جنگیں مسائل کا حل نہیں ،ادب ،ثقافت،سیاست،دین
،مسلک میں کہیں بھی جنگ و جدل کا زکر نہیں، بات ہے تو صرف امن کی،سلامتی کی،
انسانیت کی بقا کی،دنیا امن کا گہوارا ہو کون نہیں چاہتا ، پھر قدرت کے
برخلاف سرحدیں،بموں کی تنصیب اور میزائلوں کی تیاری اور خونی لکیریں
کیوں؟چاند تو کجا مریخ تک انسان کی رسائی کے باوجود بھی ایٹمی ہتھیاروں کی
دوڑ آخر کس لیئے……اگر یہی کھربوں کی رقم انسانیت کی بھلائی کے لیے خرچ ہو
تو شاید یہی دنیا امن کا حقیقی گہوارا بن ہی جائے…… آج کے سپر پاور امریکہ
کے صدر باراک اوبامہ نے 2009 ء میں پراگ میں خطاب کے دوران نیوکلیئر دہشت
گردی کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے
اوبامہ نے 2010 ء میں واشنگٹن ڈی سی میں پہلی نیوکلیئر سیکورٹی کانفرنس (این
ایس ایس) منعقد کی تھی۔ اس پہلی کانفرنس میں 47 ء ممالک سمیت تین عالمی
تنظیموں نے شرکت کی اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لئے اعلیٰ سطح کے اقدامات
تجویز کئے تاکہ نیوکلیئر دہشت گردی سے بچا جا سکے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے
ہوئے دو سال بعد دوسری نیوکلیئر سیکورٹی کانفرنس 2012 ء میں سیؤل میں ہوتی
ہے جس میں 53 ممالک سمیت 4 عالمی تنظیمیں شرکت کرتی ہیں۔ پہلی کانفرنس میں
سیاسی معاہدات کرنے پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ سیؤل کانفرنس میں ان معاہدات
پر عملدرآمد کی پراگریس پر غور ہوتا ہے۔ اب کی بار تیسری نیو کلیئر سیکورٹی
کانفرنس کے انعقاد کا اعزاز نیدر لینڈ کا مقدر بنا ہے، 2014 ء کے تیسرے ماہ
یعنی مارچ میں انسانیت کے تحفظ اور بچاؤ کی عظیم الشان کانفرنس دارالحکومت
ہیگ میں ہو گی۔ نیدرلینڈ کا انتخاب اس بنیاد پر ہوا ہے کہ ’’دنیا میں اس
ملک کو امن‘ انصاف اور سیکورٹی کا علمبردار مانا جاتا ہے‘‘ عالمی عدالت
انصاف اور عالمی عدالت برائے جرائم دونوں کے ہیڈ کوارٹر بھی ہیگ ہی میں ہیں۔
نیدرلینڈ دو بڑے ٹرانس شپمنٹ حب سکائی فول ائرپورٹ اور پورٹ آف راسٹرڈیم
بھی رکھتا ہے۔ این ایس ایس کے لئے اس ملک کو میزبانی کا مقصد دنیا اور
باالخصوص نیدر لینڈ کو محفوظ رکھنا ہے۔ہیگ میں منعقد ہونے والی (NSS) کے
بنیادی مقاصد میں دنیا میں ایٹمی مٹیریل کی مقدار میں کمی‘ نیوکلیئر مٹیریل
کے تحفظ اور ریڈیو ایکٹو ذرائع کی بہتری اور عالمی تعاون کا فروغ شامل
ہے۔ایٹمی تحفظ کانفرنس کے تحت ہر ملک واشنگٹن ورک پلان کے تحت اپنے ایٹمی
اثاثوں کے تحفظ کے نظام میں بہتری لائے گا۔ ہر کانفرنس میں نتیجہ خیز
مشاورت کی جاتی ہے۔ مختلف ممالک کے لئے مذاکرات کار کو Sherpas اور Sous
Sherpas کہا جاتا ہے۔ جو کانفرنس کے دوران پیش رفت سے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔
آخرکار یہی مذاکرات کار کسی حتمی نتیجہ پر پہنچتے ہیں جسے کانفرنس میں
منظور کر لیا جاتا ہےwashington communique
میں شریک ممالک کی جانب سے کی جانے والی یقین دہانیوں اور معاہدات کی مفصل
رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ 2010 ء میں واشنگٹن ہونے والی این ایس ایس میں
عالمی رہنماؤں نے مشترکہ طور پر نیوکلیئر دہشت گردی کو سنجیدہ معنوں میں
لیا تھا۔ تمام شرکاء نے دنیا بھر میں ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ
جدوجہد کا عزم دوہراتے ہوئے شریک ممالک نے اپنی اپنی حدود میں ایٹمی مٹیریل
کے تحفظ کے لئے ذمہ دارانہ کردار کا عہد کیا۔ شریک ممالک نے اس بات پر
اتفاق کیا کہ عالمی کمیونٹی کی حیثیت سے ایٹمی تحفظ کے لیے مشترکہ جدوجہد
کی جائے گی۔پہلی ایٹمی تحفظ کانفرنس نتیجہ خیز رہی تھی اور 2012ء میں سئیول
میں ہونے والی دوسری کانفرنس میں 6 نئے ممالک جن میں آزربائیجان‘ ڈنمارک‘
گبون‘ ہنگری، لتیھواینا اور رومانیہ شامل ہیں نے بھی شرکت کی ان کے ساتھ
انٹر پول نے بھی خوش دلی سے شریک ہو کر اس جدوجہد میں کردار کا عہد کیا۔ اس
کانفرنس میں ایٹمی اثاثوں پرزہ جات‘ ریڈیالوجیکل ذرائع کی چوری اور نامناسب
غیر قانونی استعمال روکنے کے لیے واشنگٹن ورک پلان میں مزید اقدامات شامل
