک کا غدار ثابت کر تے ہوئے
ایسی تمام تحریکوں پر پابندی لگادی اورمسلمانوں کو یر غمال بنالیااس سے
مسلمانوں کو دہرے کرب کا سامنا ہوا ایک تو ان کی حب الوطنی پر مشکوک ہوگئی
دوسرے ان سے برادران وطننے ناطے توڑ لیے۔اس طرح کی حرکتیں کر کے یوپی اے
اول نے پورے ملک میں ایسا ماحول بنایا کہ یہاں کا اکثریتی طبقہ اس کے
کارناموں سے خوش ہو گیا اور آر ایس ایس کی شرپسندیوں کا تجربہ کامیاب ہو
گیا ۔چنانچہ انھوں کانگریس کو اس کایہ صلہ دیا کہ اسے 2009کے عام انتخابات
میں سرخ رو کردیا۔اس ٹرم میں کانگریس نے پھر مسلمانوں پر زمین تنگ کردی اور
کھل کر کمیونلزم کے مظاہرے کر نے لگی ،مہنگائی ،بدعنوانی، غلط
بیانی،عدالتوں کی خریداری اور ملک میں اپنی من مانی کے وہ کارنامے کیے جو
کسی جمہوری ملک میں کسی بھی طرح درست نہیں ہوسکتے ۔ کانگریس نئی صدی دوسری
دہائی میں پوری طرح کمیونل بن چکی ہے مگرمسلمانوں کو ابھی اس میں ’سیکولرزم
‘نظر آرہا ہے ۔نہ جانے ان لوگوں کی نظر کیسی ہے یا نظر ہے نہیں۔
احساس
کانگریس نے نئی صدی میں نئے ستم ایجاد کیے ،آر ایس ایس اور اس کی ذیلی
تنظیمیں جو این ڈی اے کے عہد میں اپنی کمین گاہوں سے باہر آگئیں تھیں انھوں
ملک بھر میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کردیا اور کانگریس نے ان کی پاداش
میں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے مسلم نوجوانوں پر شکنجہ کسنا شروع
کردیا۔انھیں دہشت گرد،آتنک وادی کہہ کر بدنام کیا اور ان کے وقار کو ٹھیس
پہنچائی،جس سے وہ معاشرے اور سماج میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے ۔
بعض اس صدمے کی تاب نہ لاکردم ہی توڑ دیا۔003 سے لے کر 2009کا پوراعرصہ
ایسا رہا کہ بم مسجدمیں پھٹیں یا مندر میں یا عام گذرگاہوں و مقامات پر مگر
قصور وار مسلمان اور ان کے نونہال ہی بنتے ،ان پر ہی دوران نماز و عبادت
گولیاں چلتیں اور انھیں ہی عقوبت خانوں میں ڈالا جاتا۔ |