حکمرانوں کے لیئے الجھنیں

خاردار جھاڑیوں اور خاردار تاروں سے انسان کچھ جتن کرکے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے لیکن جہاں عمرانی، حکمرانی، معاشی اور حسد و بغض ،کینہ پروری کی الجھنوں سے دوچار ہوجائے تواعتدال اور عقل سلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔قرآن حکیم میں میدان جہاد سے پیچھے ہٹنے والوں کے بارے سخت وعید آئی ہے لیکن اسکے ساتھ ہی کچھ ایسے لوگوں کو استثنا دیا گیا کہ جو بہتر لام بندی اور اپنے جتھے کو مضبوط کرکے میدان جہاد میں کامیابی حاصل کریں۔پیچھے ہٹنے پر دشمن وقتی طور پر خوش تو ہوگا مگر جوابی کاروائی اسکے لیئے مہلک ثابت ہوگی۔ قرون اولیٰ کی فتوحات شام میں حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح نظام سلطنت کے بارے بھی تاریخ اسلام میں ہمارے حکمرانوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کی روشن مثالیں موجودہیں۔ اوصاف حکمرانی بھی اﷲ کی عنائت ہیں۔انہیں اوصاف حمیدہ کی بنا پر مسلمانوں نے مثالی اسلامی معاشروں کی ترویج کی اور مقاصد حکومت کو کماحقہ پورا کیا۔ آج کے حکمران انگریز کی نوآبادیاتی پیداوار ہے۔ ان کا نظام اور انکی فکرسیاست سبھی انگریز کی پالیسیوں کی مقید ہے۔ انکے مشیر امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ ان سے جاکر مشورے لیتے ہیں اور انہیں خطوط پر پاکستان کو چلاتے ہیں۔ منافقت کا بازار بارونق ہے۔ ملک ان گنت الجھنوں میں مبتلا ہے لیکن حکمران ان سے خلاصی کے حصول کے لیئے وہ راہیں تلاش کرتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ان کی سیاست اور اقتدار کو کوئی زک نہ پہنچے ۔ ہمارے حکمران طبقہ نے پاکستان کے آئین کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ اگر کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ آئین کا نفاذ عوام سے قبل حکمرانوں پر ہوتا ہے۔ میں ارباب اقتدار سے سوال کرتا ہوں کہ کیا انہوں نے آئین پاکستان پر عمل کیا؟ کیا اس ملک سے انگریز کا پینل کوڈ ختم کرکے قرآن و سنت کا نظام نافذ کیاکہ جس کا آئین کے اندر حکومت کو سات سال کا عرصہ دیا گیا تھا؟ کیا انگریز کی زبان کی جگہ آئین کے اندر موجود قومی زبان اردو کا نفاذ کیا؟ کیا پاکستان کے شہریوں کو برابر کے حقوق دیئے گئے جو آئین نے دینے کا وعدہ کیا تھا؟ کیا پاکستانی بچوں کو مفت تعلیم دی جارہی ہے ؟کتابوں کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ بچوں نے سکول کے راستے ترک کردیئے جبکہ آئین یہ کہتا ہے1[25A. Right to education.---The State shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manner as may be determined by law.]
پنجاب کے وزیر اعلیٰ صاحب نے سرکاری سکولوں کے بچوں کو سال میں ایک مرتبہ کتابیں مفت دینے اور اسکے بدلے کئی پبلشروں کو نوازا گیا کہ انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر کے لاکھوں طلبا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا۔ دوسری طرف طبقاتی نظام تعلیم بھی کیا آئین پاکستان کا حصہ ہے؟سرکاری سکولوں کے طلبا کی رجسٹریشن و امتحانی داخلہ فیسیں معاف کرکے تعلیمی بورڈزپنجاب کے اخراجات پورا کرنے کی ذمہ داری نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا اور پرائیویٹ طلبا پرڈالدیا گیا؟ یہ بھی آئین پاکستان کا آئینہ دار ہے کیا؟اسی طرح صحت کے معاملے میں آدھا تیتر آدھا بٹیرکے مصداق اٹھارویں آئینی ترمیم کے مطابق کچھ صوبوں کو اور زیادہ امور مرکز کے پاس رکھے گئے۔ ناقص اور مہنگی ادویات، بازار میں اصلی اور نقلی ادویات حکومتی اہلکاروں کے تعاون سے سرعام بیچی جارہی ہیں ۔ حکمرانوں کو اس سے کیا غرض؟ یہ تو عوام کے لیئے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو ادویات بازار سے خریدنی پڑتی ہیں۔کیا حکمرانوں کی آنکھیں بند ہیں ۔انہیں نظر نہیں آتا کہ غربت زدہ بچے کسطرح ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر مزدوری رہے ہیں۔ 3) No child below the age of fourteen years shall be engaged in any factory or mine or any other hazardous employment.