کیے گئے ۔ ریڈیالوجیکل ذرائع ایٹمی ہتھیاروں کی بناوٹ کے لیے ناقابل
استعمال ہیں ۔ لیکن یہ dirty bombs بنانے کے لیے انتہائی موزوں اور کارآمد
ہیں۔ یہ بم شعاعیں خارج کرتے ہیں جو معاشرتی تباہی کا بڑا سبب ہوتی
ہیں۔نیدر لینڈ میں 23 مارچ سے منعقد وہنے والی ایٹمی تحفظ کانفرنس میں قابل
حصول اور واضح مقاصد میں یورینیم اور پلوٹونیم کے استعمال میں کمی اور اس
کا تحفظ ، ایٹمی میٹریل کے تحفظ کے لیے کنونشن میں ترمیم کرکے اسے جلد
ازجلد "Force" کی شکل دینا، عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ایڈوائزری مشن
کی جانب سے حکومتوں کے سیکورٹی سٹرکچر کا بغور جائزہ لینا ‘ ریڈیو ایکٹو
ذرائع کی قومی سطح پر رجسٹریشن اور تحفظ( جیسے میڈیکل آلات وغیرہ) ایٹمی
تحفظ کے لیے انڈسٹری کے کرادر کو بڑھانا اور قواعد وضوابط کی پابندی ‘
حکومت کاخود عوام اور عالمی کمیونٹی کو مطلع کرنے جیسے قابل اعتماد اقدامات
عالمی تحفظ نظام کو تقویت بخشیں گے وغیرہ شامل ہیں۔
ایٹمی تحفظ کانفرنس میں شامل بعض ممالک اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ
آئندہ ایک مخصوص سیکورٹی سکیم متعارف کرائی جائے اور اس کے لیے زیادہ سے
زیادہ ممالک کی رائے حاصل کی جائے اس سلسلے میں نیدر لینڈ فورنسک انسٹی
ٹیوٹ رہنما کے طورپر کردار نبھا سکتا ہے ۔ قارئین…… ایٹمی تحفظ کے دوران
ایٹمی میٹریل کو داخلی وخارجی خطرات لاحق ہوتے ہیں اور بالواسطہ اور
بلاواسطہ دھمکیاں بھی ملتی ہیں ۔ سوویت یونین کی تقسیم اور نائن الیون کے
واقع کے بعد دہشتگردوں کے ہاتھوں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات ‘
خطرات بڑھ گئے ہیں…… شورش زدہ ملکوں میں مختلف قسم اور نوعیت کے دھماکے
ہورہے ہیں ۔ ان حملوں اور دھماکوں میں دھماکہ خیزمواد استعمال کیا جاتا ہے
۔ ایٹمی ہتھیار اگر محفوظ نہ رہے تو نہ کوئی ملک محفوظ رہے گا اور نہ ہی
دنیا…… ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے تمام
ممالک کو ایک قدم آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا…… ہیروشیما‘ناگاساکی کی تباہی دنیا
بھول نہیں سکتی۔ ہر دو کشیدہ ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ شمالی کوریا
‘ اسرائیل ‘ بھارت اور حتی کہ پاکستان جس کا ایٹمی پروگرام خالصتاً دفاعی
مقاصد کے لئے ہے خطرات سے دوچار تو ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں بارے
پراپیگنڈہ اب قدرے کم ہو گیا ہے۔ امریکہ کے افغانستان میں جاری جنگ کے عروج
پر یہ منفی پراپیگنڈے زیادہ تھے اب اتحادی افواج کا انخلاء شروع ہے اور
ڈرون حملوں میں تمام ہائی ویلیو ٹارگٹ بھی مارے جا چکے ہیں اس لیے ایٹمی
اثاثوں کے غیرمحفوظ ہونے کا واویلا نہیں ہو رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ
پاکستان کے ایٹمی اثاثے مکمل محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ جیمز مارٹن سنٹر برائے
تحقیق جوہری تخفیف اسلحہ کے مطابق امریکہ آئندہ 30 برسوں کے دوران اپنے
جوہری پروگرام کے تحفظ و ترویج پر ایک کھرب ڈالر خرچ کرنے کی پالیسی تشکیل
دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے…… امریکہ کے پاس 4650 جوہری ہتھیاروں کا
ذخیرہ ہے جن میں سے 2130 فوری طور پر قابل استعمال ہیں اس کے علاوہ 2700
ایسے جوہری ہتھیار ہیں جنھیں پرانا قرار دے دیا گیا ہے تاہم ان کو ابھی تک
تلف نہیں کیا گیا۔اسرائیل ،شمالی کوریا،بھارت،ایران،چین سمیت متعدد ممالک
کا جوہری پروگرام رکا نہیں……انسانیت کی تباہی کا سامان تیار ہو بھی چکا اور
ہوبھی رہا ہے……پوری دنیا کا ایٹمی توپوں کے دھانے پر ہونا کسی شک شبہ سے
بالا ہے ، ایسے میں اگر اس تباہی کے سامان کی حفاظت کی بجائے اس کے مکمل
خاتمے کی تجاویز سامنے آئیں تو زیادہ بہتر ہو گا، لیکن اپنے دفاع کی تیاری
کا حق تو کسی سے نہیں چھینا جا سکتا……امریکہ آئندہ 30 برسوں کے دوران اپنے
جوہری پروگرام کے تحفظ و ترویج پر ایک کھرب ڈالر خرچ کرے گا، دیکھتے ہیں
ھیگ کانفرنس میں کوئی اور ملک اس تحفظ کے لیے کیا کرتا ہے ۔ |