کیا معصوم جانوں سے کام لینا آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں جو حکمرانوں کی آئین کی خلاف ورزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ چند باتیں بطور نمونہ ہیں کہ اس ملک میں آئین کی حکمرانی اور نفاذ کتنا ہے۔پرویز مشرف کا سب سے بڑا جرم امریکہ کا گماشتہ بن کر اسلام دشمن صلیبی قوتوں کا آلہ کار بن گیا ۔ جس کا خمیازہ مسلم امہ بھگت رہی ہے ۔ لیکن اسکے خلاف عدالتی کاروائیوں میں اس بڑے جرم کا ذکر نہیں۔ وہ غدار اسلام ہے۔ ہمارے حکمران اور منصفین اگر نظام درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں یہ دیکھنا ہے کہ 7 اکتوبر 1958 کو جو آئین توڑا گیا کیا اس کا جواز ہے۔؟ کیا 1962 کا آئین فرد واحد کی خواہش کا آئینہ دار نہیں؟ 1973 کا آئین آسمانی صحیفہ نہیں۔اسے بندوں نے بنایا۔اگر قرآن پاک کی خلاف ورزی پر سزائے موت نہیں دی جاتی تو بندوں کے بنائے ہوئے خطوط پر کیا سزائے موت قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ اور اگر کوئی طالع آزما اور موقع پرست میری اس رائے سے اختلاف رکھتا ہے تو یہ بتائے کہ درج بالا سطور میں جو میں نے لکھا کہ اس آئین کی دھجیاں تو حکمران طبقہ خود اڑا رہا ہے۔ سیاست کے افق پر ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے ۔ محترم ضیاء الحق صاحب مرحوم نے جناب بھٹو مرحوم کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس میں بھی ہمارے ملک کے نامور سیاستدانوں کا ہاتھ تھا۔جو جناب کو امیرالمؤ منین بنانے میں خوب سرگرم تھے اور اس جدوجہد کے ثمرات سے وہ خوب مستفیذ بھی ہوئے۔ دنیائے اسلام کے عظیم اور ثابت قدم سیاستدان کو محض چند افراد اور امریکہ کے ایما پر راستہ سے ہٹانے کے لیئے عدلیہ کے کندھے استعمال کیئے گئے۔ عدلیہ کا وقار پوری دنیا میں ملامت زدہ ہوا۔جناب ضیا صاحب نے اختتام زیست کے نظریہ کو نظرانداز کرتے ہوئے سیف قاتل اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیئے اسی مقدس آئین کا تیاپاچا کیا۔ جسے ہمارے نامور سیاستدانوں نے خوب سراہا۔ 12 اکتوبر 1998 کو بھی آرمی کے سربراہ نے بھی جو قدم اٹھایا اسکے پس منظر میں کچھ تو تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں امریکہ کے افغانستان پر حملے میں انہوں نے امریکہ کا ساتھ دے کر امت مسلمہ کی نگاہوں میں اپنے آپ کو مطعون و ملعون بنادیا۔ انہیں بھی ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت نے خوش آمدید کہا اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیئے دربارشاہی میں اپنی وفاداریوں کا اظہار کرتے ہوئے فرشی سلام کیئے۔ عدلیہ نے بھی ان کے اقدامات کی توثیق کی ۔ جناب پرویز مشرف صاحب نے افواج پاکستان کی عمدہ کمانڈ کی۔ انہوں نے آئین کو جزوی معطل رکھا جیسا کہ جناب ضیا ء الحق صاحب نے کیا تھا۔ یہ کوئی نئی بات تو تھی نہیں اس ملک کے ساتھ حضرت قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے بعد ایسا ہی ہوتا چلا آیا۔ چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بد نام کیا کے مصداق اب پھر سارا ملبہ عدلیہ پر ڈالا جارہاہے۔ میری گذارش ہے کہ حکمران اس قضیہ کو دفع کریں اور ملک و عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دیں۔ غربت و افلاس، بیروزگاری، بجلی و گیس، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا علاج کریں۔ اگر خواہ مخواہ پرویز مشرف کے اقدامات پر کاروائی کرنی ہی ہے تو 12 اکتوبر 1998 سے کریں ۔ کہ وہ باد نما جو جناب میاں نواز شریف صاحب کا ساتھ چھوڑ کر جناب پرویز مشرف صاحب کی کابینہ میں شام رہ کر اب دوبارہ جناب میاں صاحب کی عنایات کے مزے لے رہے ہیں، وہ لوگ بھی حاضر عدالت ہوں، وہ جج صاحبان جنہوں نے محترم سابق صدر کے اقدامات کی توثیق فرمائی تھی وہ بھی حاضر عدالت ہوں ۔ یہ کوئی انصاف نہیں کہ ایک فرد واحد کو ذاتی بغض و عناد کا نشانہ بنایا جائے اور باقی چوری کھانے والے مجنوں چوریاں کھاتے رہیں۔ اﷲ پاک سے ڈرو ۔ کوئی مصیبت اگر ٹل گئی تو اﷲ کا شکر ادا کرو۔ اسکی لاٹھی موجود ہے بے شک نظر نہ آئے۔ مقاصد حکومت پورے کریں۔ اﷲ توفیق دے۔ آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128267 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More